ہم ترک وفا نہ کریں گے

 بسم اﷲالر حمان الر حیم

”ان لو گو ں کی بہتا ت نہیں ہو گئی ہے ا بّو! “فیصل نے ایک خا ص فر قے کا ذکر کرتے ہو ئے کہا۔ملک کے شمالی علا قوں سے تعلق رکھنے وا لا یہ انسا نی گروہ اپنے کم اجرت رکھنے کی شہرت کی و جہ سے ہر شعبے میں غیر معمو لی تعدا د میں نظر آنے لگا تھا۔اپنے اس احسا س کو فیصل نے اپنے گھر وا لو ں سے شیئر کیا۔ وہ سب اس وقت را ت کے کھا نے میں مصرو ف تھے۔زند گی کی بے تحا شہ مصرو فیت بھی اس فیملی سر گر می کو ختم نہ کر سکی ہے !

” ہا ں جب یہا ں کے لو گ چھو ڑ کر جا ئیں گے تو کسی نہ کسی کو تو ان کی جگہ لینی ہی ہے خلا تو نہیں رہے گا نا!“ سلیم احمد نے ٹی وی لا ﺅنج میں لگے وا ش بیسن میں ہا تھ دھو کر تو لیہ سے پو نچھتے ہو ئے کہا اور اپنی بات کے ردّ عمل میں پھیلتی افسوس کی جھلک اپنے بیٹے کے چہرے پر دیکھ کر شر مندہ سے ہو گئے۔اب ان باتو ں کا وقت کہا ں رہاتھا؟ محض دو ہفتے بعد تو اس کی کینیڈا روا نگی تھی۔ گو خود سا ختہ بے و طنی کا حصو ل ایک متنازعہ فیصلہ تھامگر تین سا ل کی بے روز گاری اور ٹیو شنز کر نے سے جو فر سٹریشن پیدا ہوا تھا اسکے بعد تو یہ محفو ظ اور منا سب ترین ہی را ستہ تھا ورنہ تو اس کے نتیجے میں بے را ہ روی سے لے کر تخر یب کا ری اور نشے سے لے کر خو د کشی بے حد آسا ن اور سہل بنا دی گئی ہے۔

فیصل اپنے وا لدین کے ار مانو ں کا واحد مر کز تین بہنو ں کا اکلو تابھا ئی! جو’ ایک مگر نیک ہو‘ کے فار مو لے پر پو را اترتا تھا ۔ بچپن سے ہی ذہین اور فر ما نبر دار ! حا فظ قر آ ن، جوجماعت میں ہمیشہ اوّل رہنے کے سا تھ سا تھ دیگر سر گر میو ں میں بھی نما یا ں اور ممتا ز ر ہتا تھا شا ندا ر نمبر و ں سے انٹر میڈیٹ کر کے انجینئرنگ کالج میں دا خلہ لیا تو ما ں با پ نے مٹھا ئی تقسیم کی ا ور پھر اس نے حو صلہ بھری امیدو ں کے ساتھ یہ امتحا ن بھی امتیازی نمبر و ں سے پا س کر لیا۔ شا ن دا ر تعلیمی کیر ئیر کے باوجو د اد نٰی در جے کی ملا ز متیں ملیں تو فیصل کے ما تھے پر بل پڑ ناشرو ع ہو ئے ۔ امید یں ما یو سی اور شیریں ز بانی تلخ کلا می میں بد لنا شرو ع ہوئی۔اور اس وقت تو اس کو اپنے او پر قا بو پا نابے حد مشکل محسو س ہو تا جب وہ اپنے کسی نا کا رہ سے کلاس فیلو کو زبر دست گاڑی اور بد لے ہو ئے گیٹ اپ میں دیکھتا۔

ریسر چ کے مطا بق انسا ن کو اپنے حا ل سے ز یادہ افسوس یا رنجید گی اس وقت محسو س ہو تی ہے جب وہ اپنے سا تھی کو اپنے سے خو شحا ل دیکھتا ہے۔شاید اسی انسا نی کمزو ری کے سبب ربّ کا ئنات نے ما لی لحاظ سے اپنے سے کمتر کی طر ف دیکھنے کی تر غیب دی ہےبہر حال خوشی یا نا خو شی امریکہ جاکر قسمت آزما ئی ہی مقدّر ٹہر ی!!!

نقل مکانی تو اب عا م سی با ت ہے! جسے دیکھو با ہر جا نے کو پر تو لے کھڑا ہے۔کنبے تو ایک طر ف پو ری پو ری برا دریاں اس تجر بے سے گزر ر ہی ہیں جس کی ہر ایک کے پا س اپنی اپنی و جو ہا ت ہیں ! مگر سلیم احمد کے لیے یہ بڑی آ زمائش تھی! صر ف اس لیے نہیں کہ ان کا اکلو تا سہا را آنکھو ں سے دور ہو رہا ہے بلکہ ان کی اصل پریشا نی اپنے فلسفے کی نا کا می تھی! انہو ں نے ایک نو عمر بچّے کی حیثیت سے اپنے وا لدین کے سا تھ پا کستا ن ہجرت کی تھی اور اپنے اس اعزا ز پر نازا ں تھے ،وہ اس درد اور امید کے سا تھ بڑے ہو ئے جو نظر یہ پا کستان سے وا بستہ تھا۔ان کے اندر یہ فخران کے وا لد نور احمد نے پیدا کیا تھا جنھو ں نے بقا ئمی ہو ش و حو اس اپنے پو رے شر ح صدر کے ساتھ پا کستا ن کا ر خ کیا تھا ۔ اس ہجرت سے جڑے وسوسے بھی تھے ،اندیشے بھی اور خد شا ت بھی! مگر ان سب پر امید کا رنگ حا وی ہو گیا تھا ۔

” وہاں جا کر ریت پھا نکو گے!!!“ کا استہزا ھندو کو لیگز اور دو ستو ں کی طر ف سے ملا تو ا پنو ں میں سے کچھ نے آ با ئی قبر و ں کولاوارث چھو ڑ کر جا نے پر ملا مت کی اور کچھ نے ممکنہ تنہا ئی اور بے ٹھکانہ ہو نے کاخو ف دلا یا۔ مگر ان کے ارا دے کو کچھ بھی متزلز ل نہ کر سکااپنی سر زمین حا صل کر نے کا نشہ ہی کچھ اور تھا ! ان آ نکھو ں میں اپنا نظام قا ئم کر نے کا خوا ب بس گیا تھا جس کی تعبیر کچھ بھی رہی ہو مگر پھر بھی ایک با عزّت زندگی میّسر آ گئی تھی۔ اور اپنے بیٹے سلیم ا حمد کو کا لج کے پرو فیسر کی حیثیت سے کا م کر تے دیکھ کر وہ اپنا اور اس کا مو را ل اونچا کر تے رھتے تھے،

” بیٹا! گر پا کستا ن نہ بنتا تو تمہیں کبھی اتنا با عزّت ذر یعہ معا ش نہ ملتا! یہ تو انعام ہے اﷲکی طر ف سے ! جو اس کے لیے کچھ چھو ڑ تا ہے وہ اسے کبھی نہیں چھو ڑتا “

ان احسا سا ت کے سا تھ نشوو نما پا نے وا لے سلیم احمد کے لیے پا کستا ن ہی سب کچھ تھا ! اب بیٹے کی نقل مکا نی ان کے لیے اپنے فلسفے سے گو یادست بر دا ری تھی جس نے ان کو مجرو ح کر دیا تھا ۔ انہیں وہ سا رے چہرے اپنی نظرو ں میں گھو متے ہوئے محسو س ہو رہے تھے جو اس فیصلے پر ہنس رہے تھے ان کا مذ اق اڑا رہے تھے! وہ سو چ رہے تھے فیصل کی تر بیّت میں کیا کسر رہ گئی ؟ نظر یہ منتقل کیو ں نہ ہو سکا؟ ہزاروں لڑ کو ں کو متا ثر کر نے وا لا استا د اپنے بیٹے کو کنو ینس نہ کر سکا؟پھر انہیں اندا زہ ہوا کہ ما حو ل اور فضا کس طر ح انسا نی رو یّو ں پر اثر اندا ز ہو تی ہے؟ اس کا ادرا ک ہو تے ہی انہو ں نے فیصل اور اس کے فیصلے کو وقت کے بہا ﺅ پر چھو ڑ دیا مگر اس کے نتیجے میں افسو س ان کی زبان سے کبھی نہ کبھی نکل ہی آتا تھا!جیسا اس وقت ہوا ۔۔

جہا ں تک فیصل کا تعلق ہے وہ تو رگ رگ سے اپنے وا لد اور دا دا کی فلا سفی میں ڈو باہوا تھا مگر برا ہو احباب کا جو مستقل اکسا رہے تھے ،سنہرے خوا ب دکھا رہے تھے الفا ظ کی جادو گری تھی اور موا قع حاصل کر نے کا سحر ! فیصل تو مسحو ر ہو گیا

” یا ر سو چو ذرا ! وہا ں ا پر چونٹیز کتنی ہیں !!دین کا کا م بھی کتنا اچھا ہو سکتاہے ؟وہا ں بہت پیا س ہے اسلا م کی“

ان ہی ملا قا تو ں میں فیصل کی نظر ایک مقو لے پر پڑی ” یہ پا کستا ن ہے! اس سے محبّت کرو یا پھر اسے چھو ڑ دو مگر اسے تباہ نہ کرو “

لو گ تو قتل تک کا جوا ز پیدا کر لیتے ہیں یہا ں تو محبو ب کو بچانے کا سوا ل تھا لہذا اس نے نقل مکا نی کا فیصلہ کر لیا یہ سو چے بغیر کہ محبّت کر نے وا لے کا چھو ڑ جا نا محبو ب کوتبا ہ کر نا ہی تو ہے! پا کستا ن کو کر پٹ لو گو ں کے حوا لے کر کے با ہر نکل جا نا! کتنے نا دا ن ہیںاس کی محبّت کے دعوےدار!! اسے کمزو ر کر کے اسکی محبّت کے چر ا غ جلا نا حما قت کے سوا کچھ نہیں!!!!۱

اور اگر با ت خوا تین کی ہو تو ان کے سا منے تہذیب و ثقا فت اور دنیا کی تا ریخ و جغرا فیہ ثا نوی ہو جا تا ہے جب ضر ب ان کے گھر پر ہو یا نقصا ن ذا تی ہو! فیصل کی روا نگی کی را ہ میں رکا وٹ ماں کے آنسو ا س و قت خو شی میں بد ل گئے جب اس نے جا نے سے پہلے نکا ح کی ان کی تجو یز پر رضا مند ی کا اظہا ر کیا ۔ ما ں بہنو ں کے لیے تو یہ بڑی خو ش کن سر گر می ہو تی ہے چنا نچہ ایک نئی لہر دوڑ گئی ۔ دلہن کی تلا ش مشکل نہ رہی جب محلّے میں اکرا م صا حب کی بیٹی مر یم پر نظر پڑی۔ یہ ہر لحا ظ سے بہتر ین جو ڑ تھا

مر یم کے وا لدین کے لیے بھی کو ئی بات و جہ اعترا ض نہ تھی ۔ بیس سا ل تک پڑو سی رہنے وا لے رشتہ دا رو ں سے کچھ زیا دہ ہی بڑ ھ جا تے ہیں ۔فیصل ان کے سا منے ہی پلا بڑھا تھا ۔اسکا کر دار ہو یا تعلیمی کیرئیر سب کچھ ان کے سا منے تھا۔ ہا ں مستقبل کچھ غلا فو ں میں تھا مگر کینیڈا منتقلی کے فیصلے سے وہ بھی نکھرا نکھرا ہو گیا تھا ۔چنا نچہ روا نگی سے دو روز قبل ان دو نوں کا نکا ح کر دیا گیا۔

فیصل اپنی زند گی کے اس خو شگوار موڑ کو جذ با تی طو ر پر محسو س ہی نہ کر سکا کیو نکہ اس وقت وہ ذہنی طور پرسخت تنا ﺅ کا شکا ر تھا ۔ اور پھر اس کے جا نے کے بعد گھر سناٹے میں ڈوب گیا ۔ جس کا مکین نہ رہے و ہا ں کی تا ریکی کا کیا پو چھنا !بس بہنیں اور ان کے بچّے اکثر آکر رو نق لگا دیتے یا پھر دن بھر میں وہ گھنٹہ جب فیصل فو ن پر ہو تا :

”امّی آپ زیا دہ کام نہ کیا کریں! آمنہ بی (خا دمہ )کو بلا لیا کر یں!“( تمہا رے جا نے کے بعد کام ہی کیا رہ گیا ہے!)

”ابّو آپ واک کرتے ہیں یا نہیں!“(اب تو اتنی تھکا وٹ ہو گئی ہے کہ گھر میں ہی تھک جا تا ہوں !)

” مٹھّو میا ں چو ری کھا رہے ہیں نا!“ ( اس کو تو تمہا رے ہاتھ سے کھا نے کی عا دت تھی،اب تو بس سو نگھ لیتا ہے)

”کمپیو ٹر صحیح چل رہا ہے نا!اگر کوئی بھی پرا بلم ہو تو عمیر کو فون کر دیجیے گا “(تا کہ وہ بھی یہ کہہ دے کہ اپنے بیٹے کوتو مستقبل بنا نے کے لیے بھیج دیاہے اور فلا حی کا م کے لیے ہم ہی رہ گئے ہیں فر سٹریشن بڑھا ناخوا ہ مخوا ہ)

”ڈو ر بیل بج رہی ہے! کو ن آ یا ہے؟ کیا پکا رہی ہیں آج؟ “

نہ اس کے سوا لا ت ختم ہو تے اور نہ ما ں با پ کی گفتگو ،مگر گھنٹہ گز ر جاتا اور پھر اگلے چو بیس گھنٹے انتظا ر! نا ئلہ( امّی ) کی باتو ں کا کا فی حصّہ اس کی شا دی کی تیّا ری کے حوا لے سے ہو تا ۔یہ ایک خو ش کن مو ضو ع تھا !د ن بھر میں مر یم سے ایک ملا قا ت ان کے شیڈول میں شا مل تھی اور جس کاذکر ضرو ر ہی زیر بحث آ تا۔

اسی شب و روز میں دو ما ہ گز ر گئے۔اب فیصل کی با تو ں میں وہ ذوق و شو ق نہ رہا تھا ۔ تھکی تھکی سی آ وا ز، جما ئیا ں لیتا ہوا،سستی کاشکار!

ما ں با پ کے پو چھنے پر بھی کچھ نہ کہہ سکا ۔وا لدین تو اپنی او لا د کو خو د ان سے بھی زیا دہ جا نتے ہیں !اور اسکی مزا حمت اس دن دم تو ڑ گئی جب وہ سلیم احمد کے آ گے رو پڑا۔”ابّو میں یہا ں سیٹ نہیں ہو پا رہا “

با پ نے اپنے جذ با ت اور احسا سا ت کو قا بو میں رکھتے ہو ئے اس کو صبر کا حو صلہ دیا اگر چہ خو د ان کے لیے یہ کہنا مشکل تھا۔ شکر ہے کہ امّی جا ن اس وقت کسی پڑو سن کے سا تھ مصرو ف تھیں ۔اب جبکہ سلیم احمد کے معمو لا ت کچھ نئے اندا ز سے سیٹ ہو نے لگے تھے مگر یہ تو نئی ہلچل شرو ع۔ذہنی یکسو ئی پھر مفقو د ہو نے لگی رب سے تعلق کچھ اور بڑھنے لگا ۔

ان ہی دنو ں جب وہ فیصل کی یکسو ئی کے لیے دعا گو تھے ایک شب فو ن کی گھنٹی بج ا ٹھی ۔ را ت کے اس پہر کون ہو سکتا ہے؟ مو با ئل اٹھا تے ہو ئے سو چا۔اسکر ین پر نظر پڑی تو تو ایک نا ما نوس نمبر تھا۔ را نگ نمبر سمجھ کر نظر اندا ز کر نے کاسو چامگر پھر اٹھا لیاتو دوسری طر ف فیصل تھا۔ ٹہری ہو ئی پر سکو ن آوا ز!

”ابّو میں کرا چی ایر پورٹ سے بو ل رہا ہو ں۔بس ایک گھنٹے تک گھر پہنچ جا ﺅ ں گا ان شا ءاﷲ“انہو ں نے فو راسجدہ ادا کر ڈا لاگو یا اس کی بے چینی کو قرا ر مل گیا ہے!!

فیصل کی وا پسی پر پھر انوا ع و اقسا م کے تبصرے تھے

”ہا ں دیکھو ! وہا ں تو گو یاہن بر ستا ہے۔محض چا ر ما ہ میں اس نے اتنا کما لیا کہ پا کستا ن کا چکّر بھی لگا لیا “(وہا ں جا نے کی حسر ت!)

”ڈی پو رٹ تو نہیں کر دیا گیا ؟“ ( حسد بھری آوا ز)

” ہا ں اس کی ذہا نت اور محنت تو ہر جگہ انعا م دلوا تی ہے “(رشک بھری آوا ز )

ابھی لو گو ں پر یہ عقدہ نہ کھلا تھا کہ وہ مستقل طور پر پا کستا ن وا پس آ گیا ہے! یہ تو سلیم احمد ہی جا ن سکتے تھے جو اس نے ان کے گلے لگ کر کہا تھا

” ابّو ! اتنے خرا ب مو سم میں اتنی گندی جگہ ! میں محنت سے ہر گز نہیں گھبرا تا مگر میرا دل رو پڑا کہ صرف چند ڈالرز کے لیے میں اتنی جا ن ما رو ں ؟ کیا یہ میں اپنے لیے نہیں کر سکتا ؟“ اور انہو ں نے کچھ جوا ب نہ دیاتھا

”اور اس پر اتنی حقا ر ت اور بے رحمی! “سلیم احمد کو اس کے چند ما ہ پہلے کے مکا لمے یا د آئے مگر انہو ں نے نہ دہرا ئے ۔وہ خو د بو ل پڑا ”ابّو وہ لوگ صا ف کہتے ہیں ا گر اپنی اقدا ر اور زبان قا ئم رکھنی ہے تو یہا ں مت آﺅ!!!

اپنے وطن میں ہم کتنے فخر اور اطمینا ن سے رہتے ہیں اور ابّو ! سیٹ ہو نابھی بے معنی ہے !جو بر سو ں سے وہا ں ہیں محض زندگی گزا ر رہے ہیں ہر چیز کریڈٹ پر! کو ئی انویسٹمنٹ نہیں ، نہ دنیا نہ آخرت! اسلا م پر چلنا یہا ں مشکل لگتا ہے مگر وہا ں تو قا ئم رکھنا بھی بہت دشوا ر ہے

اور سلیم احمد سوچ رہے تھے۔ اس سفر نے وقت اور پیسہ تو ضا ئع کیا مگر جو سبق ملا وہ اس سے کہیں زیا دہ اور قیمتی ہے ! آخر موسٰی نے بھی تو خضر سے ہی آگاہی حا صل کی تھی!!!!!!!!

سارے لو گو ں کے روّیے ایک طرف مگر سب سے حیرا ن کن اور افسوس نا ک تبصر ہ مر یم کا تھا جس نے کہا: ”میں نے تو ڈرائیونگ بھی سیکھ لی ہے!انگلش اور کمپیو ٹر کو رس بھی مکمل کر لیا اور چا ئلڈ کیئر کا ڈ پلو ماکر رہی ہو ں “

” و یری گڈ! یہ ساری صلا حیتیں تویہا ں بھی استعما ل ہو سکتی ہیں“ فیصل نے اپنی مسکرا ہٹ چھپا تے ہو ئے کہا

” ہو ں یہا ں ؟؟؟ اسکی آوازمیں اتنی حقا رت تھی کہ وہ دنگ رہ گیا ”آپ وا پس چلے جا ئیں کینیڈامیں یہا ں نہیں رہ سکتی“ پہلے وا لا فیصل ہو تا تو بجھ کر رہ جا تا مگر وہ تو اتنی رو شنی حا صل کر چکا تھا کہ مایو سی کاکو ئی اندھیرا اس پر اثر نہ کر تا تھا۔یہ تو اپنے اپنے ظرف کی با ت ہے! ! ورنہ چار ماہ باہر رہنے والے اکثر اپنی چا لیس سا لہ زند گی بھول جا تے ہیں!!۱

تھکن اتا رتے ہی اس نے آفر ز میں سے بہترین کا انتخا ب کر کے ملا زمت کا آغا ز کر دیا تو امّی جا ن ر خصتی پر تل گئیں ۔اس نے ما ں کو رو کا ” ابھی مر یم کو ذہنی لحا ظ سے سیٹ ہو نے کا مو قع دیں“ ”ارے ہو جا ئے گا“ ” امّی پلیز“
اور اس کے اصرا ر پر وہ خا مو ش ہو گئیں۔

فیصل کی وا پسی کو چھ ماہ گز ر چکے تھے ۔ مریم کے وا لدین اس تعطل سے سخت پر یشا ن تھے مگر پھر بھی بھرم رکھے ہو ئے تھے جبکہ مر یم کے اندا ز میں خا صی بے ر خی آ چکی تھی وہ فیصل کی کوئی دلیل سننے کو تیاّر نہ تھی۔۔آج مر یم کی امّی سا ئر ہ با نو خا صی تیّا ری کے سا تھ اس وقت آئیں کہ فیصل سے ملا قا ت ہو۔ سلام دعا کے بعد وہ اپنے مو ضو ع پر آ گئیں

” ارے ہا ں بیٹا ! اس سال ہم لو گو ں کاارا دہ سہیل کے پا س امریکہ جا نے کا ہے ۔بہت ضد کر رہا ہے ۔میں ٹا ل رہی تھی کہ مریم کی رخصتی کے بعد ہی جا ﺅں ۔ پھر کینیڈا بھی آئیں گے تم لو گو ں سے ملنے“انہو ں نے ہلکے پھلکے اندا زمیں اپنی با ت کہنے کی کو شش کی مگر اس نے نہا یت مہذّب طر یقے ان کو روکا

”مگر خا لہ جا ن! (آنٹی سے خا لہ جا ن پر آ نا بھی در اصل ایک نفسیا تی گرہ کا کھلنا ہے کہ رشتو ں کے معا ملے میں ان کی تنگ دا منی کہ ایک ہی لفظ سے کئی کو بھگتا تے ہیں ۔ ہمیں تو کو ئی محتا جی نہیں ہے پھر کیو ں ا ن کی پیروی کریں !) میر ا تو کینیڈا جانے کا کوئی ارا دہ نہیں “ اس نے قطعیت سے کہا

”کیا مطلب؟؟“ انہو ں نے انجان بنتے ہو ئے پو چھا۔ جوا ب میں انکو فیصل کی بات سننی پڑی جو الفاظ اور لہجے کی تبدیلی کے سا تھ وہ مریم سے سن چکی تھیں مگر ان کو اپنا نقطہ نظر بھی تو سا منے رکھنا تھا جس ایجنڈے کے تحت وہ آئی تھیں -

” مگر تھو ڑے ہی عرصے کی با ت تو ہے پھر امّی ابّو کو بلوا لینا بلکہ بہنیں بھی“

”مگر میں اس ما در وطن کو تو سا تھ نہیں لے جا سکتا جو میری شنا خت ہے۔وہ فضا ئیں جو میرے لیے ہیں ،وہ ما حول جو میرا اپنا ہے! میں کیا کیا لےجاﺅں گا؟؟“

اس کی با ت پر سا ئر ہ با نو ہو ّنق سی ہو گئیں انہو ں نے یہ سب کچھ کب سنا اور سو چا تھا انہو ں نے تو اسے مر یم کی خو ش قسمتی سمجھا کہ وہ کینیڈا میں سیٹل ہو جا ئے گی اپنے بھا ئیو ں اور کز نز کی طر ح ! ورنہ ڈا کٹر اور انجیئنرتو یہا ں جو تیا ں چٹخا تے ر ہ جا تے ہیں مگر نہ معلوم کیو ں فیصل کے اندر اپنے دا دا جا ن کی رو ح آگئی ! سب گڑ بڑ ہو گئی؟ اگر پہلے یہ پتہ چل جا تا تو پھر

معّز ز قا رئین!!!اس کہا نی کا اختتا م مجھے خو ش آئند اور پر امید کر نا چاہیے !! مگر کیا کرو ں میرے انجام سے تمام کردار متفّق نہیں ؟ مر یم نہیں ما نتی! وہ ایک آزا د خیا ل معا شر ے میں زند گی گزا رنے کی خوا ہاں ہے۔ کیا اس کی یہ خوا ہش غلط ہے؟ مگر سا تھ ہی فیصل کے سا تھ زند گی گزا رنے کا سپنا بھی آنکھو ں میں بسا ہے۔ لا کھو ں کرو ڑو ں پا کستا نیو ں کی طرح وہ بھی مخمصے کا شکا ر ہے توانجام دلفر یب کیسے ہو سکتا ہے؟

حا لا نکہ وہاں کی حقیقی تصویر اب کسی سے پو شید ہ نہیں ر ہی مگر پھر بھی ایک نشہ ہے! ایک جا دوہے !ایک بہلا وا ہے جو حقیقت سے نظر یں چرا نے پر مجبور کر تا ہے۔

ایک بچّہ جس نے ہجر ت کا گھو نٹ ایک مقصد کے لیے چکھا تھا وہ اپنی اولا دو ں کو یہ ہی نظر یہ منتقل کر سکا اور جو لو گ محض معیا ر زندگی کی نا م نہا د بلندی کے لیے نقل مکا نی کر رہے ہیں وہ اپنی اگلی نسل میں ما دّیت پر ستی کے علا وہ کچھ بھی نہ پا سکیں گے!!!!!!!!!!!!

ّّّّّّّّّّّّّّ ایسا کریں کہ اس کا انجا م آپ خود بنا لیں ! کیا خیا ل ہے ؟؟؟؟
Farhat Tahir
About the Author: Farhat Tahir Read More Articles by Farhat Tahir: 72 Articles with 74147 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.