ملاکنڈ ڈویژن اور سوات میں ٹیکس کے نفاذ کی تیاریاں

ملاکنڈ ڈویژن بہ شمول سوات میں ایک بار پھر حکومت کی جانب سے ٹیکس لگانے کی تیاریاں شروع کردی گئی ہیں، حالانکہ 1969 میں پاکستان کے ساتھ ریاست سوات کے ادغام کے وقت اس علاقے کو خصوصی حیثیت دیتے ہوئے ٹیکس فری زون قراردیا گیا تھا،حالیہ ٹیکس کے نفاذ کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ 16 فروری 2024 کو commissioner Inland Revenue Mardan Regional Tax Office Peshawar کی جانب سے ایک نوٹی فیکیشن جاری کیا گیا ہے جس کے تحت ملاکنڈ ڈویژن اور سوات میں ٹیکس کے نفاذ کیلئے تیاریوں اور دفتر کے قیام کیلئے بلڈنگ کے حصول کی ہدایت کی گئی ہے۔
سوات میں ٹیکس کے نفاذ کیلئے تیاریوں کا یہ سلسلہ نیا نہیں بلکہ گاہے بہ گاہے اس طرح کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں جس پرسوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے عوام یک آواز ہوکر احتجاج پر مجبور ہوتے ہیں جس کے بعد یہ سلسلہ کچھ دنوں کیلئے موقوف کیا جاتا ہے اور ٹیکس کے نفاذ کیلئے کسی مناسب وقت کا انتظار کیا جاتا ہے۔تحریک انصاف کی پچھلی حکومت میں بھی کسٹم ایکٹ کی آڑ میں ممبران اسمبلی کو بے خبر رکھتے ہوئے ایک مہم جوئی کی گئی تھی جس پر بعد میں حکومت بیک فٹ پر جاکر کچھ وقت کیلئے ہاتھ کھڑ ا کر گئی تھی۔
ملاکنڈ ڈویژن بشمول سوات میں ٹیکس کے نفاذ کا سلسلہ 2017 سے شروع کیا گیا ہے اس وقت ضلعی انتظامیہ سوات کی جانب سے عوام کو ٹیکس کے نفاذ کیلئے تیارکرنے کے حوالے مقامی اخبار میں اشتہار دیا گیا تھا جسے ٹیکس سے ناآشنا سوات اور ملاکنڈ ڈویژن کے لوگ ابھی پوری طرح سمجھ نہیں پارہے تھے اور گومگو کی کیفیت میں تھے کہ اگلے روز یعنی 27 فروری کو سوات کے ایک اور مقامی اخبار میں بھی ٹیکس کے نفاذ کے حوالے سے اشتہار چھپا اور یقین دہانی کرائی گئی کہ یہ امر ناگزیر ہے اور اس پر جلد عمل درآمد کے لئے عوام تیاریاں شروع کردے۔
اشتہار شائع کرنے والوں کی جانب سے عوام کو پوری طرح یقین دہانی اور ذہنی تیاری کے لئے شائد ابھی مزید وضاحت کی ضروری پیش آرہی تھی جبھی تو انہوں نے 2 مارچ 2017 کو ایک بار پھر صوبے کے ایک بڑے اخبار میں تیسری بار اشتہار شائع کرکے پوری طرح عوام کو باخبر کردیا کہ معاملہ کو ہلکا نہ لیا جائے اس وقت حکومت کے ساتھ ساتھ ضلعی انتطامیہ پوری تیار ی کے ساتھ ٹیکس کے نفاذ کے لئے سنجیدہ تھی اور اس سلسلے میں لوگوں کو باور کرایا جارہا تھا کہ اب کسی قسم کی رعایت کی توقع نہ رکھی جائے۔
اس کے بعد ٹیکس کے نفاذ کی کوششوں کا سلسلہ گاہے بہ گاہے جاری رہا ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے ملاکنڈ ڈویژن میں کسٹم ایکٹ کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا اور علاقے میں موجود لاکھوں کی تعداد میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی رجسٹریشن کی صورت کسٹم لگانے کی کوشش کی گئی جس پر علاقے کی لوگوں نے یک زباں ہوکر ڈویژن بھرمیں ایسی بھر پور مزاحمتی تحریک چلائی جس کے نتیجے میں حکومت کو ٹیکس کے نفاذ کے فیصلہ سے حسب روایت پیچھے ہٹنا پڑا اور ایک سال کیلئے چوٹ دیتے ہوئے جون 2024 تک استثنیٰ دیا گیا جس کی اب خلاف ورزی کی جارہی ہے۔
ملاکنڈ ڈویژن کے عوام کی خوش نصیبی کہئے کہ سوات سے تعلق رکھنے والے ملاکنڈ ٹریڈرز فیڈریشن کے صدرعبد الرحیم کی صورت میں ایک ایسی شخصیت سوات میں موجود ہے جو کسی بھی وقت ڈویژن کے عوام کی مفاد میں اٹھائے جانے والے اقدامات کی حمایت اور کسی بھی غیر قانونی اقدام کو روکنے کے لئے کسی بات کی پروا کئے بغیر میدان میں موجود رہتے ہیں۔پھر ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ڈویژن کے دیگر اضلاع کی تاجر برادری سمیت عوامی حلقے بھی ان کے شانہ بشانہ رہتے ہوئے ایسے غیر منصفانہ فیصلوں کے خلاف ڈٹ جاتے ہیں جس کا لامحالہ فائدہ عوام ہی کو پہنچتا ہے اور ثمر کے طورپر ان کو ایسے غیر منصفانہ فیصلوں کی آڑ میں ٹیکس جیسے انتہائی اقدام سے ابھی تک پچایا جارہا ہے۔ٹیکس کے نفاذ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ 2018 میں اس وقت صوبے میں پرویز خٹک کی حکومت تھی انہوں نے سازش کے تحت فاٹا اور پاٹا کی تمیز کئے بغیر ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس کے نفاذ کی مہم جوئی کی جو انتہائی نامناسب اقدام تھا اس کے علاہ سرتاج عزیز کمیشن میں فاٹا مرکز کے زیر اثر علاقوں میں ٹیکس کے نفاذ کی آڑ میں صوبائی پاٹا کے علاقے ملاکنڈ ڈویژن میں ٹیکس کے نفاذ کی کوشش کی گئی جس کے خلاف ہم نے بروقت مزاحمت کی اور اس فیصلہ کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ اس سے قبل کسٹم ایکٹ کے نفاذ کا فیصلہ کیا گیا تھا جو بہ ظاہر تو نان کسٹم پیڈ گاڑیوں پر ٹیکس لاگو کرنا تھا لیکن اس کی آڑ میں ہر اس چیز پر ٹیکس لگائے جانے کی تیاری کی گئی تھی جوبراہ راست غریب عوام کے زیر استعمال ہوتی تھیں۔بھلا ہو سوات اور ملاکنڈ ٹریڈرز فیڈریشن کے صدر عبد الرحیم کا کہ انہوں نے بروقت اس بات کا ادراک کیا کہ کسٹم ایکٹ کی آڑ میں سواتی عوام کوتختہ مشق بنانے کی کوشش ہورہی ہے اور پھر انہوں نے میدان میں نکل کر وہ تاریخی احتجاج کیا جس کے نتیجے میں مرکزی حکومت کو بار بار کی طرح اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی رہنما اختر علی خان جی نے بھی واضح کیا کہ اس وقت سوات کے لوگوں کو سہولیات فراہم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور بلاجواز ٹیکس نافذ کرکے سوات کی غریب عوام کو خوا مخوا تنگ نہ کیا جائے بصورت دیگر اس حوالے سے اُٹھنے والے تمام تحریکوں کے ساتھ وہ شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے، واضح رہے کہ سوات میں ٹیکس کے نفاذ کے خلاف اس وقت تمام سیاسی پارٹیاں بھی ایک پیج پر ہیں ۔
نئے سال کے آغاز پراب2024 میں ایک بار پھر سوات میں ٹیکسوں کے نفاذ کی کوشش ہورہی ہے اور بہ ظاہر یہ بتایاجارہا ہے کہ اس سے غریب عوام پر کوئی اثر نہیں پڑے گا بلکہ حکومتی ریوینیو بڑھانے کیلئے مخصوص شعبوں پر ٹیکس لگایا جارہا ہے ۔
دنیا بھر میں یہ اصول ہے کہ عوام کوزندگی کی بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے حکومتوں کی جانب سے ٹیکس اس وقت لگائے جاتے ہیں جب حکومت اپنے فرائض کو پور ا کرتے ہوئے وہ سہولتیں جو عوام کی زندگی کو سہل بنانے کے لئے ضروری ہوں فراہم کردی جاتی ہیں اور عوام اس حد تک معاشی طورپر آسودہ ہوں کہ ان کے پاس ٹیکس دینے کے لئے اپنے اخراجات سے ہٹ کر اتنی اضافی رقم پلے میں موجود ہو جسے وہ بہ خوشی ٹیکس ادائیگی کے بعد کسی قسم کی تنگی محسوس نہ کریں۔
ایسے میں یقینی طورپر حکومت کا حق بنتا ہے کہ وہ عوام پر مزید سہولتوں کی فراہمی کے لئے ٹیکس نافذ کردے لیکن یہاں تو سوال یہ ہے کہ سوات کے عوام جو گزشتہ دو دہائیوں سے اول تو بدترین دہشت گردی کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے گھر بار اور کاروبار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ اس سے سنبھلے نہیں پائے تھے کہ ان حالات کو درست کرنے کےلئے فوجی اپریشن کا سامنا کرنا پڑا ، اس دوران پے درپے خطرناک زلزلوں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ان زلزلوں کے نتیجے میں سوات سمیت ڈویژن بھر کا پوراانفراسٹرکچر ایسا تباہ ہوا جس کی بحالی میں ابھی مزید کئی سال لگنے ہیں۔زلزلوں سے متاثرہ سوات کے باسی سال 2010ء کے بعد آنے والے پے درپے ملکی تاریخ کے تباہ کن سیلابوں سے بھی بری طرح متاثر رہے جس میں ہونے والے نقصانات کا ازالہ شائد اگلے دو دہائیوں تک ممکن نہ ہوسکے۔
متذکرہ آفات سماوی و ارضی کے نتیجے میں سوات کا ہر فرد معاشی طورپر اس وقت دیوالیہ پن کو چھو رہا ہے۔ چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے تو ایک طرف جو بڑے کاروباری لوگ ہیں ان کو بھی اپنے بال بچوں کے لئے تین وقت کا کھانا فراہم کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوچکا ہے جبکہ چھوٹے کاروباری حلقوں کا تواللہ ہی حافظ ہے۔
حکومت کی جانب سے حالیہ ٹیکس کے نفاذ کے اقدام کو تاجران صدر عبدالرحیم نے دو ٹوک الفاظ میں رد کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ظلم کی انتہا ہے،ہم مانتے ہیں کہ معاملات کو چلانے کےلئے حکومت کو مالی مشکلات درپیش ہوں گی لیکن اس کے لئے ہمارا مطالبہ ہے کہ پہلے مہنگائی اور دیگر گوناگوں مسائل میں جھکڑی عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کردی جائیں،عوام کو تختہ مشق بنانا قرین انصاف نہیں اس لئے ہونا تو یہ چاہئے کہ صوبائی اور مرکزی حکومت تعاون کرتے ہوئے اپنے اخراجات میں کمی لاکر عوام کو درپیش ضروریا ت زندگی کو پورا کرنے میں مدد فراہم کرے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ پہلے سے مری ہوئی عوام کو سہولیات دینے کی بجائے مزید مشکلات سے دوچار کیا جائے ، انہوں نے کہا کہ سوات اور ملاکنڈ ڈویژن میں شرعی ریگولیشن کا قانون نافذ ہے جس کے تحت وہ صرف زکوٰة اور عشر دینے کے پابند ہیں ،ریاستی ادغام اور خصوصی حیثیت کی بناء پر یہاں کے لوگ دیگر ٹیکسز ادا کرنے سے استثنیٰ رکھتے ہیں لہذا حکومت ہوش کے ناخن لے اور اپنے کئے گئے وعدوں کی پاسداری کرے بصورت دیگر ہم اس فیصلہ کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت سے دریغ نہیں کریں گے۔
سوات کے لوگوں کا بھی مطالبہ ہے کہ چونکہ سوات ایک سیاحتی زون ہے لہذا یہاں کے سیاحتی علاقوں کو ترقی دے کر وہاں کی سڑکوں کو تعمیر کرکے مقامی لوگوں کو پہلے روزگار کے مواقع فراہم کئے جائیں جب لوگو اپنے پاوں پر کھڑے ہوں اور نظر آجائے کہ فالتوپیسہ عوام کے پاس آگیا ہے تو پھر بے شک ٹیکس لگادیا جائے لیکن اگر اس سے قبل ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تو تاجران صدر اور عوامی حلقوں نے واضح کردیا ہے کہ وہ اپنا حق لینے کےلئے اٹھیں گے ،مینگورہ شہر اور پورا ملاکنڈ ڈویژن ایک بار پھر احتجاجوں کا مرکز بن جائے گا اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہے گا جب تک موجودہ فیصلے کا وہ حشر نہیں ہوجاتا جو حشر اس سے قبل مرکزی حکومت کے فیصلے کا کیا گیا تھا۔ بہتر یہ ہے کہ حکومت اس حوالے سے ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوام کو اور اپنے آپ کو امتحان میں نہ ڈالے اور بیچ کا وہ راستہ اختیا ر کرلے جس سے عوام اور حکومت دونوں کا فائدہ ہو۔

Fazal khaliq khan
About the Author: Fazal khaliq khan Read More Articles by Fazal khaliq khan: 42 Articles with 26112 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.