سارے مسئلے وقت کے ہی ہیں

باتیں، باتیں اور بے پناہ باتیں۔ جدھر چلے جائیں، جہاں کا رخ کریں آپ کو لوگوں کے لب ہلتے اور زبانیں چلتی نظر آئیں گی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو ایک بار اس کے نائب علی بن سفیان نے مشورہ دیا کہ آپ تقاریر کر کے عوام الناس کی اصلاح کریں تو اس نے جواب دیا کہ تم مجھے باتوں میں نہ لگاؤ علی۔ اگر میرا کام باتیں کرنا رہ گیا تو میں کچھ کر نہیں پاؤں گا۔ یعنی میرا عمل ختم ہو جائے گا۔ شاید اسی لیے کثرت کلام نا پسندیدہ ہے کیوں کہ بہت زیادہ باتیں کرنا انسان کی عمل کرنے کی صلاحیت کو کم کر دیتا ہے۔ پھر انسان کا دماغ صرف باتوں میں الجھا رہتا ہے، اسے عمل کی فرصت نہیں رہتی۔ لیکن یہ ہوتا کیوں ہے؟ ہم انسان باتوں میں کب زیادہ الجھتے ہیں؟ جب ہمارے پاس ضائع کرنے کو وقت ہوتا ہے۔ آپ غور کریں، خاندانوں میں وہی عورتیں ادھر کی اُدھر کرتی ہیں جن کے پاس اس سارے کام کے لیے بے پناہ فارغ وقت ہوتا ہے۔ فلاں نے یوں کہا، لوگ میرے بارے میں ایسا سوچتے ہیں، یہ الفاظ بھی انہی لوگوں کے ہوتے ہیں جن کے پاس ان باتوں کے لیے وقت ہوتا ہے۔ جس کے پاس کوئی مقصد ہو، یقیناً اس کی زندگی میں اتنا کچھ ہو گا کہ اسے وقت ہی نہ ملے گا کہ بے کار باتوں میں پڑے اور وقت بے دریغ ضائع کرے۔
خواہش ہے کہ ان بے پرواہ انسانوں کو بتایا جائے کہ ایک ایک لمحہ کتنا قیمتی اور اہمیت کا حامل ہے۔ شاید کہ انسان سمجھ سکیں، کچھ ہوش کے ناخن لے سکیں۔ شاید کہ وہ کچھ کر سکیں، شاید کہ اپنے وقت کو بہتر بنا سکیں۔ یہ وقت جو آج میسر ہے، کل نہیں ہو گا۔ جو لمحہ آ کر گزر گیا سو گزر گیا۔ وہ واپس نہیں آ سکتا، نہ ہی آئے گا۔ مگر جو کام ہم نے اس لمحے میں کر لیا، وہ ساتھ رہے گا۔ لمحہ فنا ہو جائے گا، سانس فنا ہو جائے گی مگر وہ کام فنا نہیں ہو گا، وہ اپنے اثرات چھوڑ جائے گا۔ الفاظ، اعمال اور افعال سب اثر رکھتے ہیں اور گو کہ انسان چلے بھی جائیں، مگر یہ اپنا وجود ہوا میں برقرار رکھتے ہیں۔ آثار فضا میں ٹھہر جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اوقات کہیں جا کر بے وجہ کلفت اور بیزاری ہونے لگتی ہے۔ دل اچاٹ ہونے لگتا ہے۔ یہ اسی سبب سے ہوتا ہے۔ ہمارے اس جگہ جانے سے قبل وہاں کچھ ایسا وقوع پزیر ہوا ہوتا ہے جو اس جگہ کی فضا پر اپنا اثر چھوڑ جاتا ہے۔ اسی وجہ سے کچھ جگہیں پر سکون ہوتی ہیں، آرامدہ ہوتی ہیں کیوں کہ وہاں کی فضا میں وہاں کے باسیوں نے مثبت اثرات چھوڑے ہوتے ہیں۔ آثار اپنے وجود کو برقرار رکھتے ہیں اور اپنے بعد آنے والوں کو پیش آنے والے واقعات کی ہلکی ہلکی اور معمولی معمولی خبر دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے، اور بہت حد تک ایسا ہی ہے تو کبھی کبھی ذہن اس سوچ کو پناہ دینے لگتا ہے کہ ہمارا شور و غل اور آسمان کو چھو جانے والی اور عرش کو ہلا دینے والی آوازیں فضا پہ کیسا اثر ڈالتی ہوں گی؟ بالکل، وہ اثر ڈالتی ہوں گی اسی لیے تو صوتی آلودگی موجود ہے۔ فضا میں شور اور آواز کی آلودگی کا اہم ترین سبب انسانوں کی یہی اونچی اونچی آوازیں ہیں۔ بات وقت سے شروع ہوئی تھی اور اس درجے تک پہنچ گئی۔ بہر حال، لب لباب یہی ہے کہ سارے مسئلے وقت کے ہی ہیں، سارے چکر وقت کے گرد ہی گھومتے ہیں۔ یہ انسان جو فضا کو اپنے شور کے ذریعے آلودہ کر رہے ہیں، یہ بھی در اصل ایسا اس لیے کر رہے ہیں کیوں کہ ان کے پاس وقت ہے۔ اگر ان کے پاس یہ کرنے کا وقت نہ ہو تو یہ قیمتی سرگرمیوں میں وقت لگائیں اور ہر لمحہ کو فنا ہونے سے پہلے اس سے کچھ حاصل کر لیں۔ وقت اسی کا ہوتا ہے جو اسے اپنا بنا لیتا ہے۔ جو اس سے بے پرواہ ہو جائے، وقت اس سے بے پرواہ ہو جاتا ہے۔

 
Unaiza Ghazali
About the Author: Unaiza Ghazali Read More Articles by Unaiza Ghazali: 12 Articles with 6472 views Studying at university of Karachi, teaching Tajweed and various subjects, contributing in social work projects and living with the passion of writing .. View More