امن عالم کی ضمانت

شطرنج کے کھیل میں سب سے طاقت ور مہرے کو فرزین (QUEEN )کہاجاتاہے ،گئے وقتوں میں عالمی سیاست کی بساط پر فرزین کا کردار سکندراعظم ،چنگیزخان اورہٹلربستیوں کی بستیاں اجاڑ کراداکرچکے ہیں۔ اس وقت دنیاکی سیاست میں ریاستہائے متحدہ امریکہ کاکردار شطرنج کے فرزیں (QUEEN )کی مانند ہے ۔ امریکہ جس طرح اپنے مفادات کے حصول کے لئے کمزورملکوں کے زمین وآسمان زیروزبرکرنے میں ذرانہیں جھجکتاوہ دنیاکے کسی باشعور انسان سے پوشیدہ نہیں ۔امریکہ کے زیرعتاب ملک پرسب سے پہلے توانسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات عائد کئے جاتے ہیں اورپھرآگ وبارود کی برکھااس پرچھاجاتی ہے حتیٰ کہ اس ملک کے میدان امریکی فوجوںکے لئے ہموار ہوجاتے ہیں۔گزرے زمانے میں زندہ انسانوں کے ساتھ جوسلوک چنگیز خان کی قیادت میں تاتاریوں کاتھااس سے کہیں زیادہ براسلوک امریکی افواج اپنے مفتوحہ ممالک کے عوام کے ساتھ کرتی ہیں ۔ابوغریب جیل اورگوانتاناموبے کے قیدخانوں میں اسیروں کے ساتھ ہونے والا غیرانسانی سلوک اسی وحشیانہ امریکی جبلت کی عکاسی کرتاہے ۔

امریکی حکمرانوں کوجس خطہ میں اپنے مفادات دکھائی نہیں دیتے وہاں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاںکو بھی معمول کے واقعات قراردے کر آنکھیں بندکرلی جاتی ہیں۔دوسروں کی طرف سے توجہ دلانے پر باہمی مسائل خود مل بیٹھ کرحل کرنے کی نصیحت کرکے اپنادامن چھڑانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔عالمی سیاست میں امریکہ کے ان دوہرے معیارات نے پوری دنیامیں امن کے خواب کوکرچی کرچی کردیاہے ۔امریکہ کے اس دوہرے معیار کی جھلک امریکی صدر باراک اوبامہ کے اس حالیہ انٹرویو میں بھی نظرآتی ہے، جس میں انہوں نے مقبوضہ جموں وکشمیرکے دیرینہ پاک بھارت تنازعے پر کہاہے کہ ”جموں وکشمیر کامسئلہ پاکستان اوربھارت کوخودطے کرناہوگاامریکہ سمیت کوئی بھی تیسراملک اس مسئلے میں مداخلت کرسکتاہے نہ اس کاکوئی حل دونوں ملکوںپرمسلط کرسکتاہے ۔“دوہرے معیارات پرمبنی ان کایہ بیان جنوبی ایشیامیں امن قائم رکھنے کے حوالے سے امریکہ کی اندرونی سوچ کاواضح اظہاربھی ہے ۔وہ ان الفاظ کواداکرتے ہوئے اس حقیقت کو جان بوجھ کرفراموش کرگئے کہ جنوبی ایشیاکے امن کے لئے پاکستان اوربھارت کے درمیان اس تنازع کافیصلہ منصفانہ بنیادوں پرناگزیر ہے ۔تنازعہ کشمیر پروہ یہ رائے دے کرنہ صرف بھارتی مظالم کی کھلم کھلا حمایت کے مرتکب ٹھہرے ہیں بلکہ اس سچائی کے برسرعام اظہارکے موجب بھی بنے ہیں کہ انہیں دنیاکے امن سے کوئی دلچسپی نہیں ۔

امریکی صد ر باراک اوبامہ کایہ سفاکانہ بیان اقوام متحدہ کی قراردادوں سے منحرف بھارت کی پیٹھ ٹھونکنے کے مترادف ہے اوراسے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے استحقاق کومجروح کرنے والے ہر راستے پرچلنے کی اجازت دینے کاقصدبھی ہے ۔ اس خطے میں قیام امن کے لئے پوری دنیاکے امن پسند پاکستان کی ان کوششوںکے بارے میں کسی بھول چوک کاشکار نہیں جوا س نے بھارت کی طرف دوستی اورتعاون کاہاتھ پہلے بڑھاکرکی ہیں۔پاکستان نے ہمیشہ اس خطہ کے ڈیڑھ ارب انسانوں کے محفوظ مستقبل کے لئے سیاسی ،سفارتی اورثقافتی سطح پرٹھوس حکمت عملی اپنا کر مثبت کرداراداکیاہے مگربھارت نے جنگ کی فضاپیداکرنے کاکبھی کوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیا ۔پاکستان اوربھارت کے درمیان موجود اس تنازعے کی وجہ سے جنوبی ایشیا کے عوام دوجنگیں بھگت چکے ہیں جبکہ متعددباردونوں ممالک کی فوجیں سرحدوں پرایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوئی ہیں۔جنوبی ایشیامیں امن کی فضاکوبرقراررکھنے کے لئے ان دنوں کنٹرول لائن پر چھائی ہوئی موجودہ خاموشی بھی پاکستان کی مرہون منت ہے کہ اس نے اپنی امیدیں دنیامیں رائج اقوام متحدہ کے اصول وضوابط سے وابستہ کررکھی ہیں اور اس تنازع کوحل کرنے کے لئے اس سے متواتر کلیدی کرداراداکرنے کامطالبہ بھی کررہاہے ۔وگرنہ بھارت تو پاکستان سے اس خطے میں اپنی مکمل اجارہ داری کے قیام کے لئے اس مسئلہ کوطاق نسیاں میں ڈال کر پیارکی پینگیں بڑھانے کاہمیشہ سے متمنی رہا ہے ۔ لیکن پاکستان کے باضمیر شہری ڈیڑھ کروڑ انسانوں کوان کے پیدائشی حق سے محروم کرنے کے مذموم فعل کی حمایت کرنے کاحوصلہ نہیں کرسکتے اورپھرایسی صورت میں معاملہ اوربھی حساس صورت حال اختیار کرجاتاہے جب اقوام متحدہ 65 سال پہلے اس حق خودارادیت کوتسلیم کرکے اس کی ضمانت دے چکی ہو۔امریکی صدرباراک اوبامہ جس مسئلہ میں مداخلت نہ کرنے کاعندیہ ظاہرکررہے ہیںوہ مفاداتی عناصرسے مرکب ان کی خارجہ پالیسی کے ان تضادات کوبھی نمایاں کرتاہے جنہیں وہ اس قسم کی اٹکل پچو بیان بازی کے جوہر دکھاکر چھپانے کی کوشش کررہے ہیں ۔

جس مسئلہ کے حل کے لئے وہ مداخلت نہ کرنے کاعندیہ ظاہر کررہے ہیں اسی مسئلہ پرامریکہ پاکستانی موقف کی حمایت کرچکاہے اور سردجنگ کے زمانے میں جب بھارت سوویت یونین کے چھتری تلے کھڑاتھا،ان کے پیش روآئے روز تشویش کے اظہار کواپنااصولی فریضہ سمجھتے تھے ۔ان کی یہ بات درست ہے کہ باہمی تنازعات بالآخر متعلقہ ممالک کی رضامندی سے ہی طے پاتے ہیں لیکن ان کے اس بیان کی حقیقت سے پوری دنیاآگاہ ہے ۔عالمی سیاست میں معمولی سی دلچسپی رکھنے والے کسی فرد سے یہ پوشیدہ نہیںکہ امریکہ دنیاکے ہرپھڈے میں ٹانگ اڑانااپنافرض منصبی سمجھتاہے ۔ایسے میں ان کایہ بیان اپنی معنویت کھودینے کے باوجود لوگوں پرسوچنے کے کئی دبستان کھولتااوراس کی تہوں میں پوشیدہ عزائم کوبھی آشکار کرتاہے کہ امریکہ اس خطے میں داداگیری کے لئے بھارت کاانتخاب کرچکاہے ۔

انسانی حقوق کے پرچارک ملک امریکہ کے صدر باراک اوبامہ اپنے نئے داداگیر بھارت کی خوشنودی کے لئے اس جملے کواداکرتے ہوئے بھول گئے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر کی وادیوںمیں بسنے والے حریت پسند اپنے بنیادی حق کے حصول کے لئےہزاروں جانوں کانذرانہ پیش کرچکے ہیں ۔ سالہاسال سے آزادی کے خواب اپنے آنکھوں میں سجائے ان کشمیریوں پر کالی دیوی کے پجاریوںنے جس طرح تمام عالمی ،انسانی ،اخلاقی قوانین کوبالائے طاق رکھ کروحشیانہ تشددکانشانہ بنانے کاوطیرہ اختیار کررکھاہے اس کی تصدیق اقوام متحدہ کی یہ رپورٹ بھی کررہی ہے جس کے مطابق مقبوضہ جموں وکشمیرمیں 1989 ءسے 2009 ئتک مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج اورنیم فوجی دستوں کے آپریشنز کے نتیجہ میں 8 ہزارسے زائدافرادلاپتاہوئے ۔اپریل 2008 ءسے نومبرتک سول سوسائٹی کے اداروں نے 55 دیہات میں 2700 گمنام قبریں دریافت کیں ۔ اپریل 2008 ءسے نومبر2009 ءکے دوران مقبوضہ وادی کے تین اضلاع کے 55 دیہات میں قبریں دریافت ہوئی ہیں ،جن میں بارہمولہ میں 1321 ،کپوارہ میں 1487 سے زائد اوربانڈی پورہ میں 135 نعشیں برآمد کی گئیں ،کئی قبروں میں ایک سے زائد نعشیں پائی گئی ہیں۔

مقبوضہ کشمیر کے باسیوں سے یہ انسانیت سوز سلوک جہاں پوری دنیاکی امن پسند قوتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے وہاں عالمی طاقتوں کی منافقانہ پالیسیوں کوبھی بے نقاب کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کرتاہے کہ موجودہ دورکاترقی یافتہ انسان ابھی تک بھی اس مقام پر نہیں پہنچاجوحق کوطاقت تسلیم کرتاہو بلکہ صدیوں کے سفر کے بعد بھی دنیامیں ”طاقت ہی حق ہے “کاوہی قانون نافذ ہے جوجنگل کے معاشرہ کاخاصہ ہوتاہے۔انسانی حقوق کے پرچم تلے امن کی فاختائیں اڑاتی اقوام متحدہ بھی جنگل کے اس قانون کوبرقرار رکھنے میں بڑی قوتوں کی آلہ کاربن چکی ہے ۔اقوام متحدہ کاچارٹر بھی کمزورملکوں کی پالیسیوںمین ردوبدل کے لئے استعمال ہوتاہے جب کہ طاقت ور ممالک اسے کاغذ کے ایک ردی ٹکڑے سے زیادہ اہمیت دینے کوتیار نہیں ۔جب طاقت ورممالک کے مفادات کاتحفظ مقصود ہوتویہی اقوام متحدہ ان ممالک کی مرضی کے مطابق فوری فیصلے کرنے کے لئے انسداد دہشت گردی کی عدالت کاروپ دھار لیتی ہے اورعالمی طاقتیں اس سے مداخلت کے پروانے لے کر جہاں چاہے گھس جاتی ہیں اورمتعلقہ فریقین کوان کے اشاروں پرچلناپڑتاہے اوراقوام متحدہ کایہ ادارہ جمہوریت ،امن ،انسانی حقوق اوردوسرے متنوع فلسفوں کورائج کرنے کاجھانسہ دے کراپنی مرضی کے مطابق ان کے سیاسی زاویئے ،سماجی نظریئے اورمعاشی زائچے بنانے کافریضہ بھی سنبھال لیتاہے ۔

ان عالمی قوتوں نے دنیاکے متعددعلاقوں پرجبری قبضے کررکھے ہیں ،لوگ آزادی کی تحریکیں چلاکر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں اور وحشی لشکروں کی گولیوںاپنی چھاتیوں پرجھیل رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ کوانسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں سے کوئی علاقہ نہیں۔مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورت حال بھی اسی وجہ سے دگرگوںہے کہ اس وادی سے ہرروز لاکھوں سسکیاں ،چیخیں اورکراہیں نکل کر فضاﺅں میں تحلیل ہوجاتی ہیں لیکن اقوام متحدہ کے بڑوں کے کانوں میں کوئی ارتعاش پیدانہیں کرسکتیں جس کی وجہ بھی یہی عالمی طاقتیںہیں جنہیں اپنے مفادات کی بساط پرکشمیر کاکوئی مصرف نظر نہیں آتاوگرنہ توحالت یہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں 10 لاکھ بھارتی فوج اورسکیورٹی فورسز کی تعیناتی کے بعد گزشتہ 20 برسوںکے دوران 17 ہزار سے زائد کشمیریوں نے خودکشی کی ہے جن میں 62 فیصد خواتین شامل ہیں ۔بھارتی فوج کولامحدود اختیارات اورشک کی بنیاد پرگرفتارکرکے فوجی چھاﺅنیوں میں قائم نجی جیلوںمیں قیدکرنے کاغیرانسانی حربہ بھی کشمیر میں خودکشیوں کے بڑھتے ہوئے رحجان کاسبب بن رہاہے ۔اگراس طرح کی صورت حال کسی اورریاست میں ہوتی اوراس سے ان عالمی طاقتوں کے مفادات بھی وابستہ ہوتے تواب تک بھارت پرچاروں طرف سے یلغارہوتی اوران مظالم پرعالمی عدالت انصاف کے کٹہروںمیں بھارتی جرنیل خوف خمیازہ کے زیراثر تھر تھر کانپ رہے ہوتے ۔

امریکی صدر باراک اوبامہ کے اس جملہ میں ہمارے تزویراتی منصوبہ سازوں کے لئے بھی کئی اسباق پوشیدہ ہیں ۔ انہیں بھی چاہئے کہ وہ امریکہ کے ساتھ اپنی یک طرفہ دوستی کوچھوڑکراپنی قوم کی بہتری کے لئے اپنااصولی کرداراداکریں ۔انہیں وہ دن نہیں بھولنے چاہئیں جب امریکہ نے ان کی معاونت سے سوویت یونین کو افغانستان میں شکست دے کر دنیامیں کلیدی کردارکامنصب چھینالیکن انہیںبھنور کے بیچ چھوڑکر اڑنچھوہوگیا۔انہیں امریکہ کی اس دوستی میں ناقابل تلافی نقصانات سے دوچارہوناپڑالیکن امریکہ کواس کی کوئی فکر نہ تھی۔ نئی صد ی کے آغاز میں دہشت گردی کے خلاف کے جنگ میں ایک بارپھروہ اپنی بقاکے لئے انہیں استعمال کرنے سے بازنہیںآیااورنتیجہ میں سرمایہ کاری میں کمی ،توانائی کابحران اوربلوچستان ایشو جیسے روگ میں مبتلاکردیا۔اس بے سروپاجنگ کی وجہ سے ہماراملک ایک طرف تو دہشت گردقوتوں کاہدف ٹھہراہے ،دوسری طرف ڈرون حملوں اورہیلی کاپٹروں سے برسنے والی موت کابھی نشانہ بن رہاہے لیکن امریکہ اس موقع پراپنا مثبت کردار اداکرنے کی بجائے ہمارے حریف بھارت کوتھپکی دے کردادگیربنانے میں مصروف ہے اوراس کی داداگیری میں انتہائی حساس ٹیکنالوجی کا تحفہ دے کررنگ بھی بھررہاہے ۔

بھارت اسی امریکی تھپکی کی بدولت مقبوضہ جموں وکشمیر میں اپنے10 لاکھ فوجیوں کے زورپر ڈیڑھ کروڑ انسانوں کوان کے بنیادی انسانی حق سے محروم رکھنے کے لئے کچل رہاہے ۔افغانستان کے 15 شہروں میں موجود ا س کے قونصل خانے پاکستان کے خلاف دن رات سازشوں کے جال بچھانے میں مصروف ہیں ،پاکستان مخالف گروہوں کو امداد فراہم کی جارہی ہے اورپاکستان مخالف سرگرمیوں میں بھی معاونت فراہم کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی ۔ان حالات میں ہماری ہیئت مقتدرہ کوبھی تابعداری کے قلاوے اتارکر امریکہ پر واضح کردیناچاہئے کہ اگرانہیں اس خطہ اوراس سے وابستہ دنیاکاامن عزیزہے تووہ اپنے داداگیربھارت کواقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل درآمدکے لئے مجبورکریں اوراپنے ان منافقانہ بیانات کی اوڑھنی سے بھارت کے غیرانسانی مظالم کوڈھانپنے کی ناکام کوششوں سے بازرہیں۔
Arshad Askari
About the Author: Arshad Askari Read More Articles by Arshad Askari: 5 Articles with 3824 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.