عمل کے بغیر فضل کی آس

عمل کے بغیر فضل کی آس سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں ہے ۔ عمل سے بیزار فضل والے یاد رکھیں یہ جملہ اور حشر تک لکھ کراپنے پاس رکھیں ، پھر دیکھنا حشر میں حشر کیا ہو تا ہے تمہارا ۔

عمل کے بغیر فضل کی آس


فضل صرف آخرت میں ہی کیوں ہونا امت پر، دنیا میں کیوں نہیں ہو رہا؟کیا اللہ کریم کو صرف آخرت میں ہی پتہ چلے گا کہ یہ نبی آخر الزماں ﷺ کی امت ہے اور میں نے اس کو عزت دینی ہے؟دنیا میں رسول اللہ ﷺ کی امت قوموں کی صفوں میں ذلیل و رسوا کیوں ہو رہی ہے؟کیا دنیا میں اللہ کریم کو پتہ نہیں کہ میرے پیارے محبوب ﷺ کی امت ہے اور میں فضل ہی کر دوں ، دنیا میں عزت دوں ، وقار دوں اور قوموں کی صفوں میں سربلندی عطا کر دوں اوردر در ذلیل و رسواء نہ کروں ۔ ایسا نہیں ہوتا، اللہ کریم کی فطرت ایسی نہیں ہے وہ سب کا خالق ہے اس کی نظر میں باحیثیت انسان سب برابر ہیں ۔ وہ فضل کےلئے بھی پہلے عمل ، محنت اور لگن دیکھتا ہے، وہ قوموں کے عمل سے خوش ہو کر عمل کی جزا دیتے ہوئے فضل شامل کر کے اور زیادہ بڑھاتا ہے ۔ بد عمل تو اسے ایک نظر نہیں بھاتاخواہ وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں ۔ خواہ وہ رسول اللہ ﷺ کی امت سے ہو یا کسی غیر قوم سے ۔ خدا کا قانون سب کےلئے برابر ہے ۔ قدرت قوموں کی سزا و جزاء اور عروج وزوال کے قوانین کے اطلاق میں قوموں کے درمیان فرق نہیں کرتی، جو قوانین غیر اقوام کے لئے ہیں وہی امتِ مسلمہ کےلئے ہیں ، جو اصول اہل باطل کےلئے ہیں وہی اہل حق کےلئے، جو ضابطے اہل کفر کےلئے ہیں وہی اہل ایمان کےلئے ۔ قرآن کریم میں بیان کردہ قوانین اٹل ہیں جن میں تبدیلی نہیں ہوا کرتی ہے ۔

سُنَّۃَ اللّٰہِ فِیْ الَّذِیْنَ خَلَوا مِنْ قَبْلُج وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبْدِیْلًاo

اللہ کریم کی سنت، اللہ کریم کا قانون کبھی نہیں بدلا کرتا ۔ ذرا آنکھیں کھول کے اپنے چاروں اطراف میں دیکھو،اپنے مشرق، مغرب، شمال، جنوب میں نظر ڈوراؤ اور دیکھو رب کا فضل کہاں برس رہا ہے، مسلمانوں پر یا غیر اقوام پر؟جن لوگوں نے جانفشانی کی، عمل کیے، محنت کی، اپنے اخلاق درست کیے،معاشرہ میں مساوات، عدل انصاف برتا تو رب نے عمل کے صلہ میں فضل بھی ڈال دیا اور آج وہ آسمانوں کو چھو رہے ہیں ۔ یہ فضل کبھی ہم پر بھی تھا جب ہم محنتی تھے،جب ہ میں محنت سے لگن تھی، جب ہ میں عمل سے محبت تھی، جب ہم کام سے جی نہیں چراتے تھے تو رب نے فضل بے حساب و کتاب برسایا ۔ جب ہم نے عمل سے بھاگنا شروع کیا توساتھ فضل بھی گیا، رب کی خوشنودی بھی گئی اور ذلت و رسوائی، خواری و ناداری ہم پر مسلط کر دی گئی۔

حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قول ہے کہ

’’ عمل کے بغیر فضل کی آس سوائے دھوکے کے اور کچھ نہیں ہے ۔ ‘‘

فضل کی لمبی امیدیں رکھنے والے بد عمل اس سے عبرت حاصل کریں ۔ اگر ہم پر دنیا میں رسول اللہ ﷺ کی امت ہونے کے ناطے فضل نہیں ہو رہا تو آخرت میں بھی نہیں ہوگا کسی بد عمل قوم پر ۔ وہاں کوئی نسبت کام نہیں آئے گی عمل کام آئے گا ۔ وہاں تو خود رسول اللہ ﷺ گواہ بن کر ہاتھوں میں قرآن اٹھائے ہم بدعملوں پر گواہی دیں گے ، فرمائیں گے اے رب کریم! یہ میری امت کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تیری اس کتاب اور میرے سیرت کو چھوڑ دیا تھا اور عمل سے جی چرایا تھا ۔

وَ قَالَ الرَّسُوْلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوْا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًاo

وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیِّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِیْنَ o

اور اس وقت رسول اللہ ﷺ (ایسے لوگوں کی شفاعت کرنے کی بجائے قرآن مجید کو ہاتھوں میں اٹھائے ان پر گواہی دیں گے ) عرض کریں گے ’’ اے میرے رب! یہ میری امت کے وہ لوگ ہیں جنہوں نے تیرے اس قرآن کو پس پشت ڈال رکھاتھا ۔ ‘‘ اور اس طرح ہر نبی اپنی امت کے مجرم لوگوں کا دشمن بن جائے گا ۔ ‘‘ (الفرقان 30-31 - 25)

ہم عمل کی طرف آئیں چھوڑ دیں فضل کی آس ۔ جب ہم میں عمل آئے گا فضل خود بخود اتر آئے گا اس کےلئے لمبی امیدیں باندھنے کی ضرورت نہیں ہوگی ۔ اگر ہم نے عمل سے محبت نہ کی تو دنیا میں رسوائی کی طرح آخرت میں بھی کچھ ہاتھ نہیں آئے گا سوائے ذلت و رسوائی کے ۔

دانائے راز حضرت اقبال علیہ الرحمہ نے کیا خوب فرمایاکہ عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی ۔ اگر ہم عمل کریں گے تو ہماری زندگی بھی سنورے گی،ہماری دنیا بھی بنے گی اور آخرت بھی ۔ آپ پھر فرماتے ہیں ۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
جسے نہ ہو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا

جب ہم خودآپ اپنی حالت بدلنے کےلئے عمل کریں گے، محنت کریں گے، مشقت کریں گے تو رب کی رضا و خوشنودی حاصل ہوگی، وہ دنیا بھی سنوارے گا اور آخرت بھی ۔ ہمارے علماء پیرو مشائخ ملت کو عمل سے زندگی بنانے اور آخرت سنوارنے کا درس نہیں دے رہے ۔ یہ رحمت، مغفرت، شفاعت اور فضل پہ واعظ کر کر کے بد عملی کی طرف لے جا رہے ہیں ملت کو ۔ میں جہاں جس موضوع اور جہالت پر بات کرتا ہوں بات آ جا کے علماء پر ہی آتی ہے، ان کے آگے بند نہ باندھنے میں غفلت، کوتاہی، سستی اور کاہلی علماء پیر و مشائخ ہی کی نظر آتی ہے ۔ یہ اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے، یہ اپنے منصب ، فرائض اور ڈیوٹی کو نہیں سمجھ رہے ۔ میں سمجھتا ہوں اگر یہ ایک طبقہ ٹھیک ہو جائے، ہوشیار رہے، اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرے تو ملت کی اصلاح ہوتے، ملت کو سدھرتے ذرا دیر نہیں لگے گی ۔ میرے آئیڈیل ، میرے آقا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ قوم کے احوال و اطوار پر نظر رکھنے کےلئے خفیہ گشت کیا کرتے تھے ۔ ہمارے علماء پیرومشائخ کو خفیہ و ظاہری گشت کو اپنا معمول بنانا ہو گا ۔ اپنے ہجروں اور مسندوں پر بیٹھنے کی بجائے معاشرہ میں گشت کریں ، چلیں پھریں اور جہاں کہیں کوئی برائی، خلاف شرع عمل ہوتے دیکھیں اس کا منہ پکڑیں اور حق کی طرف پھیر دیں ۔ لوگوں کے احوال جاننے کےلئے خفیہ گشت بھی کریں ، بغیر بتائے، بغیر اطلاع دئیے ان کی صفوں میں چہرے ڈھانپے اس طرح گھسیں کہ پہنچانے بھی نہ جائیں کہ کون ہیں پھر دیکھیں ان کا اخلاق، ان کا کردار، ان کے معاملات پر نظر رکھیں اور جہاں کوتاہی ہو فوری اصلاح کریں اور دیکھیں کہ وہ انہیں اجنبی پا کر ان کے ساتھ کس مزاج سے پیش آتے ہیں ۔

میں علماء پیر و مشائخ کی خدمت میں دستہ بدستہ عرض کرتا ہوں خدا کےلئے حضور ﷺ کی امت کا احساس کرو اور چھوڑ دو رحمت، فضل، شفاعت و بخشش کی باتیں اور ان پر واعظ کرنایہ باتیں امت کو بد عملی کی طرف لے جا رہی ہیں ۔ لوگوں کو تقویٰ و پرہیزگاری سیکھاؤ،اطاعت و عمل کا درس دو اور ان میں خدا کا خوف پیدا کرو ۔ لوگوں کو بات بات پر خدا کا خوف یاد دلاؤ ۔ اگر معاشرہ کو ڈنڈے کی طرح سیدھا رکھنا ہے تو لوگوں کو چھوٹی چھوٹی کوتاہیوں پر رب کے بڑے بڑے قہر و غضب کی باتیں سنانا پڑیں گی، اور اس کی ناراضگی کا احساس دلانا ہو گا ۔ آخرت میں امت کا امتحان ہے، امت نے میزان پر حساب دینا ہے اگر تم نے امت کو اس کڑے امتحان میں کامیابی کےلئے سفارش کی لالچ پر رکھا تو وہ اس کی آس میں کبھی امتحان کی تیاری نہیں کرے گی وہ یہ سوچ لے کر بیٹھ جائے گی کہ ہم نے حضور ﷺ کی سفارش و شفاعت سے پار ہو ہی جانا ہے تو کیا ضرورت تیاری کی ۔ اس کی مثال دنیا میں آپ اپنے کسی بچے کو امتحان میں کامیابی کےلئے سفارش کا لالچ دے کر دیکھ لو ، تم اپنے بچے سے یہ کہہ دو کہ بیٹا ! میرے جاننے والے ہیں بورڈ میں آپ کو سفارش سے پاس کروا دوں گا تم مشکل نہ لو، جتنا ہوتا ہے کر لو اور کامیابی مجھ پر چھوڑ دو ۔ پھر خود یکھ لینا وہ کتنی تیاری کرتا ہے امتحان میں کامیابی کیلئے ۔ وہ سفارش کی امید رکھ کر تیاری چھوڑ دے گا اور کھیل کود میں وقت کا ضیاع کرے گا ۔ یہی حال آج امت کا ہے اور تمہاری وجہ سے ہے ، تم نے لوگوں کو بہت سفارش، فضل ،ر حمت و مغفرت اور شفاعت کی باتیں سنا سنا کر عمل سے دور کر دیا ۔ اب لوگوں کو آخرت کا خوف نہیں رہا، اب لوگوں کو حساب کی فکر نہیں رہی، اب معاشرہ میں خدا کے حضور پیش ہونے کا ڈر اور خوف نہیں ہے ۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم نے تو حضور ﷺ کے صدقے پار ہو جانا ہے، کوئی کہتا ہے جانے یا علی، تو کوئی کہتا ہے مولا جانے یا حسین جانے ہم تو ان کے ہیں ہمیں کیا پرواہ ۔ خدا کےلئے اب بس کرو، خدا کےلئے حضور ﷺ کی امت کا احساس کرو اور اسے تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ پر ڈالواور اپنے سر پر امتحان پاس کرنے کا درس دو ۔ عزت اور قدر و منزلت ہمیشہ اسی کی ہوتی ہے جو اپنے زور اور محنت سے امتحان پاس کر کے جاتا ہے ۔

یہ علماء پیرو مشائخ کا طبقہ ملت کا اہم ترین جز ہے، ملت کا اہم ترین ستون ہے، یہ ملت کےلئے ریڑھ کی ہڈی کی سی حیثیت رکھتا ہے اور ملت نے اس کے زور پر کھڑے ہونا ہے ، اس کے زور پر ملت نے سدھرنا ہے، اس کے زور پر ملت نے قوموں کی صفوں میں سربلند ہو ناہے ۔ اگر اس طبقہ نے اپنی حقیقی ذمہ داری کو نہ سمجھا، اگر اس طبقہ نے دین و ملت کےلئے ایک سپاہی و فوجی کا کردار ادا نہ کیا، اگر یہ طبقہ ہی ڈھیلا، سست اور کاہل رہا، اگر یہ طبقہ ہی ہوشیار نہ ہوا، اگر یہ طبقہ ہی نہ سدھرے اور آپس میں دست و گریباں رہے تو ملت کا مقدر ڈوبنا ہی ہوگاعزت و سربلندی کہاں نصیب ۔

یقینا آپ علماء پیرو مشائخ کو یہ سب باتیں بہت تلخ اور کڑوی لگی ہوں گی لیکن یہ سب غلط بھی نہیں ہے ، نہ میری آپ کے ساتھ کوئی عداوت و دشمنی ہے اور نہ میں فطری طور پر علماء پیرو مشائخ کا گستاخ و بے ادب ہوں ۔ اگر میری ان علماء وپیر ومشائخ سے کوئی عدوات ہوتی تو میں کبھی ایسا نظام حکومت واضح نہ کرتا جس کو سرے سے چلا نا ہی علماء نے ہیں ۔ حقیقی عالمی اسلامی فلاحی جامع مساجد کا نظام حکومت جو میں نے ترتیب دیا اس میں مرکزی کردار ہی علماء کا ہے ۔ یہ طبقہ غفلت کی سیاہ بھٹی اور سرد خانوں سے نکل کر باہر میدان آئے اور دین کی سربلندی کےلئے لڑے مگر ان میں ایسا کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ معاشرہ میں ان کے مجموعی کردار کو سامنے رکھ کر یہ باتیں ، یہ ارمان، یہ دکھڑے میرے دل سے نکلے ۔ ان سے میرا مطلوب آپ کی بیخ کنی اور کردار کشی مقصود نہیں ہے ۔ اگر میں نے کہیں تنقید کی ہے تو وہ تنقید برائے تعمیرو اصلاح ہے تنقید برائے تحقیر نہیں ہے ۔ میرا مقصد آپ کے جذبات کو بھڑکا کر ، آپ کے سرد خانوں کو گرما کر، آپ کے جوش اور ولولوں کو ہوا دے کر، آپ کے سوئے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر میدان عمل میں اتارنا ہے ۔ آپ سے دین کے تحفظ ، دین کے حقیقی سپاہی و فوجی کا کردار نبھا کر اللہ و رسول اللہ ﷺ کی نظروں میں سرخروئی دلوانا اور دارین میں امت کو کامیاب کرنا ہے اور قوموں کی صفوں میں رسول اللہ ﷺ کی امت کو سربلندی و وقار دلوانا ہے ۔ اور بلاشبہ یہ صرف آپ ہی کر سکتے ہیں صرف آپ، رسول اللہ ﷺ کے حقیقی سپاہی و فوجی بن کر ۔

Allah Bakhash Fareedi
About the Author: Allah Bakhash Fareedi Read More Articles by Allah Bakhash Fareedi: 101 Articles with 103341 views For more articles & info about Writer, Please visit his own website: www.baidari.com
[email protected]
اللہ بخش فریدی بانی و مدیر بیداری ڈاٹ کام ۔ ہ
.. View More