ماں٬ رنگ کائنات

دنیابھر میں ہرسال مئی کے دوسرے اتوار کو ماں کا عالمی دن پورے جوش و خروش سے منایا جاتاہے ۔ پاکستان بھر میں اس دن کے حوالے سے تقریبات منعقد کی جاتی ہیں‘گزشتہ دنوں کراچی کی مقامی ہوٹل میں ایک غیرسرکاری تنظیم کی طرف سے ایک سیمینار کا انعقاد کیاگیا ‘پروگرام میں مجھے شرکت کا موقع ملا ۔سیمینار کے دعوت نامہ میں لکھاگیاتھاکہ" پاکستان میں ہر بیس منٹ میں ایک ماں دوران زچگی پیجیدگیوں کو نہ برداشت کرتے ہوئے موت کی آغوش میں چلی جاتی ہے اور یہ وقت ہے کہ ہم ان اموات کو کنٹرول کرنے میں اپنا کردار ادا کر یں۔اس جملے کے ساتھ کارڈ پر یہ شعر بڑی خوبصورتی کے ساتھ لکھا تھا ۔
گر " ماں "ہے رنگ کائنات
تو اس کا "تحفظ" ربط کائنات

اس پروگرام کے انعقاد کا مقصد ملک کے اندر شعور کو عام کرنا ہے کہ و ہ عورتیں جو ایک نئی زندگی کو جنم دیتی ہیں ،اس عمل کے دوران کن مسائل سے گزرتی ہیں اور اگر انہیں بروقت طبی سہولت نہ ملے تو جان سے گزرجاتی ہیں یازندگی بھر کے لیے معذوری کی یاانتہائی اذیت کی زندگی گزارتی ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ اس تقریب میں کتنے نوجوان حصہ لیں گے لیکن مجھے یقین ہے کہ اس پروگرام میں پاکستان بھر سے بہت سارے نوجوان نے شرکت کریں گے ۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نوعمری اور نوجوانی میں ماں سے محبت کا وہ رشتہ کمزور نہیں ہوتاجو بعض حالات میں اگے چل کر اتنا مستحکم نہیں رہتا ۔

کتابچے میں نوجوانوں کو بتایا گیا تھا کہ دنیابھر میں نئی زندگی کو جنم دینے کے لیے مختلف مرحلوں سے گزرنے والی چھ لاکھ مائیں ہرسال ہلاک ہوجاتی ہیں اور سالانہ ایک کروڑ 80 لاکھ مائیں عمر بھر شدید اذیت میں مبتلارہتی ہیں اور ان میں سے لاکھوں تاحیات معذور زندگی گزارتی ہیں۔یادرہے کہ پاکستان میں بچے کی پیدائش کے دوران ماؤں کی اموات کی شرح دنیابھر میں سب سے زیادہ ہے یہاں روزنہ ہر گھنٹے تین مائیں ہلاک ہوجاتی ہیں اور ہر گھنٹے 45 مائیں عمر بھر کے لیے تکلیف اور معذروی کا شکار ہوجاتی ہیں ، پاکستان اور دنیابھر کی ماؤں کے بارے میں ہلاکت اور اذیت کایہ سالانہ حساب کتاب رونگٹے کھڑے کردیتاہے ،یہ ان لاکھوں بچوں کے بارے میں بھی سوال اٹھاتاہے جو انکھ کھول کرماں کا چہرہ نہیں دیکھتے اور عمربھر ماں کی محبت کے انمول خزانے سے محروم رہتے ہیں،یہ ان بچوں کی آزردگی اور ناآسودہ خواہشوں کی طرف بھی اشارہ کرتاہے جن کی مائیں بروقت طبی سہولتوں کے نہ ملنے کے سبب زندہ تو بچ جاتی ہیں لیکن صحت مند ماؤں کی طرح اپنے بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتیں۔ان کامقدر یہی ہوتاہے کہ وہ اپنے بچوں کو دوسروں کامحتاج دیکھیں اور جسمانی اذیت کے ساتھ ساتھ ذہنی عذابوں سے بھی گزریں ۔یہ حساب کتاب ان لاکھوں بچوں کااحوال بھی بیان کرتاہے جو مردہ پیداہوئے یاپیدائش کے بعد جنہیں مناسب عذا بروقت طبی سہولتیں نہ مل سکیں اور پانچ برس کے عمرسے پہلے ہی اس جہاں سے رخصت ہوئے، کہنے کو ان گم نام ماؤں اور بچوں کا قصہ ہے جو پاکستان کے دیہاتوں ،قصبوں اور شہروں اور نیم مضافاتی بستیوں اور کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔پیداہوتے ہیں اور ان میں اکثرکاکفن بھی مانگے کاہوتاہے لیکن یہ گم نام عورتیں اور شیرخواری میں ہلاک ہوجانے والے بچے قوموں کی برداری میں پاکستان کی پیشانی پر کلنک کے ٹیکے کی طرح نظر آتے ہیں، پاکستان صرف جنوبی ایشاءہی نہیں دنیاکے ملکوں کی انسانی ترقی کے اشاریے میں بہت سے افریقی ملکوں ،جنوبی ایشیامیں سری لنکا،بنگلہ دیش اور بھار ت سے کہیں پیچھے ہے۔اس بدبختی میں اس کا مقابلہ اگر کسی سے ہے تو وہ نیپال کی چھوٹی سے ریاست ہے ۔حد تو یہ ہے کہ ایک خونین خانہ جنگی سے گزرنے والے اور 38 برس پہلے آزادی حاصل کرنے والے بنگلہ دیش نے اسے پیچھے چھوڑ دیا-

دنیا بھر میں ماں بننے والی عورتوں اور نوزائیدہ بچوں کو ترجیحی بنیادوں پر طبی سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں لیکن پاکستان میں عورتوں اور نوزائیدہ یا شرخوار بچوں کے ساتھ جس قدرغیرانسانی رویہ رکھاجاتاہے وہ بیان سے باہر ہے۔ہمارے ملک میں سرکاری سطح پر زچہ وبچہ کے لیے اتنے بڑے پیمانے پر طبی سہولیتں موجود نہیں جن کی ضرورت ہے ،دوسری طرف غربت کی شرح روزانہ بلندہورہی ہے اور تیسری طرف ہمارے یہاں خاندانی منصوبہ بندی رواج نہیں پاتی ،ان دو انتہاؤں کے درمیاں وہ عورت ہے جسے ہمارے یہاں پڑھے لکھے گھروں میں بھی بچہ پیدا کرنے کی مشین سمجھا جاتاہے تو پھر دیہاتوں اور مضافاتی بستیوں کی تو بات چھوڑ دیجیے ۔وہاں عورت کاسات ،گیارہ یاتیرہ مرتبہ حاملہ ہونا کوئی خاص بات نہیں خواہ اس کے بدن میں خون نہ ہونے کے برابرہواور جو دوران حمل بھی اکثر فاقہ کرتی ہو او ر اور اگر 24 گھنٹوں میں اسے ایک مرتبہ روکھی سوکھی میسر آجائے تو اس پر شکرادا کرتی ہو ،اچھی اور متوازن غذاتو دور کی بات ہے ، ماؤں کے زندہ رہنے کا حق اور صحت کا معاملہ صرف ایک گھر اور ایک خاندان کا مسلہ نہیں یہ پوری کمیونٹی اور آخر کار ملک کا مسئلہ ہے جس کو ماؤں اور نوعمر بچوں کی بڑھتی ہوئی شرح اموات کے سبب ملکوں کی ترقی کے اشاریے میں پچھلی صفوں میں جگہ ملتی ہے -

زندگی اور صحت ہر انسان کااور بطور خاص ایک نئی زندگی کو جنم دینے والے عورت کا پیدائشی اور انسانی حق ہے ۔افسوس کہ اس حق کے فراہمی کی ذمہ داری ، نیشنل پروگرام ‘ایم این سی ایچ ،یوایس ایڈ،یونیسف یاایسے دیگر بین الاقومی امدادی اداروں کے سرڈال دی گئی ہے ۔ہمارے مقتدرین کے لیے تو یہی کافی ہے کہ وہ اپنی تقریر کے دوران دہراتے رہیں کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے ،اور اپنی بے اعتنائی اور نااہلی سے اس ماں کو قبر میں اتارتے رہیں۔
Khalil Roonjoh
About the Author: Khalil Roonjoh Read More Articles by Khalil Roonjoh: 6 Articles with 6782 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.