ٹونسل یا لوزے کو کب نکالا جانا چاہیے

لوزہ یا گلے کی گلٹیاں جسم کی قوت مدافعت کو مُنہ کے ذریعے کسی بھی قسم کے مرض زا یا مرض پیدا کرنے والے جرثومے سے خبر دار کرنے کا اہم کام انجام دیتا ہے۔ تاہم کبھی کبھی ٹونسل یا لوزے کو جراحی کے ذریعے کاٹ کر نکال دینا نا گزیر ہو جاتا ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹرز گزشتہ چند سالوں کے مقابلے میں اس وقت ٹونسلز یا گلے کی گلٹیوں کو کاٹ کر نکال دینے کے عمل میں خاصے محتاط ہو گئے ہیں اور اس جراحی سے ممکنہ حد تک پرہیز کرنے لگے ہیں، خاص طور سے بچوں کے گلے میں ٹونسلز کے آپریشن کے سلسلے میں احتیاط سے کام لیا جا رہا ہے کیونکہ بچوں کا امیون سسٹم یا نظام مامونیت ہنوز پختہ ہونے کے مراحل سے گزر رہا ہوتا ہے۔

کان، ناک اور گلے کے امراض کے جرمن ماہر پروفیسر ویرنر ہوزے من کے مطابق، ’اسے ایک فلٹر کی مانند سمجھا جا سکتا ہے، مُنہ کے ذریعے سانس میں جو کچھ بھی جاتا ہے وہ ٹونسل یا لوزے سے گزرتا ہوا جاتا ہے اور یہیں پر مرض پیدا کرنے والے جرثومے کا سراغ لگ جاتا ہے‘۔
 

image


ٹونسل یا لوزے گہری نالیوں سے ڈھکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے وہ وسیع تر علاقے میں پھیلے ہوتے ہیں۔ اس کے سبب ٹونسل یا لوزے کا مختلف طرح کے جراثیموں، بیکٹیریا یا پھپھوندی سے واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ ان میں سے کسی کے بھی حملے کی صورت میں ٹونسلز متحرک ہو جاتے ہیں اور بیماریاں پیدا کرنے والے ان اجسام کا مقابلہ کر تے ہوئے جسمانی نظام مدافعت کو خبردار کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی جراثیم کے حملے کو ٹونسلز امیونولوجیکل میموری یا مناعیاتی حافظے میں محفوظ کر دیتے ہیں۔ اس طرح جسم کا نظام مامونیت اس خاص طرح کے جراثیم کے حملے کے لیے تیار رہتا ہے۔

تاہم ٹونسلز کبھی کبھی تکلیف کا باعث بھی بن جاتے ہیں جو اکثر و بیشتر تکلیف دیتے ہیں یا بعض واقعات میں کہنہ مرض کی علامات ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ماننا ہے جرمن شہر لیوبک کے یونیورسٹی کلینک کے امیونولوجسٹ ویرنر زول باخ کا جبکہ جرمن صوبے باویریا کے ای این ٹی اسپیشلسٹ ونفریڈ گوئرٹسن کہتے ہیں، ’اب تک یہ رواج تھا کہ ٹونسلز کو بہت جلدی نکال دیا جاتا تھا۔ تاہم اب حالات اس کے برعکس ہیں‘۔
 

image


اس سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ ٹونسلز نکال دینے سے جسم کا نظام مامونیت کمزور پڑ جاتا ہے۔ تاہم جرمن ماہرویرنر زول باخ کہتے ہیں کہ ایسا محض اُسی صورت میں ہوتا ہے جب جسم کے امیون سسٹم کے مستحکم ہونے سے پہلے ہی ٹونسلز کو آپریشن کے ذریعے نکال دیا جائے۔ ان کے مطابق جب چھ سال کی عمر تک کسی بھی بچے کا امیون سسٹم مستحکم ہو جاتا ہے، تو پھر ٹونسلز کے آپریشن سے اس بچے کے جسمانی مدافعتی نظام پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اس سے ظاہر یہ ہوا کہ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹونسلز کا آپریشن کس عمر میں کرایا جاتا ہے۔ ماہرین چار سال سے کم عمر بچوں کے ٹونسلز کو جراحی کے ذریعے نکال دینے کے خلاف ہیں۔
 

image

پروفیسر ویرنر ہوزے من کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے ٹونسلز مسلسل عفونت کا شکار رہیں اور ان سے پیپ وغیرہ رستی رہے اور وہ بہت تکلیف دینے لگیں تو انہیں نکلوا دینا چاہیے کیونکہ کسی بھی تاخیر سے باعث تکلیف انفیکشن سے امیون سسٹم کمزور ہو جاتا ہے، خاص طور سے اس لیے بھی کے اس کے دیرپا اثرات ہوتے ہیں۔ کہنہ عفونت پیپ سے بھرے ہوئے پھوڑے کی شکل اختیار کر سکتی ہے اور بد ترین صورت میں تعفن پیدا کرنے والے عارضے کی کیفیت اختیار کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں اگر بچوں میں ایک سال کے اندر اندر چار سے چھ بار ٹونسلز کی عفونت یا بڑوں میں یہی عفونت تین سے زائد مرتبہ پیدا ہو یہ Tonsillectomy یا ٹونسلز کے آپریشن کی ضرورت کی علامت ہوتی ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE:

Having your tonsils removed is a surgical procedure called a tonsillectomy. Reasons you may need to have your tonsils removed include: frequent infections (episodes of tonsillitis, usually 7 or more in 1 year), difficulty breathing or swallowing, sleep apnea, or any growths on the tonsils.