اسرائیلی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرنے سے کیا ہو گا!

اس سال 7 اکتوبر کو حماس نے اسرائیل کی طرف غزہ میں سے سینکڑوں راکٹ داغے اور پیراشوٹ کی مدد سے 1000 سے 1500 تک جنگجو اسرائیل میں داخل ہوئے. حماس اس حملے میں کافی حد تک کامیاب ہوا. رپورٹس کے مطابق عرب اسرائیل جنگ کے بعد یہ حماس کی طرف سے سخت ترین حملہ تھا.
اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کی اور حماس کے کئی رہنما سمیت ہزاروں افراد شہید ہوئے.
اس کے بعد 27 اکتوبر کو اسرائیل فورسز غزہ میں داخل ہوئیں اور اس طرح یہ حملہ جنگ کی صورت اختیار کر گیا.

جہاں تمام عالم کفر اور مغربی ممالک خاص کر امریکہ نے اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا وہاں مسلمان ممالک کھل کر مزمت بھی نہ کر سکے. لیکن جو غیرت مند مسلمان ہمیشہ فلسطین کے مسلمانوں کے لیے آواز بلند کرتے رہے ہیں، انھوں نے اس مرتبہ بھی اسرائیل کی بھرپور مزمت کی اور واضح پیغام دیا.

کچھ ممالک میں مسلمانوں نے اسرائیل کی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کیا لیکن یہاں پر بھی کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی پراڈکٹس کا بائیکاٹ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا.

تو جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسرائیل کی پروڈکٹس کا بائیکاٹ کرنے سے کیا ہوگا تو ان کو بتاتا چلوں کہ یہ حکمت عملی کسی عام انسان کی نہیں خود نبی دو عالم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمت عملی ہے.
جب مدینہ منورہ سے باہر یہودیوں نے خود کو خیبر کے قلعے کے اندر محصور کر لیا تھا. خیبر کے قلعے بہت مضبوط فصیلوں پر مشتمل تھے.
اس کے آس پاس کی دیواریں اور فصیلیں اس قدر مضبوط تھیں اور اس علاقے کی ساخت ایسی تھی کہ بقیہ زمین نیچے تھی اور خیبر کے قلعے انچائی پر واقع تھے.
یہودیوں کی سازشوں سے تنگ آکر جب نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے لشکر سمیت ان پر یلغار کی تو بہت مشکل پیش آئی کہ جب یہ نیچے سے تیر بھی برساتے تو تیر لوٹ کر واپس آجاتے. پتھر بھی پھینکتے تو پتھر واپس آ جاتے. کئی روز تک محاصرہ جاری رہا لیکن یہودیوں نے تمام ضرورت کا سامان لے کر اندر قلعوں میں رکھا ہوا تھا اور خود کو معصور کر لیا تھا.
اب باہر سے حملہ کرنا بے سود تھا، کئی روز تک حملے کیے گئے لیکن سب کے سب بے سود ٹھہرے. پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ حکمت عملی پیش کی کہ یہودیوں کی معیشت کا دارومدار ان کھجوروں کے باغات پر ہے، جن کو فروخت کرنے کے بعد یہ اپنی زندگیوں میں مگن ہیں اور ان کے پاس سونا اور چاندی اور زیورات ہیں جن پر ان کی معیشت انحصار کرتی ہے. تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجوروں کے ان درختوں کو کاٹنے کا حکم دیا. جب کھجوروں کے وہ درخت کاٹے گئے تو پھر یہودیوں کے حوصلے پست ہونا شروع ہوئے. پھر وہ آپس میں چیمگوئیاں کرنے لگے کہ اگر یہ درخت ہی ختم ہو گئے تو پھر یہاں رہنے کا کیا فائدہ. اس پر بہت سے یہودیوں نے سرنڈر بھی کر دیا اور بہت سے مارے گئے. اس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکمت عملی کے ساتھ پہلے ان کی معیشت کو کمزور کیا.
ان کے حوصلے پست کیے ان کی وہ خوشحال زندگی کو تباہ کیا ان کی کمر توڑی دی.

اس وقت کی طرح آج ہم پھر سے اسی دہانے پر کھڑے ہیں ہم اگر اسرائیل کو بادعائیں دیں تو بادعائیں وہاں نہیں پہنچ رہی پتھر بھی ماریں چیخیں ماریں تو وہاں تک نہیں پہنچ رہیں. وہ مضبوط قلعوں میں ہیں اور عام آدمی چاہ کر بھی کچھ نہیں سکتا اور ہمارے پاس تو وہ ہتھیار بھی نہیں جو فلسطین پر گرا رہے ہیں.

اپنے ممالک کی وجہ سے ہم وہاں جہاد کے لیے بھی نہیں جا سکتے لہٰذا آپ کے ہاتھ میں بائیکارٹ کی کلہاڑی ہے. یہ تمام پراڈکٹس جو اسرائیل کی ہیں یہ ان کے وہی کھجوروں کے درخت ہیں اگر آپ ان کو کٹنا شروع کر دیں تو یقیناً اس کے اثرات ان ضرور پہنچیں گے.
اس لیے ہر مسلمان کو چاہیے کہ ان تمام اشیاء کا بائیکارٹ کریں جن کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق اسرائیل سے ہے اور کوشش کریں کہ یہ ساری پراڈکٹس آپ کے گھر میں نہ آئیں.
آپ کو فلسطین کے بچے یاد آنا چاہیے. تو فلسطینی بچوں کے لیے اتنا تو ضرور کریں کہ اسرائیل کے خلاف آواز تو اٹھا سکیں.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو مسلمان جتنی چھوٹی سی بھی نیکی کرے گا تو وہ ضائع نہیں جائے گی.
کم از کم ہم دل برداشتہ ہو رہے ہیں گھر بیٹھے دل جلا رہے ہیں، تو اتنا تو کریں کہ ہم ان پراڈکٹس کا ہی بائیکارٹ کر لیں.

باقی فلسطین کی مدد کرنے کے لیے اللہ امت مسلمہ کی جو قیادت ہے اللہ ان کو غیرت ایمانی عطا کرے تا کہ ستاون اسلامی ممالک کے پاس جو فوجی لشکر اور ہتھیار ہیں وہ بیت المقدس اور فلسطین کے دفاع کے لیے آگے بڑھیں.

Ahsan Khalil
About the Author: Ahsan Khalil Read More Articles by Ahsan Khalil: 9 Articles with 4055 views (born 13 October 2001) is a Pakistani writer and columnist. He completed his Fsc from Army Public School and College Jarrar Garrison... View More