دشمن اصحابہ کی عبرتناک موت-ایک سچا واقعہ

یہ ایک سچہ واقعہ ہے اور یہ میرے والد صاحب کے دوست کے کزن کیساتھ پیش آیا۔ جن کا تعلق منڈی بہاولدین سے ہے۔ آئیے ان کی زبانی سنتے ہیں۔

میں نے اور میرے دو دوستوں نے کچھ عرصہ پہلے عمرہ شریف پہ جانے کا ارادہ کیا اور عمرہ شریف کی تیاری شروع کر دی۔ ہمارا تعلق منڈی بہاولدین کے قریبی گاؤں سے ہے۔ ہم دوستوں نے عمرہ شریف کی تیاری کے سلسلہ میں کچھ کپڑے خریدنے کا سوچا اور منڈی بہاولدین شہر میں آ گئے۔ سب نے اپنے لئے کپڑے خریدے۔ اس کے علاوہ ہم لوگوں نے عمرہ کیلئے احرام کی چادریں بھی خرید لیں۔ احرام کیلئے جو چادریں لیں ان کے کونوں سے دھاگے نکل رہے تھے۔ دوکاندار کی ہدایت پر ہم لوگ قریبی ایک درزی کے پاس چلے گئے اور اسے کہا کہ ان کناروں کو تھوڑا تھوڑا فولڈ کر کے سلائی کر دے۔ درزی نے پوچھا کہ کیا آپ لوگ عمرہ کیلئے جا رہے ہیں تو ہم نے مسرت سے ہاں میں جواب دیا تو اس نے کہا کہ آپ آدھے گھنٹے تک آ کر لے جائیں۔ ہم وقت گزارنے کیلئے بازار میں گھومتے رہے۔

آدھے گھنٹے بعد ہم درزی کے پاس گئے تو اس نے احرام تیار کر دئیے تھے، ہم نے اس سے پیسے پوچھے تو اس نے پیسے لینے سے انکار کر دیا لیکن کہا کہ میرا ایک کام کر دینا، یہی میری اجرت ہو گی۔ ہم نے پوچھا کون سا کام ؟ اس نے ہمیں ایک کاغذ کا رقعہ دیا اور کہا کہ جب آپ لوگ عمرہ کیلئے جائیں تو اسے مسجد نبوی میں رکھ دیجئے گا۔ ہم نے حامی بھر لی اور اپنے گاؤں لوٹ آئے۔

اللہ اللہ کر کے وہ دن بھی آ گیا کہ ہم لوگ عمرہ کیلئے حرمین طیبین پہنچ گئے اور بڑی خوشدلی سے عمرہ شریف کی سعادت حاصل کی اور پھر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری کیلئے مدینہ شریف روانہ ہو گئے۔ مسجد نبوی شریف میں جا کر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پہ حاضری کا شرف حاصل کرنے کے بعد ہم لوگ اپنے ہوٹل میں چلے گئے۔ اسی طرح کافی دن گزر گئے لیکن اس درزی کا دیا ہوا رقعہ مسجد نبوی میں رکھنا یاد نہ رہا۔ ایک دن حسب معمول میں مسجد نبوی کے پاس بیٹھا تھا تو یکدم اس درزی کا خیال آیا تو میں نے فوراً اپنی جیبیں ٹٹولیں اور اس کا رقعہ نکال لیا اور مسجد میں کوئی محفوظ جگہ ڈھونڈنے لگا۔

میرے دل میں اچانک خیال آیا کہ اس درزی کا رقعہ تو پڑھنا چاہئیے کہ اس نے اپنے رقعہ میں کیا لکھا ہے (ہے تو یہ میرا غلط کام تھا) لیکن تجسس کی وجہ سے میں نے وہ رقعہ کھول کر پڑھ لیا۔ اس رقعے کو پڑھتے ہی میرے سارے جسم پہ کپکپی طاری ہو گئی اور میرا دماغ غصے سے پھٹنے لگا اور میں وہیں بے سدھ ہو کر بیٹھ گیا کہ اس درزی نے اس رقعہ میں کیا لکھ ڈالا !!!

اس کم بخت نے رقعہ میں لکھا تھا کہ
"یارسول اللہ آپ کے پاس حاضر ہونے کو دل تو بہت کرتا ہے لیکن آپ کے ساتھ لیٹے دو دشمنوں کی وجہ سے میں حاضر نہیں ہو سکتا"

تھوڑی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد میں نے ہمت کی اور اس رقعہ کو پھاڑ کر مسجد نبوی کے پاس کوڑے دان میں پھینک دیا اور غصے کی حالت میں اپنے ہوٹل آ گیا۔ میرے دوستوں نے سمجھا شائد میں بیمار ہو گیا ہوں۔ میرا سارا دن غیض و غضب میں گزرا کہ اس خبیث نے ہمیں کیا رقعہ دے کر بھیجا ہے۔ خیر اسی اثنا میں رات ہوگئی اور رات کے کسی لمحے میں نیند کی آغوش میں چلا گیا اور خواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت سے مستفید ہوا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت جلال میں بیٹھے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آپکے پاس کھڑے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہ اس گستاخ کی اتنی ہمت کہ میرے اصحاب کے بارے میں کوئی بات کرے !!! اور پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ اس گستاخ کو عبرتناک سزا دو۔ پھر خواب کا منظر تبدیل ہوتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک تیز رفتار گھوڑے پہ آ رہے ہیں اور آپکے سامنے وہ منڈی بہاولدین والا درزی کھڑا ہے اور آپ رضی اللہ عنہ نے تلوار کے ایک ہی وار میں اس کم بخت کی گردن تن سے جدا کر دی۔ پھر میرا خواب ٹوٹ گیا اور میں ہڑبڑا کر اٹھ گیا اور کافی دیر تک اس خواب کے بارے میں سوچتا رہا۔ اس خواب کے بعد عجیب طریقے سے میرا غصہ جاتا رہا اور میری روح کو ایک اطمینان ہوا۔

ہم نے عمرہ شریف کے باقی دن مدینہ منورہ گزارے اور بعد میں مکہ میں ایک الوداعی عمرہ ادا کر کے ہم لوگ واپس آ گئے۔ پاکستان واپس آ کر دو دن بعد میں اس درزی کے پاس گیا کہ جا کر اس کی اس گستاخانہ حرکت پر اسے سزا دوں۔ لیکن جب میں اس کی دوکان کے پاس گیا تو دیکھا کہ وہاں تالہ لگا ہوا ہے۔ میں نے ساتھ والی دوکان کے ہمسائے سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ اس درزی کا چند دن پہلے قتل ہو گیا ہے۔ میں حیران ہو گیا اور اس سے پوچھا کہ کب قتل ہوا؟ کیسے ہوا؟ کس نے کیا؟ تو اس دوکاندار نے بتایا کہ چند دن پہلے درزی اپنے گھر میں سویا ہوا تھا کہ رات کو قضائے حاجت کیلئے اٹھا۔ ابھی وہ بیت الخلاء کے پاس ہی پہنچا تھا کہ کسی نے اس کی گردن پر تیز دھار کے آلے سے حملہ کر کے اس کی گردن تن سے جدا کر دی۔ علاقہ کی پولیس کو جائے وقوعہ سے کوئی شہادت نہیں ملی اور نہ ہی آلہ قتل برآمد ہوا۔ یہ قتل سب لوگوں کیلئے ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ میں نے اس دوکاندار سے درزی کو قتل ہونے کا وقت اور تاریخ پوچھی تو اس کے بتانے پر مجھ پر سکتہ طاری ہو گیا کہ وہ وہی دن، تاریخ اور وقت تھا جس وقت میں نے وہ خواب دیکھا تھا۔

میں وہاں سے سلام کر کے اپنے گھر چلا آیا۔ اور تب سے اب تک توبہ کر رہا ہوں کہ کیوں میں اس کا رقعہ وہاں لے کر گیا۔ لیکن اس بد بخت کو سزا کے بعد میری روح بڑی حد تک مطمن ہو گئی ہے۔

اوپر والے حقیقی واقعہ کو مدنظر رکھتے ہوئے میں آپ سب لوگوں کو اصحابہ اکرام کی دل و جان سے عظمت و توقیر کرنے کی نصیحت کرتا ہوں۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب دین اسلام کے وہ تابندہ ستارے ہیں جن کو دنیا میں ہی آخرت کی کامیابی کی نویدیں سنا دی گئیں تھیں۔ لیکن احتیاط کی ضرورت آج ہم لوگوں کو ہے کہ کہیں اصحاب کے بارے میں غلط باتیں کہہ کر ہم اپنا ایمان ضائع نہ کر لیں اور جہنم کے حقدار نہ ٹھہریں۔

تقدس کا جہاں، تقوٰی کا عالم، معظم محترم اکرم مکرم
رفیع و برتر و اعلٰی موقر، ابوبکر و عمر عثمان و حیدر
Muhammad Athar Rizvi
About the Author: Muhammad Athar Rizvi Read More Articles by Muhammad Athar Rizvi: 3 Articles with 9657 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.