اپنے

برقی قمقمے اور بڑے بڑے فانوس اندھیری رات کی زلفوں میں تارے بن کر چمک رہے تھے۔ سارا ہوٹل مہمانوں سے بھر چکا تھا اور ویٹریس ہاتھوں میں قسم قسم کے خوان اُٹھائے تیزی سے ادھر اُدھر پھر رہی تھیں۔ اعلی کھانوں کی خوشبو بھوک کی اشتہا بڑھا رہی تھی۔ ہال میں چاروں طرف بڑے بڑے منہ ، سینے سے نکلے ہوئے پیٹ اور کسی ہو ئی ٹائیاں نظر آرہی تھیں۔ کہیں غازے سے لیپ کیے ہوئے چہرے تو کہیں کھلے بال کہیں سُرخ لبوں کے جام تو کہیں کَسی ہوئی چوٹیاں تنگ سا لباس جو عورتوں کے جسموں پر لباس سے زیادہ چپکن لگ رہاتھا۔یہ سب کچھ سرِ شام اس صحرائی نامی ہوٹل کے چھت تلے موجود تھا۔

ہماری کمپنی ہر سال دبئی میں اسی طرح کے پروگرام اپنی پبلسٹی کے لئے منعقد کرتی ہے۔ ایسی تقریبوں میں ادنیٰ و اعلی ہر قسم کے ملازمین شرکت کرتے ہیں۔ پاکستان سے روزگار کے سلسلے میں آئے ہوئے کئی دوست اس پرگرام میں شامل تھے لیکن پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا سے صرف میں تھا۔ میرے سامنے سے ایک پیاری سی موہنی صورت والی ویٹریس گزری جو مجھے بہت اچھی لگی اور جب اُس نے میرے سامنے والی ٹیبل پر جاکر اُردو بولی تو مجھے یقین ہوگیا کہ یہ میرے صوبے کی ہے ۔ کیونکہ میرے صوبے کے اکثر لوگ اُردو جھوٹ کی طرح بولتے ہیں۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سے اُسے بلایا اور وہ ، یس سر ! کے الفاظ اداکرتی ہوئی ہاتھ باندھے سامنے کھڑی ہوگئی۔

وہ پچیس سال کی انتہائی خوبصورت لڑکی تھی نازک اندامی اور گوری جلد کی وجہ سے وہ سولہ سال کی لگ رہی تھی اور شیریں لب ولہجہ اُسے ایک شاہکار بنا رہا تھا۔
میں نے سوال کیا! کیا تم پٹھان ہو؟
پہلے تو وہ ہچکچائی مگر جلد ہی اقرار کرلیا۔
میں۔ یہاں کیسے آئی؟ اُنھوں نے کہابس یوں ہی! : پھر جب میرا اصرار حد سے بڑھا تویہ کہہ کر گلو خلاصی کرلی" کہ یہ کسی اور دن پہ ڈال دو " اور مہمانوں کی تواضع میں لگ گئی۔

یہ لڑکی بہت پیاری اور معصوم لگ رہی تھی اور پھر میرے ملک اور میرے صوبے کی تھی اس لئے میں نے اس میں حد سے زیادہ دلچسپی لی۔ یہ ایک قدرتی امر ہے کہ ملک سے باہر کسی اپنے یا اپنے علاقے کے بندے سے ملاقات میں جو لطف آتا ہے اس کا مزہ وہی جانتے ہیں جو اس کیفیت سے گزرے ہوں۔ میں اپنی رہائش گاہ پر جانے کے بعد اُسی کے بارے میں سوچتا رہااور ایک ایک منٹ گن کر اگلی ملاقات کے بارے میں پلاننگ کرنے لگا۔

اگلے دن کام سے فراغت کے بعد میں سیدھا صحرائی ہوٹل میں گیا اور اُس پری پیکر کی تلاش شروع کی ۔لیکن وہ ہوٹل میں نہ ملی ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اُس کی طبیعت ناساز ہے اور اپنے کمرے میں آرام کررہی ہے۔

میں نے اُن کے کمرے کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور کمرے کی راہ لی ،وہاں جاکر دروازے پر دستک دی ۔ وہ شاید تیار بیٹھی تھی ، جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔وہی مسکان چہرے پہ سجا کر اُنھوں نے میرا استقبال کیا اور ہم اُس دس ضرب دس فٹ کے کمرے میں ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر بیٹھ گئے۔ یہ کمرہ اُن ویڑیسیزکا مشترکہ ڈریسنگ اور ریسٹ روم تھا، اُنکے بال کھلے اور تکلفات سے آزاد تھے اور ایک لٹھ بار بار آنکھوں کو چھیڑرہی تھی جسے وہ اپنے نرم ہاتھوں سے اُسے انکا جائز مقام سمجھا رہی تھی ، لیکن وہ لٹھ کب سمجھنے والی تھی اُنھوں نے خود اُنھیں سر پہ چڑھایا تھا۔ ہم تھوڑی سی رسمی بات چیت کے بعد بے تکلف ہونا شروع ہوگئے۔لیکن پشتون کلچر اور صنف نازک کے قرب سے محرومی کی وجہ سے یہ مرحلہ مجھ پہ کافی گراں گزرا ، میں تو آپ اور میں کی گردان ہی دھرا رہا تھا لیکن اللہ بھلا کرے اس پری پیکر کا جس نے بے تکلف ہونے میں پہل کی اور مجھے بھی بہادر بنادیا۔
میں: آپکا نام ؟ وہ : عنبریں!
میں : بہت خوبصورت نام ہے بالکل آپ کیلئے بنا ہے، کس نے رکھا ؟
وہ : ابو نے۔ اور آپکا نام ؟
میں : شہریار خان! : آپ کس جگہ سے۔۔
وہ : جی کراچی سے آئی ہوں ۔
میں : اور اس ہوٹل میں ؟ ۔
وہ : بس جی کام ہے جہاں بھی ہو کام کام ہوتا ہے۔
میں : یہ تو ٹھیک ہے لیکن اس ہوٹل کی شہرت تو کسی اور وجہ سے ہے اور سارے دبئی میں مشہور ہے۔
وہ : بس جی آپ نے جو سمجھا ہے وہی ٹھیک ہے اور وہی میری قسمت ہے۔
میں : لیکن یہاں آنا؟
وہ: جی یہ ایک لمبی داستان ہے اور اگر آپ اپنا وقت ضائع کرنا ہی چاہتے ہیں تو سنادیتی ہوں۔
وہ: میں نے پچھلے سال کراچی کی بہترین یونیورسٹی سے ایم ۔ اے انگلش کیا۔ لیکن گھر کے حالات کے باعث نوکری کرنے کاسوچا ۔ جس پرائیویٹ ادارے میں بھی گئی ۔ اُن لوگوں کی نظر یں میری خوبصورت ڈگری سے زیادہ میرے جسم پر پڑی اور میں نے یہ سب قبول کرنے سے انکار کردیا ۔کیونکہ اس معاشرے میں عورت کا مردوں کی جھرمٹ میں باعزت کام کرناجوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اور یہ جو عورتوں کے بارے میں بلند بانگ دعوے کرنے والے ادارے ہیں اُن میں بھی عورتوں کی حیثیت ایک ربڑ سٹیمپ سے زیادہ نہیں اوربلند مقام بھی بہت کچھ قربان کرنے کے بعد ملتا ہے۔ میں نے اپنی عزت رزق سے مقدم سمجھی اور گھر میں بیٹھ گئی ، کیونکہ یہی حقیقت ہے اور باقی برابری اور حقوق کے دعوے محظ افسانے ہیں۔

میری باجی میرے بہنوئی کے ساتھ دبئی میں رہتی ہے اور میرے ریزلٹ کے چارمہینوں بعد وہ بھی پاکستان آئے تھے ۔ اصغر بھائی نے جب مجھے چار سالوں کے بعد دیکھا اور میری ڈگری کے بارے میں سنا تو دبئی میں کام دلانے کا وعدہ کیا۔ میں بھی خوش ہوئی کہ چلو گھر کے کچھ دکھ میری محنت سے دور ہو جائیں گے کیونکہ ابو کی وفات کے بعد مالی مشکلات کیوجہ سے ہمیں خوشی کا کوئی پل نصیب نہیں ہوا۔ دوبہنیں مجھ سے چھوٹی ہیں اور پڑھ رہی ہیں۔ میں اُن کے لئے کچھ کرنا چاہتی تھی۔ اور سچ پوچھیں تو یہ عورت کی فطرت ہے کہ وہ گھر کے استحکام کے لئے کچھ ایسا کرنا چاہتی ہے جس سے اُس کی روح کو تسکین ملے ۔ خواہ وہ محنت مزدوری ہو یا بڑی نوکری ۔ خواہ وہ دن بھر کی گھر گھرستی ہو یا اپنا سب کچھ گھر کی خاطر لُٹاکر اُسکی خوشحالی خریدنا ہو۔ میرے دل میں بھی اسی قسم کے جذبات اُبل رہے تھے اور میں سوچ رہی تھی کہ میں گھر پیسے بھیجونگی سب کچھ بدل جائے گا گھر میں خوشی ہوگی اور اماں بھی سکھ کا سانس لے گی۔ پھر وہ دن بھی آیا جب میں کراچی سے دبئی کے سفر پر روانہ ہوئی، اماں اور عالیہ نے مجھے ائرپورٹ سے رُخصت کیا اور میں ایک ذمہ داری کا احساس لیکر دیارِ غیر کے بارے میں سپنے بُننے لگی۔

وہاں پر ایک ہفتے تک سب کچھ معمول کے مطابق رہا ۔لیکن ایک روز صبح سویرے اصغر بھائی مجھے صحرائی ہوٹل کے مینیجر سے ملانے کیلئے لے گیا۔ مینیجر نے میرا جائزہ لیا اور اصغر بھائی سے اکیلے میں کچھ بات کی اور اصغر بھائی اپنے کام پر چلے گئے ۔ میرا پاسپورٹ اور ویزہ سب کچھ اصغربھائی کے پاس تھا اور میں مینیجر سے کام کے بارے میں طرح طرح کے سوالات پوچھ رہی تھی ، لیکن وہ چہرے پر ایک کمینگی سجائے صرف یہی کہتا کہ آہستہ آہستہ سب سمجھ جاﺅگی۔

جب دن ڈھلنے لگا تو میں نے اور لڑکیوں کو بھی آتے دیکھا، اور اُن سے بات چیت کی کوشش کی لیکن کسی نے بھی مجھے گھاس نہ ڈالی ۔ اگلے روز مجھے رات کی ڈیوٹی کے لئے بلایا گیا اور میں نے اپنی حیثیت اور اپنی نوکر ی پہچان لی۔ جب اصغر بھائی سے شکایت کی تو اُنھوں نے دھمکایا اور چپ چاپ سب کچھ برداشت کرنے کا درس دیا۔ اب میرا یہ آسرا بھی ٹوٹ گیا ۔ اگلی رات جب میں ہوٹل گئی تو مینیجر خلاف ِ توقع کافی اچھے طریقے سے ملااور کہاکہ چلو آج دبئی کی سیر کرتے ہیں۔ اُس نے مجھے اپنی گاڑی میں بٹھاکر مختلف مارکیٹوں کی سیر کرائی ،اورپھراتے ہوئے ایک بنگلے پر لے گیا۔ یہ ایک عالیشان کوٹھی تھی۔ کافی کشادہ اور ذرخیز ۔ میں نے سوالیہ نظروں سے جب اُنھیں دیکھا تو جواب ملا ۔ میرا دوست ہے انھوں نے آج مدعوکیا ہے۔ ہم دونوں اندر چلے گئے، وہاں پر ایک پرتکلف ڈرائنگ روم تھا جس میں سب چیزیں ایک سلیقے سے سجائی گئیں تھیں۔ کمرے میں ایک پچاس سال کی عمر کا عرب نژاد بڑی سی توند کے ساتھ داخل ہوااور مینیجر سے اپنی زبان میں گفتگو شروع کی۔ ہنسنے کے سوا میرے پلے کچھ نہ پڑا اور مینیجر چند منٹ بیٹھنے کے بعد بہانے سے باہر چلا گیا۔ اب میں تھی اور وہ عربی تھا اُس کے چہرے پر ایک کمینگی تھی ایک وحشت تھی اور میں سمجھ گئی کہ آج کی رات اس کوٹھی میں میری حیثیت بھی دیوار پر لگے ہوئے کھلونوں کی سی ہے۔ لیکن وہ بے جان کھلونے خوش نصیب تھے کہ اُنھیں وہ جگہیں مستقل ملی تھیں لیکن میرا مقام ایک رات کے کھلونے کاتھا۔ اُس کے منہ سے شراب کی باس بھی آرہی تھی اور اُس نے ملازم سے اور بھی بوتلیں منگوائیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کی تعظیم میں ہم پاکستانی زمین و آسمان کے قلابے ایک کردیتے ہیں۔ یہی وہ دوست ہیں جن کے بل پر ہم پھدکتے ہیں۔ خیر زندگی نے ایک نے میرے ساتھ ایک بھیانک کھیل کھیلا۔۔ میں نے جس زندگی کا خواب دیکھا تھا جس طرح گھر کی ملکہ بن کر بچوں پر حکم چلانا چاہتی تھی اور جس طرح اپنے شہزادے سے نازنخرے کرکے اسکی زندگی سنوارنا چاہتی تھی وہ سب ملیامیٹ ہوگیا ۔ یہ بدھے سے جسم اور شراب کی باس والا ہی میر ا دُلہا تھا۔ جس نے رقم ادا کرکے میرے جسم کو ایک رات کے لیے جائز کیا تھا۔ پاکستان سے آکر میرا جسم اس مقدس سرزمین میں بِک رہا تھا۔ جو بدنامی اپنے ملک میں ٹالتی رہی وہ غیروں کے ہاتھوں نصیب ہوئی۔ رات کو میرے جسم کو جس طرح گدھ نے نوچا وہ بیان سے باہر ہے ۔ اور صبح میں اپنے جسم کو ایک لعنت کی صورت میں گھسیٹتی ہوئی ہوٹل میں آئی۔ اب میرا جسم بکاﺅ تھا اور ہر رات یہ بکنے لگا ۔ ہوٹل کا تو صرف نام تھا اصل میں ، میں ایک پڑھی لکھی ××××× بن گئی تھی لیکن اسکا نام تبدیل کرکے نوکری رکھ دیاگیا۔میں نے بہت سے شرفاءاور اُجلے تن والے سوٹ ٹائی میں ملبوس من کے میلوں کو دیکھا ہے۔ طرفہ تماشا تو یہ کہ ایسے ہوٹل سینکڑوں کی تعداد میں ہیں اور ان کے مینیجر MBA اور MPA جیسی ڈگریاں لیکر بھی ×××× گیری کرتے ہیں ۔ آج زمانہ بدل رہا ہے پڑھے لکھے ××××× اچھے مینیجر کہلائے جاتے ہیں اور میلے کچیلے ×××× کے دروازے پر بیٹھنے والے ×××× اور ××× شمار ہوتے ہیں۔ میرے ساتھ اور بھی لڑکیاں بھارت ، پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کی ہیں ۔ میرے یہاں ہونے میں تو اپنوں کا ہاتھ تھا لیکن وہ بیچاریاں ۔ یتیم خانوں اور فلاحی اداروں کے آشرم سے بڑے بڑے سیاستدانوں اور وزیروں کی ایما پر سمندر کے راستے کنٹینروں میں بے ہوش کرکے لائی گئی تھیں۔اور جو سفر میں مرجاتیں اُنھیں سمندر برد کرکے مکتی دی جاتی ، لیکن جو زندہ رہ جائے اُس کے لیے اُسکا جسم ایک گالی بن کر مرنے تک اُسکاساتھ دیتا ۔ میرے ساتھ والی سکینہ بتاتی ہے کہ اُنھیں ایک معروف فلاحی ادارے سے پہلے ایک بڑے افسر کی دلگی کے لئے لیجایا گیا اور جب اُسکا دل بھر گیا تو سمندر کے راستے بیچ کر ساری زندگی کی ذلت اُسکے سر تھوپ دی گئی۔

ہم نے اس ذلت کواپنا مقدر سمجھ کرقبول کرلیا، جنت اور جہنم کے فلسفے میری زندگی میںبے معنی رہ گئے کیونکہ میں مجبور ہوں اور شاید مجبور رہونگی۔ میں نے جان بوجھ کر یہ زندگی نہیں اپنائی بلکہ مقدر نے میرے سر تھوپی ہے۔ ثواب و عذاب کے فلسفے وہ جھاڑیں جن کے پیٹ بھرے ہوں اور بازﺅں میں طاقت ہو ہم جیسے کمزور کھلونے بکتے نہیں بلکہ بیچے جاتے ہیں۔ میرا کوئی مذہب نہیں بلکہ ہر مذہب والا میرا بستر گرم کرتا ہے ۔ میں مسلمان ، سکھ ، ہندو ، یہودی اور عیسائی کی تفریق سے آزاد ہوں ۔ میں صرف عورت ہوں اور میرا جسم خریدنے والے سارے کے سارے مرد ہیں اور بیچنے والے بھی سارے کے سارے مرد۔
میرے حصے میں ہر رات پچاس دینار آتے ہیں اور جب میں گھر رقم بھیجتی ہوں تو میری امی فون کرتی ہے کہ بیٹی کوئی تکلیف تو نہیں تم خوش تو ہو نا،اور میں آنکھیں خشک کرکے بس اتنا کہتی ہوں کہ بہت مزے میں ہوں۔ پھر وہ بامراد اور سداسکھی رہنے کی دعائیں دے کر فون بند کرلیتی ہے اور میں کئی روز تک تنہائی میں آنسو بہاتی ہوں۔

میں: لیکن آپ کی بہن نے آپ کے ساتھ یہ سب کیوں کیا؟
وہ: میں نے پہلے پہل باجی کو کافی بددعائیں دیں اور اُسے دغاباز سمجھا ۔ لیکن اب میں اُس کی مجبوری سمجھ گئی ہوں۔ اُنکی حالت تو مجھ سے بھی بد تر ہے ۔ میں جس کے ہاتھوں برباد ہوئی میرا تو وہ صرف بہنوئی تھالیکن وہ جس کے ہاتھوں بکی اُس نے تو اُنکی عزت بچانے کیلئے جان قربان کرنے کی قسمیں کھائی تھیں۔

آپ میرے پاس آئے ہیں تو صرف اس جسم کی کشش کی وجہ سے ۔آپ میرے ہم صوبہ اور ہم زبان ہیں ۔ اس لیے میں آپ سے پچاس دینار نہیں لیتی ۔ آپ بھی اس جسم کا سرور حاصل کریں اور اپنی راہ لیں ۔

میں نے اُٹھ کراُسکا دوپٹہ اُسکے سر پر ڈالا اور سو دینار اسکے بستر پر ڈال کر وہاں سے نکل گیا کیونکہ مجھ جیسے پشتون میں نہ اُسے اپنانے کی ہمت تھی اور نہ انصاف دلانے کی۔ ۔۔
Wasim Khan Abid
About the Author: Wasim Khan Abid Read More Articles by Wasim Khan Abid: 26 Articles with 32227 views I am a realistic and open minded person. .. View More