چنگیز خا ن ۔ دوسری قسط

چنگیز خان، جلال الدین خوارزم شاہ کو اپنے لئے بہت بڑا خطرہ محسوس کرتا تھا کیونکہ وہ جلال الدین کی شجاعت اور بہادری سے واقف تھا۔

سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کی موت کے بعد مسلمانوں میں افراتفری کا عالم تھا ، ان کے لشکر چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بٹ کر اپنی قوت اور طاقت کھو چکے تھے بستیاں اجڑگئیں تھیں اور شہر تباہ ہوچکے تھے۔ مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد ماری جاچکی تھی ، جن بستیوں اور شہروں پر چنگیز خان اور اسکے سپاہیوں نے حملے کئے انھیں مکمل طور پرتباہ و برباد کردیا تھا۔ بچے کچھے لوگ پہاڑوں اور جنگلوں میں جاچھپے تھے ۔ ایسے میں مسلمانوں کو اگر کو بچاﺅ کی کوئی صورت آتی تھی تو وہ سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کا بڑا بیٹا جلال الدین خوارزم شاہ تھا، لیکن وہ اکیلا منگولوں کے خلاف کیا کرسکتا تھا۔ بہرحال جلال الدین نے جب اپنے باپ کی موت کے بعد سلطان کا منصب سنبھالا تو اس کے سامنے دو راستے تھے ، پہلا یہ کہ وہ اپنے باپ سلطان علاﺅ الدین خوارزم شاہ کی طرح ذلت اور رسوائی کا راستہ اختیار کرتے ہوئے منگولوں کے آگے آگے بھاگتا پھرے۔ دوسرا یہ کہ جواں مردی اور شجاعت سے کام لیتے ہوئے عزت کی موت کو ذلت کی زندگی پر ترجیح دے۔ چنانچہ سلطان جلال لدین خوارزم شاہ نے دوسرا راستہ اختیارکیااور لشکر تیار کرکے چنگیز خان سے مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور بچے کچھے سپاہیوں کو لیکر سلطنت کے مرکزی شہر خوارزم کی طرف روانہ ہوگیا۔جلال الدین جب خوارزم پہنچا تو وہاں کے لوگ اسے دیکھ بہت خوش ہوئے اور وہ سپاہی جو سلطان علاﺅالدین کی بزدلی کی وجہ سے ادھر ادھر بھاگ گئے تھے سلطان جلال الدین کے پاس جمع ہونا شروع ہوگئے اس طرح چند ہی دنوں میں سلطان جلال الدین کے پاس سات ہزار سپاہی جمع ہوگئے۔

چنگیز خان کو جب یہ اطلاع ملی کہ جلال الدین خوارزم شاہ ایک چھوٹے سے لشکر کے ساتھ خوارزم شہر میں مقیم ہے تو اس نے فوراََ ایک لشکر خوارزم پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کردیا ، وہ کسی طور یہ نہ چاہتا تھا کہ جلال الدین زندہ رہے یا اس کے خلاف لشکر جمع کرے ، وہ اسے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ محسوس کرتا تھا کیونکہ وہ جلال الدین کی شجاعت اور بہادری سے واقف تھا۔ منگولوں نے جب سلطان جلال الدین پر حملہ کیا تو وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بھی اپنے باپ کی طرح ان کا نام سن کر بھاگ کھڑا ہوگا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا سلطان جلال الدین اپنے چھوٹے سے لشکر کے ساتھ منگولوں کے کئی گنا بڑے لشکر پر ٹوٹ پڑا اور اتنی بے جگری سے لڑا کہ منگول سپاہی بھاگ کھڑے ہوئے ۔ سلطان کے ہاتھوں منگولوں کی یہ پہلی شکست تھی۔

اس کے بعد سلطان جلال الدین یہاں سے آگے روانہ ہوگیا راستے میں اسے اطلاع ملی کہ آگے منگولوں کا ایک اور بڑا لشکر اسے روکنے کے لئے تیار کھڑا ہے۔ لیکن سلطان نے ہمت نہ ہاری اور آگے بڑھا ، جب اس مقام پر پہنچا جہاں منگولوں کا لشکر موجود تھا ۔ منگولوں نے اس پر حملہ کردیا ، سلطان جلال الدین نے اپنے چھوٹے سے لشکر کو اس منظم طریقے سے منگولوں سے لڑایا کہ منگول حیران رہ گئے ، اس لڑائی میں سلطان اور اسکے سپاہیوں نے ان گنت منگولوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ، منگول اپنے لشکر کا اسقدر جانی نقصان دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوئے سلطان جلال الدین کے ہاتھوں منگولوں کی یہ دوسری شکست تھی۔

چنگیز خان سلطان جلال الدین کے ایک شہر سے دوسرے شہر جانے پر بے حد پریشان اور فکر مند تھا وہ جانتا تھا کہ اگر اس نے بکھرے ہوئے مسلمانوں کو اپنے گرد جمع کرلیا تو منگولوں کا نام و نشان مٹادے گا ۔ وہ جلد سے جلد سلطان جلال الدین کا خاتمہ چاہتا تھا۔ اس لئے اس نے ایک اوربہت بڑ ا لشکر سلطان پر حملہ کرنے کے لئے روانہ کردیا۔ سلطان جلال الدین کے لشکر کی تعداد اب اٹھارہ ہزار کے لگ بھگ ہوگئی تھی ۔ اسے اس کے مخبروں نے اطلاع دی کی منگولوں کے ایک بہت بڑے لشکر نے مسلمانوں کے شہر قندز کا محاصرہ کیا ہوا ہے اور وہاں کے لوگ بہادری سے انکا مقابلہ کررہے ہیں اور منگولوں کو شہر میں داخل نہیں ہونے دے رہے ہیں، چنانچہ سلطان اور اس کا لشکر منگولوں پر ٹوٹ پڑا گھمسان کی جنگ ہوئی جس کے نتیجے میں منگولوں کوبدترین شکست ہوئی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے ۔ سلطان کے ہاتھوں منگولوں کی یہ تیسری شکست تھی۔

اس کامیابی کے بعد سلطان اپنے لشکر کے ساتھ غزنی سے ہوتا ہوا بروان شہر پہنچا ، جہاں اسے اطلاع ملی کہ منگولوں کے ایک لشکر نے بامیان شہر کا محاصرہ کیا ہوا ہے چنانچہ سلطان جلال الدین اپنے لشکر کے ساتھ بامیان شہر پہنچا اور منگولوں پر موت طاری کرنے والا حملہ کردیا منگول ایک مرتبہ پھر بھاگ کھڑے ہوئے اس طرح سلطان کے ہاتھوں منگولوں کی یہ چوتھی شکست تھی۔چنگیز خان کو جب اس چوتھی شکست کی خبر ملی تو اسے منگولوں کی کمزوری ، ذلت اور شکست پر بڑا غصہ آیا اس نے تہیہ کرلیا کہ وہ سلطان جلال الدین سے اپنی اس ذلت اور رسوائی کا انتقام ضرور لے گا۔ اس نے فورا تیزرفتار قاصد روانہ کئے کہ وہ اس شکست خوردہ لشکر کو وہیں رکنے کا حکم دیں اور کہیں کہ چنگیز خان خود وہاں جلال الدین کا مقابلہ کرنے کے لئے آرہا ہے۔

سلطان جلال الدین کو جب یہ اطلاع ملی کہ چنگیز خان خود ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ اس پر حملہ آور ہونے کے لئے آرہا ہے تو اس نے چنگیز خان سے ٹکرانے کا عزم کرلیا، اس موقع پر سلطان جلال الدین نے اپنے لشکر کو تین حصوں میں تقسیم کیا ، درمیانی حصہ کا لشکر سلطان نے اپنے پاس رکھا ، دائیں اور بائیں جانب کے حصہ کا لشکر اپنے دو سپہ سالاروں سیف الدین اور امین الملک جو جنگ کا بہترین تجربہ رکھتے تھے ، انکی کمان میں دیکر، بروان شہر کے باہر کھلے میدان میں اپنے لشکر کے ساتھ چنگیز خان کا انتظار کرنے لگا۔چنگیز خان نے آتے ہی مسلمانوں پر اپنی پوری طاقت سے حملہ کردیا ۔ سلطان نے اپنے سپاہیوں کے ساتھ تکبیربلند کی اور پوری قوت سے منگولوں سے ٹکراگیا، بروانی شہر کے گرد و نواح کے میدان میں سارا دن منگولوں اور مسلمانوں کے درمیان جنگ جاری رہی۔ آخر چنگیز خان اور اس کا لشکر جلال الدین کے سپاہیوں کے سخت حملوں کی تاب نہ لاسکے اور ان کے پاﺅں اکھڑ گئے اور بھاگ کھڑے ہوئے۔ جب منگول بھاگے تو اس وقت سلطان جلال الدین کے جوش اور جذبے کی حالت دیکھنے والی تھی۔ مسلمانوں نے چنگیز خان کے سپاہیوں کا تعاقب کرتے ہوئے انکا خوب قتل عام کیا۔ سلطان جلال الدین کے ہاتھ چنگیز خان کی یہ پانچویں شکست تھی۔

چنگیز خان کی اس شکست کے بعد سلطان جلال الدین کے لشکر میں بھی ایک بہت بڑا حادثہ رونما ہوا ۔ سلطان کے لشکر کے دونوں سپہ سا لاروں امین الملک اور سیف الدین کے درمیان ایک انتہائی خوبصورت اور اعلیٰ نسل کے گھوڑے کی وجہ سے تکرار شروع ہوگئی جو اس جنگ میں مسلمانوں کے ہاتھ لگا تھا۔ امین الملک نے غصے میں آکر گھوڑے کا چابک سیف الدین کے سر پر دے مارا، جس کی شکایت سیف الدین نے سلطان جلال الدین سے کی ، سلطان کشمکش میں پڑ گیا ، کیونکہ ان دونوں کے ماتحت کافی بڑے لشکر تھے وہ ان دونوں میں سے کسی کی بھی دل شکنی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ لہٰذا سلطان نے کسی قسم کے رد عمل کا اظہار نہیں کیا اور خاموش رہنے میں مصلحت جانی۔ سلطان کی خاموشی سے سیف الدین کو دلی رنج ہوا ، اس نے اپنے حصے کے لشکر سے کہا کہ ہم اب امین الملک کے ساتھ نہیں رہ سکتے ، ہم واپس جائیں گے۔سیف الدین کے اس فیصلے کا علم جب سلطان کو ہوا تو اس نے اسے سمجھایا کہ اگر ہم نے نااتفاقی سے کام لیا تو منگول ہم پر قابو پالیں گے ، ہمارے اتفاق ہی کہ وجہ سے ہم نے منگولوں کو شکستیں دی ہیں۔ سلطان کے سمجھانے پر اس وقت تو سیف الدین خاموش رہا ، لیکن جب رات کو سب سوگئے تو سیف الدین اپنے لشکر کے ہمراہ سلطان جلال الدین کو چھوڑ کر چلا گیا۔ سلطان جلال الدین کو سیف الدین کے یوں چلے جانے کا بڑاملال ہوا۔

چنگیز خان ، جلال الدین سے شکست کھانے کے بعد بڑے غصے اور غضب کی حالت میں تھا اور مناسب موقع کی انتظار میں تھا تاکہ جلال الدین پر حملہ کرکے اپنی شکست کا بدلہ لے ۔ اس کے مخبروں نے جب اسے یہ اطلاع دی کہ سلطان کا ایک بہترین سپہ سالار اپنے حصے کے لشکر کے ساتھ سلطان سے الگ ہوگیا ہے تو چنگیز خان نے سوچا کہ اسے سلطان جلال الدین پر حملہ کرنے کا اس سے بہتر موقع پھر کبھی نہیں مل سکے گا۔ چنانچہ اس نے اپنے پورے لشکر کو جمع کیا اورسلطان کی طرف بڑھا۔ ادھر سلطان جلال الدین کے مخبر بھی اسے چنگیز خان کے بارے میں اطلاعات فراہم کررہے تھے۔ سلطان بھی چنگیز خان سے مقابلہ کرنے کے لئے مناسب جگہ کی تلاش میں تھا وہ چاہتا تھا کہ چنگیز خان کو اب ایسی شکست دے کہ وہ دوبارہ مسلمانوں کا سامنا نہ کرسکے۔ لیکن سلطان جلال الدین کے لئے دشواری یہ تھی کہ پہلے اس کے پاس ساٹھ ہزار کا لشکر تھا لیکن سیف الدین کی علیحدگی نے مسلمانوں کی طاقت کو نقصان پہنچایا تھا۔ سلطان جلال الدین کوشش کررہا تھا کہ کسی طرح اپنے لشکر کی اس کمی کو پورا کرے لیکن حالات دن بدن دشوار ہورہے تھے منگول لشکر چاروں طرف سے سلطان کا گھیراﺅ کرتے جارہے تھے ۔

(جاری ہے)
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 302921 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.