پاکستان بلاگ ایوارڈ

ارادہ یہ تھا کہ پورے دن کے بلاگی سرگرمیوں کو الفاظ کی پوشاک پہنائوں اورسجا سنوار کر اپنے برقی گھر میں بٹھادوں لیکن آئی بی اے کیمپس سے باہر نکلا تو دن کی روشنی ٹھنڈی رات کی چکاچوند میں بدل چکی تھی۔ کانپتا، سکڑتا ساتھی اردو بلاگر عمار ضیاء کے ساتھ چہل قدمی کرتا بس اسٹینڈ تک پہنچا ،بس پکڑی اور ٹریفک کےشدید ترین اژدھام سے ہوتا ہوا ٹھیک ڈھائی گھنٹے بعد رات دس بجے شہر کے انتہائی شمال میں واقعہ اپنے گھر پہنچا، کھانا کھایا، کمبل کی اوٹ میں چائے کی چسکیاں لی اور پھرلمبی تان کر یہ جا وہ جا کہ اب کہاں کی بلاگنگ اور کدھر کی ورکشاپ۔لیکن رات کے قریب چار بجے، جب گلی کے کتے بھی بھوک بھوک کے تھک ہار سوجاتے ہیں، اچانک ایک ہم جماعت کے اندر ملکوت الموت کی روح گھس آئی اور موصوف نے صرف یہ بتانے کے لئے فون گھمادیا کہ وہ ابھی ابھی عمران خان سے مل کر آرہے ہیں، نتیجے کے طور پر ہمارے غیض وغضب کا ایسا شکار ہوئے کہ آئندہ کسی کو رات دس بجے فون کرنے سے پہلے بھی پچاس بار سوچیں گے۔نیند تو پوری ہوچکی تھی اور دن بھر کی تھکن موصوف پر اتر چکی تھی لیکن بلاگنگ کا خمار ابھی باقی تھا۔ کروٹیں بدلتے ہوئے ایک بار پھر گھڑی پرنظر پڑی، رات کے ساڑے چار بجے تھے یعنی گالا نائٹ میں صرف چودہ گھنٹے تھے، دل میں دھک دھک ہوئی اور خیال نے خاموشی کا بائیکاٹ کیا، سوچ کے گھوڑے دوڑائے تو وہ جعفر، اسد اور یاسر کو پکڑ کر لے آئے لیکن یار فرحان دانش!

ٹھنڈی آہیں اور دو چار کروٹوں کے ساتھ ہم نے خود کو ایک بار پھر خوابوں کی دنیا میں پایا، دو گھنٹے کی نیند کے بعد دفتر پہنچا، شام پانچ بجے تک تمام امور نمٹائے اور مفت سواری میں سوئے ایوارڈ روانہ ہوا۔ قریب ساڑھے سات بجے مقامی ہوٹل کے استقبالیہ پر موجود تھا، سامنے ہی عمار بیٹھے نظر آگئے اور پھر کچھ ہی دیر میں فہد کہار، اسد، شعیب صفدر اور سمید تہامی بھی پہنچ گئے۔ عام ہے کہ پاکستان میں کوئی تقریب اپنے مقررہ وقت پر شروع نہیں ہوتی اور اسی لئے دوسرے سالانہ بلاگ ایوارڈ کی تقریب بھی اپنے مقررہ وقت سے نصف گھنٹے تاخیر سے شروع ہوئی۔ نظامت کی ذمہ داری محترمہ رابعہ نے سنبھالی ہوئی تھی اور انکی نظامت دیکھ کر محسوس ہوا کہ وہ جتنا اچھا لکھتی ہیں اس سے کہیں اچھا بولتی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ انہوں نے بغیر کسی ابتدائیہ یعنی بلاگنگ ایوارڈ کے بنیادی آئیڈیا، اوبجیکٹیو اور تھیم کے تقریب شروع کردی۔ تقریب کا باقاعدہ آغاز سورۃ فاتحہ کی تلاوت اور انگریزی ترجمہ سے ہوا، گویا پاکستان بلاگ ایوارڈ کے ابتدا میں ہی قومی زبان اردو کو نظر انداز کردیا گیا۔تلاوت کے بعد مقامی اسکول کے طلباء و طلبات نے قومی نغموں اور علاقائی موسیقی پر پاکستان کے رنگ بکھیرے۔

تقریب کا اگلا مرحلہ تقسیم ایوارڈ کا تھا، نمایاں جیتنے والوں میں بینا سرور، علی کے چشتی، عائشہ اعجاز اور سارہ خلیلی شامل تھے لیکن انگریزی زبان کی مختلف کلیات میں ایوارڈ جینتے والے خوش نصیبوں کو جاننے سے زیادہ ہماری یعنی فہد کیہر، شعیب صفدر، عمار، اسد اور میری ترجیح شرکائے تقریب کو قومی زبان میں بلاگنگ سے روشناس کرانا اور انہیں اس زبان کی اہمیت اور افادیت کا احساس دلانا تھا۔ اس کوشش اور سعی میں ہماری سب سے بڑی مددگار ایم بلال ایم کی اردو انسٹالر کی سی ڈی تھی جسے فہد کیہر اور اسد قریب ڈھائی سو کی تعداد میں لے کر آئے تھے اور مفت تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ شرکاء سے ملاقات کے دوران انہیں یہ یقین دلانا مشکل تھا کہ اردو میں لکھنا اور بلاگنگ کرنا بھی اتنا ہی آسان ہے جتنا کہ انگریزی یا کسی اور زبان میں لیکن ہم اس مشکل کام میں کتنے کامیاب ہوئے اسکا اندازہ آئندہ آنے والے کچھ دنوں میں ہوگا البتہ بدرخوشنود، رابعہ، حماد صدیقی، جہاں آراء، فیصل کباڈیہ، ثناء سلیم اور عواب علوی سمیت نمایاں شرکاء سے ملاقات کے دوران انکی طرف سے آنے والے رسپانس پر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ ہم کافی حد تک کامیاب رہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایوارڈ کے آخری حصے میں ایوارڈ دینے کےلئے ہم تین اردو بلاگرز کو اسٹیج پر بلایا گیا۔ خوشی کی ایک اور بات یہ تھی کہ ہمیں بہترین مزاحیہ بلاگ کا ایوارڈ دینا تھا اور ڈفرستان کے ڈفر اعظم اس کلئیے میں تمام انگریزی بلاگران کو بچھاڑتے ہوئے کامیاب ہوئے اور انہیں اپنا ایوارڈ اردو بلاگران کے ہاتھوں ملا، یہ اور بات ہے کہ لوگوں کو گمراہ کرنے کے ڈفر اعظم نے سمید تہامی کو ڈفر اعظم بناکر بھیجا ہوا تھا۔

ایوارڈ کے آخری مرحلہ میں رابعہ کے ایک اعلان کے ساتھ ہی جہاں ہال کے بائیں کونے پر لگی میز پر بیٹھے پانچوں اردو بلاگران سکتے میں آگئے وہیں ٹوئڑ اور فیس بک پر بیٹھے بلاگران میں سے کم از کم ایک نے تو بلاگنگ سے استعفی ہی دینے کا اعلان کردیا۔بغض اور عناد نہیں اور نہ ہی کوئی ذاتی دشمنی کے کسی کو انڈر ایسٹیمیٹ کریں، لیکن اردو بلاگنگ کے مستقبل کے لئے کچھ لکھنا اور کہنا ضروری ہے۔جناب قصور ہرگز، ہرگز فرحان کا نہیں کہ اسے بھی اور بلاگران کی طرح اپنے بلاگ کو نامزد کروانے اور کامیابی کے لئے تحریک چلانے کا پورا پورا حق تھا اور قصور ایوارڈ کے منتظمین کا بھی نہیں کہ وہ اردو اور اردو بلاگنگ کیا اسکی الف ب بھی نہیں جانتے تھے البتہ قصور اردو بلاگنگ کمیونٹی کا ضرور ہے جو اردو بلاگنگ کے لئے روتی بھی ہے، چیختی چلاتی بھی ہے لیکن لکھنے پر آمادہ نہیں، کئی اچھے لکھنے والے لکھنے سے تائب ہوگئے اور کئی قلت وقت کو عذر بناکر منظر سے غائب۔ قبل اس شاک کہ چائے کے وقفہ سے ذرا بعد ہم خوشی خوشی اسٹیج سے اترے تو ہمارے بیٹھے ساتھ ہی بہترین اردو بلاگر کے ایوارڈ کا اعلان ہونا تھا، میری ساتھ والی نشست پر براجمان محمد اسد کے دل کی ڈھرکن کو میں محسوس کئے بغیر نہ رہ سکتا تھا، ٹوئیڑ اور فیس بوک پر استاد جی اور دیگر غیر حاضر بلاگران کے حالات بھی میاں اسد سے مختلف نہ تھے۔ دل میں دھک دھک ہوئی اور خیال نے خاموشی کا بائیکاٹ کیا، سوچ کے گھوڑے دوڑائے تو وہ جعفر، اسد اور یاسر کو پکڑ لے آئے لیکن یار فرحان دانش!
Kashif Naseer
About the Author: Kashif Naseer Read More Articles by Kashif Naseer: 13 Articles with 14338 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.