سوشل میڈیا میلہ

میں خود کو ایک ایلین محسوس کررہا تھا، وہ مجھ جیسے لوگ نہیں تھے، انکی باتیں، انکا لباس، انکی زبان، انکا چلنا پھرنا اور انکے فکر و خیالات سب کچھ مجھ سے بہت مختلف تھا۔ وہ دلائل، منطق اور افکار میں تضادات سے بھرپور آدھے فیصد مراعات یافتہ طبقے کی ایک تقریب تھی، جس میں متوسط طبقے اور اسکی سوچ کے لئے کوئی جگہ نہیں تھی۔ میں اس تقریب میں گزارے چند گھنٹوں کے دوران یہ احساس شدت کے ساتھ محسوس کررہا تھا کہ ایک پاکستان وہ ہے جو آواری، شیرٹن، پی سی اور میریٹ کے پرآسائش ہوٹلوں میں نظر آتا ہے۔ بھرے پیٹ، احساس زیاں سے عاری وجود اور پر مغز خیالات اور دوسرا پاکستان وہ ہے جو ان پنج ستارا ہوٹلوں کے کنارے سڑک پر رواں ہے اور موٹر سائیکلوں، بسوں اور چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرتا اس سوچ میں گم ہے کہ کیا وہ خیر و عافیت کے ساتھ گھر پہنچ سکے گا؟ کیا جب وہ گھر پہنچے گا تو پنکھے کی ہوا میں سو سکے گا۔ سوال یہ ہے کہ کونسا پاکستان حقیقی پاکستان ہے وہ جو ہوٹلوں کی زینت ہے یا وہ جو سڑکوں، محلوں، اسپتالوں اور تھانوں میں برپہ ہے؟

اس سوال نے پہلی بار میرے ذہن میں اسوقت دستک دی جب ایک جامع تلاشی کے عمل سے گزر تا ہوا آواری ٹاور میں منعقدہ اس تقریب کے استقبالیہ پر پہنچا، میرے گرد و پیش ٹوئٹر اور بلاگستان کے ناخداوں کا جھم گھٹہ تھا اور انکے بیچ و بیچ امریکی قونسل جرنل ویلیم مارٹن ایک فاتحانہ انداز میں کھڑے تھے، رجسٹریشن کے عمل سے گزر کر جب میں اندر چائے کی میز تک پہنچا تو امریکی سفارت خانے کی ملازمہ اس دو روزہ تقریب کے باقاعدہ آغاز کے لئے شرکاء کو مرکزی ہال میں آنے کی دعوت دے رہی تھیں۔ یہ میرے لئے حیران کن تھا، کیا یہ محفل امریکی سفارت خانے نے سجائی ہے؟ اگر ایسا ہی ہے تو منتظمین نے آخری لمحے تک اس معاملے کو کیوں پوشیدہ رکھا؟ اوف خدایا، امریکہ کی ہمارے معاملات میں دلچسپی کس حد تک بڑھ چکی ہے اور ہماری سماجی ذرائع ابلاغ کے ناخداوں کی امریکی سفارت خانے سے مراسم کس نوعیت کے ہیں اور کس طرح یہ لوگ پرتعش ہوٹلوں کی لابیوں میں وفاداریوں کے سودے کرتے ہیں؟

تقریب اپنے آغاز میں ہی بدنظمی کا شکار ہوگئی تھی، نظامت کے ذمہ دار خواتین و حضرات ادھر ادھر گھومتے ہوئے اور الجھے پائے گئے۔ مقررہ وقت سے گھنٹے بعد سبین نے اپنی ابتدائی کلمات سے تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا۔ توقعات کے برخلاف یہ ایک ناقص آغاز تھا، پھیکا پن، ناتجربہ کاری اورتکنیکی خرابیاں اپنے عروج پرتھیں۔ لاکھوں روپے کی براہ راست امداد کے باوجود انکل سام کے سارے بھتیجے بھتیجیاں پریشان نظر آرہے تھے۔ برکھادت کو کئی بار اسکائپ پر آن لائن لینے کی کوشش کی گئی لیکن ہر دفعہ تکنیکی خرابی آڑے آئی، کبھی ویڈیو آئی تو آواز غائب ہوگئی، کبھی آواز آئی تو ویڈیو غائب ہوگئی، شرکاء کے مشوروں پر کبھی برکھا کو ایک سو اسی ڈگری مخالف بیٹھایا گیا کبھی انکے پیچھے لگے پردے گروائے گئے اور کبھی فون ملاکر اسے مائیک کے پاس رکھنے کا تجربہ کیا گیا لیکن دھاک کے پات تمام کوششیں ناکام ہوئی اور اس ڈرامے کو ڈراپ سین کی طرف لے جانا پڑا۔دو روزہ کانفرنس کا پہلا مباحثہ علی گل پیر اور علی آفتاب کے سائیں تو سائیں اور آلو انڈے جیسی ویڈیوز اور انکی شہرت کے مندرجات پر مبنی تھا جسکی نظامت کی ذمہ داری ندیم ایف پراچہ نے سنبھالی۔ ایف ندیم سستا مزاح پیدا کرنے میں کمال رکھتے ہیں، چنانچہ انہوں نے یہ موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا اور عامر لیاقت کو کم از کم چھ بار پروگرام میں گھسیٹا حالانکہ عامر لیاقت یا ان سے متعلق فقروں کا اس مباحثہ سے دور تک کوئی تعلق نہ تھا۔ اگلے تین مباحثے ہندوستانی بلاگرز کے تھے جو عمومی طور پر معلوماتی نوعیت کے تھے جن کے بعد کھانے کا وقفہ ہوا۔

کھانے کے وقفے کے دوران محمد اسد کا پیغام ملا کہ وہ اور فہد کہر بھی پہنچ چکے چنانچہ میں استقبالیہ تک پہنچا۔ لگ بھگ دیڑھ، دو سو شرکاء میں سے کوئی نوے فیصد مسلمان تھے لیکن نماز جمعہ انکے لئے کوئی مسئلہ نہ تھی اور نہ ہی کسی کو اس حوالے کوئی پریشانی تھی، میں فہد اور اسد کافی دیر تک نماز جمعہ کے لئے مسجد ڈھونڈتے رہے لیکن پورے آواری اور اسکے قرب میں مسجد نہ ملی اور جب مسجد ملی تو وہاں جمعہ کا انتظام نہ تھا، چنانچہ تہہ یہ پایا کہ اگلے مباحثے کے بعد جسکے شرکاء گفتکو میں خود فہد کہر بھی مدعو تھے کے بعد نماز ظہر ادا کی جائے گی۔بحیثیت اردو بلاگر میرے لئے اس کانفرنس کا سب سے اہم مذاکرہ بھی یہی تھا جسکا موضوع تھا “انگریز ی سے ہٹ کر، مقامی ثقافت اور ورثہ کی حفاظت “۔ مباحثے کی نظامت کے لئے رضا رومی صاحب مقرر تھے، اول تو وہ دیر سے آئے اور جب آئے تو ایک لمبی تقریر شروع کر ڈالی اور مباحثہ کہیں کھو گیا۔ ضیائی دور کو کوسنے، نصاب پر برسنے، محمد بن قاسم کی قبر پر لات مارنے اور دائیں بازو کے دانش وروں کا مذاق اڑانے کے بعد انہیں بڑی مشکل سے یہ خیال آیا کہ ایک مذاکرہ ہے جس میں انہیں چار مقررین کے درمیان بحث کرانی ہے۔ کل ملا کر پانچ منٹ ہر مقرر کو دئے گئے۔تقریب کا سب سے دلچسپ مباحثہ سماجی ذرائع ابلاغ پر مایہ خان کے خلاف تھا، اس مباحثہ کے دوران اس پوری تقریب اور اسکے مقاصد کی قلعی کھل گئی تھی۔ بی بی سی اردو کے نمائندے ذیشان حیدر جو لمحہ لمحہ اپ ڈیٹ کررہے تھے کے فقرے میرے ذہن سے اب تک نہیں جاتے ہیں، انہوں نے ڈھٹائی کے ساتھ کہا کہ جماعتی سوچ کے لوگ پہلے اردو پریس میں داخل ہوئے، پھر انگریزی پریس میں اور اب سوشل میڈیا پر آرہے ہیں، ہمیں انہیں روکنا ہوگا، انکے خلاف محاز بنانا ہوگا اور انہیں نکالنا ہوگا۔آخری مذاکرہ جماعتی سیاست کے سماجی ذرائع ابلاغ پر اثرات” پر مبنی تھا جسکے شرکاء گفتگو عواب علوی، علی رضا عابدی اور ماروی سرمد تھے۔ ایک موقع پر تمام شرکاء گفتگو کے درمیان اسکولوں میں ہم جنس پرستی کے موضوع پر مذاکرے کی تائید بھی کی گئی اور یہ مذکراہ بھی شمع محفل ماروی سرمد کے جلوں کی نظر ہوگیا۔

لبرل طبقے کے مسائل اور انکی ذہنی حالت پر میں بحث نہیں کرنا چاہتا اور نہ مجھے ماروی سرمد اور محسن سعید کے بغلگیر ہوکر رقص کرنے اور سگریٹ سُٹے لگانے سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی اس مجلس کی خواتین، انکے لباس اور انکی حرکتیں میرا موضوع قلم ہیں، لیکن میں یہ ضرور پوچھنا چاہوں گے کہ کیا یہ سب کچھ اس خطے کی ثقافت کا حصہ ہے، نہیں بلکل نہیں، مسلم ثقافت تو درکنار ہندو ثقافت کا بھی کوئی رنگ اس قسم کے مکروح لہو لعب سے رنگا ہوا نہیں ہے، یہ تو خالص مغرب کی مادر پدر تہذیب ہے جو امریکی سفارت خانے کے خرچہ پر بپا کی گئی تھی۔آواری ہوٹل کی لابی میں فیض احمد فیض کی ٹٹوز میں چھپی نیم عریاں نواسی کو محمد حنیف کے پہلو میں نیم دراز پڑا دیکھ کر مجھے مسعود لوہار کا یہ سوال یاد آگیا کہ پچھلے تیس سالوں سے کوئی بڑا ادب تخلیق نہیں ہوا ،جناب کیسے ہوگا؟ ایلیٹ انگریزی رنگارنگینیوں میں مست ہے اور متوسط طبقہ “ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات” کی عملی صورت بنا ہوا ہے۔لیکن جن لوگوں کے حواس پر ضیاء الحق چھایا ہو ان سے کیا بات کی جائے اورکیا استدلال پیش کیا جائے۔ ایک مقرر نے کہا کہ طالبان نے گدھوں کو بھی کپڑے پہنادیے تھے میں نے سوچا اب کوئی اور کھٹرا ہوگا اور کہے گا کہ احمدی ویب سائٹ کو ضیاء الحق کی روح نے بند کیا ہے۔

سماجی ذرائع ابلاغ، مرکزی ذرائع ابلاغ سے زیادہ طاقتور ہوتا جارہا ہے، مشرق وسطہ میں اسنے اپنی طاقت کا لوہا منوالیا ہے اور پاکستان میں اسے ابھی اور آگے جانا ہے، امریکی سفارت خانہ بھی اس حقیقت سے آگاہ اور اسی لئے سماجی ذرائع ابلاغ کے ناخداوں سے راہ و رسم بڑھائے جارہے ہیں، ناصرف بی بی سی بلکہ لاہور، اسلام آباد اور کراچی سفارت خانے پوری تقریب کی براہ راست کوریج کرتے رہے۔ اسلام پسندوں، اسلامی تحریکوں کے انقلابی نوجوانوں اور دائیں بازو کی جماعتوں کے پراپیگنڈا ونگ کے لئے یہ سب کچھ لمحہ فکریہ ہے، پاکستان کی اکثریت اگر سوشل میڈیا کو صرف اور صرف تفریح سمجھتی ہے تو قریب ہے وہ وقت جب آدھا فیصد مراعات یافتہ طبقہ اپنی بہتر معاشی حالت اور امریکی سرمائے کے بل بوتے پر انہیں کھاجائے کا اور یہ اقلیت کی نمائندگی کرتا امریکی اسپانسر پاکستان اکثریت کے نظریات، جذبات اور زندگیوں کو مزید کنفیوژن کیطرف دھکیل کے کھا جائے گا۔میں اس محفل میں گزارے چند گھنٹوں کے دوران یہ احساس شدت کے ساتھ محسوس کررہا تھا کہ ایک پاکستان وہ ہے جو آواری، شیرٹن، پی سی اور میریٹ کے پرآسائش ہوٹلوں میں نظر آتا ہے، بھرے پیٹ، احساس زیاں سے عاری وجود اور پر مغز خیالات اور دوسرا پاکستان وہ ہے جو ان پنج ستارا ہوٹلوں کے کنارے سڑک پر رواں ہے اور موٹر سائیکلوں، بسوں اور چھوٹی گاڑیوں میں سفر کرتا اس سوچ میں گُم ہے کہ کیا وہ خیر و عافیت کے ساتھ گھر پہنچ سکے گا؟ کیا جب وہ گھر پہنچے گا تو پنکھے کی ہوا میں سو سکے گا؟ سوال یہ ہے کہ کونسا پاکستان حقیقی پاکستان ہے وہ جو ہوٹلوں کی زینت ہے یا وہ جو سڑکوں، محلوں، اسپتالوں اور تھانوں میں برپہ ہے؟؟؟
Kashif Naseer
About the Author: Kashif Naseer Read More Articles by Kashif Naseer: 13 Articles with 14339 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.