دولت سے غربت کی تخلیق

رمضان کا مہینہ کی آمد کے ساتھ مسلمانوں میں چہل پہل شروع ہوچکی ہے ہر کسی کو رمضان کی آمد کا انتظار رہتا ہے ۔اللہ کے نیک بندے اس انتظار میں ہیں کہ رمضان میں اپنے آپ کو جہنم سے آزاد کرانا ہے تو کچھ اللہ کے بندے یہ عہد کرتے ہیں کہ اس بار رمضان سے ساری برائی بند اور روزے کے ساتھ ساتھ اب سال بھر نماز بھی پڑھیں گے یہ اور بات ہے کہ روزے کے رخصت ہونے پر ایسے لوگ اپنے عہد و پیمان بھول جاتے ہیں اور اقبال کے الفاظ میں مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے ویسے رمضان میں ایک گروہ ایسا بھی ہے جو سب سے زیادہ مستعد رہتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان عام طور سے اپنے مال کی زکوة اسی مبارک مہینے کے اندر نکالتے ہیں اس بات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں میں ہر سال زکوة ادا کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے واقعی میں یہ خوشی کی بات ہے کہ مسلمان صاحب استطاعت ہوتے جا رہے ہیں لیکن کیا کبھی ہم نے اس پر غور کیا ہے کہ ہر سال مستطیع مسلمانوں کی بڑھتی تعداد کے باوجود اس مبارک مہینے میں بھیک مانگنے والوں کی تعداد میں حیرت انگیز اضافہ ہوتا جا رہا ہے پہلے تو گھر اور دوکانوں پر بھیک طلب کی جاتی تھی لیکن تیز رفتاری کے اس دور میں فقیروں نے بھی اپنے پرانے منہج کو چھوڑ کر ہر جگہ لوگوں کے سامنے اپنی ہتھیلی پھیلانے کا عمل شروع کردیا ایک طرف تو قوم کی دولت میں اضافہ ہوتا جارہا ہے تو دوسری طرف قوم کے اندر زکوة کے طالبین کی تعدادمیں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے کوئی مسجد ایسی نہیں رہتی ہے جس کے دروازے پر اس مہینے کے اندر مانگنے والوں کی بھیڑ نہ لگی رہتی ہو یہ اور بات ہے کہ اس میں کسی کو بھی نماز پڑھنے کی توفیق نہ ملے لیکن قوم کی فیاضی کا یہ عالم کہ ہم مسجد کے دروازے پر جمع ہونے والوں ان فقیروں کو نواز کر ان کی تعداد میں اضافہ کرتے جا رہے ہیں کبھی ہم یہ سوچنے کی زحمت گوارہ کی ہے کہ ہر سال کروڑوں اربوں روپئے کی زکوة نکالنے کے باوجود قوم کی غربت میں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ ہے کہ ہم نے زکوة کے نظام کو تبدیل کردیا ہے جس کی وجہ سے قوم کے مسائل حل ہونے کے بجائے ہر سال بڑھتے ہی جا رہے ہیں اسلام کے بنیادی ارکان اجتماعیت کی نمائندگی کرتے ہیں اور زکوة اسلام کا تیسرا بنیادی رکن ہے جسے ہم نے اجتماعیت کے دائیرے سے باہر نکال دیا ہے اور ہر شخص انفرادی طور پر زکوة ادا کر رہا ہے جسکی وجہ سے زکوة کا پورا نظام اپنے معنویت کھو چکا ہے اور اربوں روپئے کی ہندوستانی زکوة بے معنی ہوچکی ہے اگر اس زکوة کو اجتماعی طور سے نکالا جائے اور اسے ایک مرکز پر جمع کیا جائے سارے مسلمان ایک مرکز پر نہ جمع ہوسکیں تو کم ازکم ہر جماعت اپنا ایک مرکزی بیت المال ترتیب دے اور اس بیت المال میں عمال مقرر کئے جائیں اور اس طرح کا نظام ترتیب دیا جائے کہ زکوة کی ساری رقم اس مرکزی بیت المال میں جمع کی جائے اور پھر ملک کے اندر علاقائی بنیاد پر مسائل کی فہرست سازی کیاجائے اور ایک منصو بے کے تحت زکوة کی رقم کو خرچ کیا جائے جس کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے اور مسائل کا خاتمہ بھی ہوگا اور اگر ہم یہ سوچتے ہیں کہ ہم انفرادی طور پر ہی زکوة ادا کریں گے اس کے لئے کوئی نظام ترتیب نہیں دیں گے تو اس ہم قوم کے اندر بھکاریوں اور فقیروں کی فوج تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن کسی فقیر کو مستطیع نہیں بنا سکتے ہیں اور اگر بیت المال کا نظام نہ ہوتو اسے ترتیب دینے کی کوشش کریں عام طور سے لوگ بیت المال کے مروجہ نظام سے شاکی ہیں کیونکہ بہت ساری جگہوں پر بیت المال قائم بھی ہیں لیکن لوگوں کے تاثرات یہ ہیں کہ ذمے داران اسے اپنے مصرف میں استعمال کرتے ہیں اور مستحق لوگوں کو واپس لوٹا دیتے ہیں اور جب کسی بیت المال سے شادی کے اخراجات مانگنے پر پانچ سو سے لیکر ایک ہزار تک امداد کی جاتی ہے تو لوگ بیت المال سے بھی متنفر ہو جاتے ہیں اسی طرح بہت سارے بیت المال کا نظام ہے کہ بیت المال سے ایک مقرر ہ رقم ہی مستحقین پر خرچ کی جاتی ہے اور جب وہ رقم پوری ہوجاتی ہے تو بیت المال میں رقم ہونے کے باوجود مستحقین کی مدد نہیں کی جاتی ہے محض اس خوف سے کہ کہیں بیت المال خالی نہ ہوجائے بیت الما ل کے قیام کے مقصد اس میں مقرر ہ رقم کی موجودگی نہیں ہے بلکہ اس کے قیام کا مطلب ہی ہوتا ہے کہ مستحقین پر جمع شدہ رقم خرچ کی جائے ۔کیونکہ زکوة کی وصولی ہر سال کی جاتی ہے اس لئے رقم کوبیلنس رکھنا بھی زکوة کی معنویت کو ختم کردیتا ہے۔بہت سارے حضرات اپنی زکوة کا ایک بڑا حصہ مدارس پر غیر اخلاقی ڈھنگ سے خرچ کرتے ہیں کیونکہ سفراء کو بار بار اپنے در کی زیارت پر مجبور کیا جاتا ہے یا پھر مخصوص راتوں میں اپنے دروازے پر لائن لگوا کر زکوة تقسیم کی جاتی ہے جس میں ریا اور نمود کا جذبہ زیادہ کارفرما ہوتا ہے زکوة کا نکالنا اور اس کا ادا کرنا یہ کوئی کسی پر احسان نہیں کرتا ہے کیونکہ صاحب مال پر زکوة کی ادائیگی فرض ہے اوراس فرض میں کوتاہی کرنے والا اللہ کے یہاں قابل مواخذہ ہوگا ۔معزز سفراء کرام سے معذرت کے ساتھ ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ اب بہت سارے لوگ اسے بطور پیشہ اپنا رہے ہیں اور نصف یا نصف سے زائد کے معاہدے پر وہ چندے کے لئے آتے ہیں جن میں سے بیشتر کا یہ حال ہوتا ہے نہ انھیں روزوں سے غرض ہوتی ہے اور نہ نماز سے بس وہ اپنی رسید لئے اس دروازے سے اس دروازے تک بھٹکتے رہتے ہیں اور جب ان کی اپنی نیت ہی درست نہیں رہتی ہے تو کیسے ان کی کوئی عزت کرے گا رمضان کا مقدس مہینہ ایسے لوگ صرف او ر صرف چندے کی بھاگ دوڑ میں ختم کر دیتے ہیں اور بہت سارے جعلی سفیر بھی مدارس کے نام پر آدھمکتے ہیں گویا کہ اس مقدس مہینے میں کچھ لوگ اللہ کی عبادت کا فریضہ انجام دیتے ہیں توکچھ لوگ اپنی عاقبت خراب کرکے اللہ کے بندوں کو دھوکہ دینے کا کام کرتے ہیں -
khan jalal
About the Author: khan jalal Read More Articles by khan jalal: 5 Articles with 3442 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.