92واں یوم شہدائے کشمیر

 کشمیری 92سال سے موجودہ جدوجہد آزادی کے دوران اپنی جان و مال، عزت وعصمت کی لازوال قربانیاں پیش کر رہے ہیں۔دیوار برلن زمین بوس ہوئی، افغانستان میں سوویت یونین کو ناکامی کی دھول چاٹنی پڑی اور اس کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس کے بعد امریکہ کی زیر قیادت طاقتور دنیا کو بدترین شکست ہوئی۔ جس نے کشمیریوں کو نیا حوصلہ و جذبہ بخشا ۔

سرینگر کے مزار شہدا ء پر ہر سال یوم شہداء کو بھارت نواز اورآزادی پسند حاضری دیتے ہیں۔بعض بھارت نواز ریاست کا درجہ بحال کرنے کو ہی مسلہ کشمیر کا حل سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک یہی شہداء کے مشن کی آبیاری ہے۔ شہداء یا ان کے مشن کا احترام ہو تو بھارت کے ناجائز اور جبری قبضے کو مضبوط کرنے ، اقتدار اور مراعات کے بجائے آزادی کے لئے کردار ادا کیا جاتا ۔یہ اقتدار، مراعات،روشن مستقبل کا حرص و طمع ہے جو شہداء کی عظیم قربانیاں فراموش کرنے والوں کو بھی مگر مچھ کے آنسو بہانے پر مجبور کرتا ہے۔ شہداء کے مقدس مشن کے سامنے انا، تنظیم بازی، پارٹی بندی، علاقہ پرستی یا کسی گروہ بندی کی گنجائش نہیں۔ گزشتہ 9 دہائیوں سے دنیا بھر میں کشمیری 13جولائی کویوم شہداء کشمیر کے طور پر مناتے ہیں اور آزادی کے لئے اپنے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ وہشہدا کے مشن پر چلتے ہوئے آزادی کے حصول تک اپنی جد وجہد جاری رکھیں گے ۔یہ عہد کیا جاتا ہے کہ شہداء کی قربانیوں کے ساتھ کوئی سودا بازی نہیں ہوگی اور نہ ہی کسی کو شہداء کے قبرستانوں پراقتدار کے محلات تعمیرکرنے کی اجازت دی جائے گی ۔اس آزادی کے لئے اب تک لاکھوں کشمیری شہید ہوچکے ہیں ۔ہزاروں کو معذور بنادیاگیا۔1931 ء سے لاکھوں کشمیری مہاجرت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔لاتعداد کشمیری پہاڑوں اور برف پوش چوٹیوں، بیابانوں میں بے گوروکفن دفن ہوگئے ۔لاتعداد اپنے گھروں سے دور کسمپرسی کی زندگی بسر کرنے پرمجبور ہوئے ۔ 13جولائی کو ہر برس کشمیرکی خونی لکیر کے دونوں اطراف تقاریب کا انعقاد کیاجاتاہے ،ریلیاں اور جلوس نکالے جاتے ہیں ۔آزادی کے حق میں مظاہرے کئے جاتے ہیں اور شہداء کے مشن کو جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیاجاتا ہے ۔لوگ شہداء کا انتقام لینے کا عہد کرتے ہیں۔ آج تک کوئی بھی طاقت انتقام کی آگ کو سرد نہیں کر سکی۔

سانحہ جلیانوالہ باغ کے 12سال بعد13 جولائی 1931 ء کو سرینگر میں ڈوگرہ فورسزنے 22 کشمیریوں کو اندھا دھندفائرنگ کرکے بے دردی سے شہید کردیا ۔بھارتی وردی پوش فورسز کی دہشگردی نے جنرل ڈائر کی بربریت کو بھی مات دے دی۔کشمیریوں کے قتل عام کا یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب جموں وکشمیر میں ڈوگروں کے مظالم میں اضافہ ہوگیا۔مسلمانوں کے خلاف مظالم کے پے در پے واقعات رونما ہونے لگے۔23 اپریل 1931ء کو مسلمان عید الاضحی منارہے تھے ۔جموں کے میونسپل باغ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد نمازعید ادا کرنے کے لئے جمع تھی۔ مفتی محمد اسحاق خطبہ دے رہے تھے ۔وہ اسلامی تاریخ اور فرعون کا حوالہ دے رہے تھے جب ہندوپولیس انسپکٹر کھیم چند نے خطبہ عید فوری طور پر روکنے کا حکم سنایا۔یہ مدا خلت فی الدین کا ایک اور واقعہ تھا۔ مسلمانوں میں شدید غم وغصہ پھیل گیا اور وہ مذکورہ پولیس افسر کے خلاف کا رروائی کا مطالبہ کرنے لگے۔ڈوگرہ حکمرانوں نے مسلمانوں کے احتجاج اور مطالبے پر کوئی توجہ نہ دی بلکہ پر امن مظاہرین کو گرفتار کرلیا،اس دوران جموں کے سانبہ علاقے میں مسلمانوں کو چشمے کا پانی استعمال کرنے سے روک دیاگیا۔ 4 جون کو ایک مسلمان قیدی فضل داد کو پولیس اہلکار لامبارام نے قرآن کی تلاوت سے روک دیااور قرآن پاک کی بے حرمتی کی ۔جس کے خلاف جموں وکشمیر میں ہڑتال کی گئی ۔جموں کے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لئے 25 جون کو وادی کشمیر میں شدید مظاہرے ہوئے ۔مسلمانوں کی بڑی تعداد سرینگر کی خانقاہ معلےٰ کے باہر جمع ہوئی۔جس میں مورخین کے ایک اندازوں کے مطابق 60ہزار مسلمان شریک ہوئے ۔جلسے کی آزاد کشمیر کے سابق صدر مولانا میرواعظ محمدیوسف شاہ نے صدارت کی ۔ چوہدری غلام عباس ،سردار گوہررحمان ،شیخ عبدالحمید ،خواجہ غلام نبی گلقار ،خواجہ غلام نبی عشائی ،آغا حسین شاہ جلالی ،مولانا عبدالرحیم ،مفتی جلال الدین اور دیگرنے خطاب کیا ۔اسی دوران ایک نوجوان سٹیج پر آیا اوربولنا شروع کردیا۔اس نوجوان کا تعلق کسی نے پنجاب ،کسی نے اترپردیش اور کسی نے پشاور کے ساتھ جوڑا ہے ۔تاہم سب کو اس کے نام پر اتفاق ہے ۔ نوجوان نے اپنے خطاب میں جذباتی انداز میں کہا ’’ مسلمانو!جلسے جلوسوں، تقاریر سے کچھ بھی نہ ہوگا۔مسلمانوں پر مظالم بند نہیں ہوں گے۔اب عمل کا وقت آگیا ہے ۔ہم قرآن پاک کی بے حرمتی برداشت نہیں کرسکتے ‘‘۔ نوجوان نے ڈوگرہ شاہی محل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’ اٹھو اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجادو‘‘۔ اس تقریر نے لوگوں کے جذبات مشتعل کر دیئے،ان میں جوش وجذبہ بیدار کردیا۔ لوگ اٹھ کھڑ ے ہوئے اور شاہی محل کی طرف چل دیئے ۔تاہم کسی نے اس کے بعد کا واقعہ بیان نہیں کیا ۔سب اس نوجوان کو تلاش کرنے لگے۔ وہ راتوں رات کشمیریوں کا ہیرو بن چکا تھا۔ ڈوگرہ حکومت کو اسے گرفتار کرنے کی جلدی تھی۔یہ نوجوان کون تھا،کشمیر میں عبد القدیر نامی اس نوجوان کا نام زبان زد عام ہو گیا۔ ڈوگر ہ فورسز نے عبدالقدیر کوجھیل ڈل کی ایک ہاؤس بوٹ سے گرفتار کرلیا ۔اس کے بارے میں بتایا جاتاہے کہ وہ کسی انگریز سیاح کے ساتھ کشمیر آیا تھا اور اس کے خانساماں کی خدمات انجام دے رہا تھا ۔اس نوجوان کی گرفتار ی کے چرچے دور دور تک ہونے لگے اور جب عدالت نے اس کے خلاف کارروائی شروع کی تو لوگوں کا ہجوم امڈآیا۔عبدالقدیر کامقدمہ ڈسڑکٹ جج کرشن لعل کچلو کی عدالت میں سنا جارہا تھا ۔لوگ عبدالقدیر کی ایک جھلک دیکھنے کو بے قرار تھے ۔جج نے گھبرا کر مقدمہ کی شنوائی عدالت کے بجائے سنٹرل جیل سرینگر میں شروع کردی ۔12 جولائی کو عمائدین شہر کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ عبدالقدیر کے مقدمے کوکھلی عدالت میں سناجائے ۔13 جولائی کو مقدمہ کی شنوائی سنٹرل جیل میں شروع کردی گئی۔لوگوں کی بڑی تعداد جیل کے باہر جمع ہوگئی ۔لوگ نعرہ تکبیر اﷲ اکبر، اسلام زندہ باد ،عبدالقدیر زندہ باہ کے نعرہ لگانے لگے۔اس دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا۔مسلمانوں نے جیل کے باہر نماز ادا کرنے کا فیصلہ کیا،اذان دینے کے لئے ایک نوجوان اٹھا تو ڈوگرہ فورسز نے اُسے گولی مار کرشہید کردیا۔اذان مکمل کرنے کے لئے دوسرا نوجوان آگے بڑھا،اسے بھی گولی مار دی گئی۔ پھر تیسرا،پھرچوتھا،اس طرح اذان مکمل کرنے تک 22نوجوانوں کو شہید کردیاگیا۔

قتل عام کے اس سانحہ نے کشمیر میں جوالا مکھی کو بھڑکا دیا۔لوگ شدید غصے میں مشتعل تھے۔13 جولائی کشمیر کی تاریخ میں جدوجہد آزادی کے حوالے سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔قتل عام کے اس واقعہ سے کشمیر یوں پر مظالم کا چرچادور دور تک ہونے لگا ۔شیخ محمد عبداﷲ اپنی خودنوشت آتش چنار میں لکھتے ہیں کہ اس دن ایک زخمی نے مجھے اپنے قریب بلایا اور کہا، ’’شیخ صاحب ہم نے اپنا فرض ادا کردیا،اب آپ کی باری ہے‘‘، اور یہ الفاظ کہنے کے بعد ہی وہ شہید ہو گیا،شیخ محمد عبداﷲ نے کشمیر کی آزادی کے لئے تحریک چلائی ۔13برس جیل کاٹی لیکن بالآخر دیگر عوامل سمیت جواہر لعل نہروکی دوستی اور اقتدار کے لئے کشمیریوں کی قربانیوں پر پانی پھیردیا۔نیشنل کانفرنس کے ہمدرد اگر چہ شیخ صاحب کے احترام میں حقائق کو تسلیم کرنے سے گریز کرتے ہیں تاہم وہ آج اعتراف کرتے ہیں کہ شیخ صاحب بھارت کے ساتھ سمجھوتہ نہ کرتے تو آج صور تحال مختلف ہوتی ۔ لمحوں نے خطا کی ،صدیوں نے سزا پائی ۔ ورنہ کشمیری آج اپنی قیادت کی اناپرستی،مفادپسندی ،اقتدار اور مراعات کے حرص کی سزا نہ بھگت رہے ہوتے ۔موجود ہ مسلح جدوجہد کے دوران بھی بعض کشمیریوں نے یک طرفہ اور ذاتی مفادیااپنی پارٹی ،تنظیم یا ادارے کے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلے کئے ۔مشاورت سے کنارہ کشی کی ۔اجتماعی سوچ کو اہمیت نہ دی۔جماعتی یا علاقائی،پارٹی بالادستی کا سہارالیا۔تعداد نفری یا وسائل کے نشے میں چور ہوئے ۔ڈیڑ ھ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد تعمیر کیں ۔جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے ۔اب بھی کفارہ ادا کرنے کا وقت ہے ۔ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھاجاسکتاہے ۔اﷲ تعالیٰ سے معافی مانگی جانی چاہیے ۔شیخ عبداﷲ کے حشر کوسامنے رکھ کراپنی پالیسی پر ازسر نوغور کرنا غلط نہ ہوگا ۔یوم شہداء کشمیر صرف تقاریر، جلسے جلوسوں،نعروں کانہیں بلکہ عملی اقدامات کا تقاضا کرتا ہے ،1931 ء سے اب تک لاکھوں کشمیریوں نے قربانیاں پیش کی ہیں ،ان قربانیوں کو نظر انداز کیا گیا یا سب نے اپنی انا کو چھوڑ کر، مل کر، رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں توکامیابی مقدر بن سکتی ہے۔شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہو گا کہ شہداء کے مشن کو جاری رکھنے کیلئے اتحاد واتفاق کے ساتھ خلوص ونیک نیتی، سوجھ بوجھ، عفو در گزر، افہام و تفحیم سے، سب سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر مؤثر وبا مقصد عملی اقدامات کئے جائیں ۔ تحریک آزادی کو منجمد کرنے یا آئندہ نسلوں پر چھوڑنے ، تقسیم ، جنگ بندی لائن کو مستقل سرحد بنانے یا بھارتی غاصبانہ اور ظالمانہ اقد امات کے جواب میں کوئی ناپسندیدہ فیصلہ کرنے کے بجائے سیاسی، عسکری، سفارتی اور میڈیا سمیت ہر محاذ پر بڑھ چڑھ کرجدوجہد کو از سر نومنظم و مربوط کیا جائے ۔ماضی کے اقدامات کا مفصل جائزہ لیا جائے۔کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ کیا جائے۔ کیا کھویا ، کیا پایاکا خیال کیا جائے۔یکسوئی سے تحریک سے وابستہ لوگ اور مایوس عناصر متحرک کردار ادا کریں۔جو لوگ شعوری و غیر شعوری طور پر مفادات، مراعات یا مختلف حیلے بہانوں، مجبوریوں، مصلحتوں، دباؤ، انتقام یا ناا میدی سے منظرسے ہٹ گئے اور خود سائیڈ لائین ہو گئے ، وہ اپنا خود محاسبہ کریں۔ کوئی اﷲ تعالیٰ کو دھوکہ نہیں دے سکتا۔ سب کو حساب دینا ہے۔لیڈر شپ کا حساب زیادہ سخت ہے۔ ’’ بیس کیمپ‘ کا کردار بھی متعین ہو گا۔ ’’ تم بھی اٹھو اہل وادی‘‘ پکارنے اور ترانے بجانے والوں کو بھی جواب دینا ہو گا کہ وہ خودکیوں خاموش ہو گئے۔ اقتدار اور کرسی کے لئے شہداء کی قربانیوں کو زریعہ معاش بنادیا گیا۔کشمیر کاز، شہیدوں،عصمتوں، قربانیوں کے نام پر سیاست کرنے والوں کو بلا شبہ دنیا میں ورنہ آخرت میں عبرتناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔لاکھوں شہدا کی قربانیاں کبھی رائیگان نہیں جائیں گی۔کشمیری ضرور آزادی حاصل کریں گے اور افغانوں کی طرح قابض بھارت کو بھاگنے پر مجبور کریں گے۔

 

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 486675 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More