لیڈر شپ اور مینجمنٹ

 ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کسی بھی موضوع پر بولنے کے لئے اس موضوع کے ایکسپرٹ کو دعوت دینے کی بجائے کچھ پیشہ ور اور نامور مقرروں کو بلا لیتے ہیں ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپ نے انہیں اخلاق کے بارے بولنے کی دعوت دی ہے مگر وہ بد اخلاقی پر زیادہ عبور رکھتے نظر آتے ہیں اور اسی کے بارے بات کرتے ہیں ۔وہ بچے جنہیں سکھانے کے لئے ہم نے انہیں دعوت دی ہیان کے ایسے لیکچر سے کوئی استفادہ نہیں پاتے اور ویسے ہی کورے اٹھ جاتے ہیں جیسے آ کر بیٹھتے ہیں۔ کچھ دن پہلے ایک یونیورسٹی میں لیڈر شپ اورمینجمنٹ کے حوالے سے ایک سیمینار تھا۔بڑے جانے پہچانے اور نامور مقرر موجود تھے۔ بچوں نے فوٹو شیشن تو ان کے ساتھ شاندار کیا مگرکیا حاصل کیا ، کچھ بھی نہیں کیونکہ کسی نے موجودہ حالات کی بات کی ، کسی نے قائد اعظم کی خدمات کو سراہا اور کسی نے کچھ اور ۔ان مقررین نے بہت سی باتیں کیں مگر اس ساری گفتگو میں نہ کہیں کوئی مینجر نظر آ اور نہ کوئی لیڈر۔
جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے لیڈر شپ اور مینجمنٹ دو مختلف چیزیں ہیں۔ مینجر کا تعلق اپنی ذات اور اپنی محنت سے ہوتا ہے۔ اسے جب کوئی کام کرنے کو دیا جاتا ہے تو اس کا سارا ٹارگٹ وہی کام ہوتا ہے۔وہ اسی کام کو ترتیب دیتا اور اسی کے بارے سوچتا ہے۔وہ دئیے گئے اس کام کو پلان کرتا ہے۔اس کے لئے چیزیں اور افراد کو ترتیب دیتا ہے۔ان سب چیزوں کوکام میں لاتا اور افراد کو متحرک کرتا ہے ۔ انہیں کنٹرول کرتا اور اپنی گرفت میں رکھتا ہے اور یوں اپنا ہدف حاصل کر لیتا ہے۔مینجر ہمہ تن دئیے گئے اس کام سے جڑا رہتا ہے تا وقتیکہ ہدف حاصل نہ ہو جائے۔ پچھلے دنوں میں نے ایک مثال دی تھی کہ ایک مینجر کہیں سے گزر رہا تھا تو اسے ایک انتہائی گندی جگہ پر کچھ لوگ بیٹھے خشک اور گندی سی گھاس کھاتے نظر آئے۔ وہ رکا اور ان بندوں سے افسوس کا اظہار کیا کہ مجبوری میں اتنی گندی گھاس کھا رہے ہیں۔ وہ انہیں ساتھ لے گیااور ایک ایسی جگہ گھاس کھانے چھوڑ دیا جہاں کی گھاس ہری بھری تھی اور ارد گرد کا ماحول بھی صاف ستھرا تھا۔اس نے انہیں بتایا کہ وہ دیکھیں کہ ایک گندے اور ایک اچھے ماحول کیا کیا فرق ہے اور گندی گھاس اور ہری بھری گھاس کے ذائقے میں بھی زمین آسمان کا فرق ہے جو ا نہیں محسوس ہوگا۔اس کی سوچ کا تعلق انتظامی تھااور اس کی سوچ چونکہ مینجر والی تھی اس لئے اس کے خیال میں جو بہتر تھا انتظام تھا۔ اس نے وہ انتظام کر دیا۔مینجر والا معاملہ اگر کوئی لیڈر ڈیل کرتا تو اس کا انداز بڑا مختلف ہوتا۔ وہ بہتر ذرائع ڈھونڈنے کی کوشش کرتا۔ بہتر کھانے کا بندوبست کرتا ۔ رہائش کے لئے بہتر جگہ کا سوچتا اس لئے کہ لیڈر متاثر کرنے والی شخصیت ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کو با اختیار بناتا ہے۔ نئی نئی چیزیں اور نئے تصورات سے ہمکنار کرتا ہے۔

ٹاٹا، بھارت کا ایک بہت بڑا صنعتکار ہے جس کے بھارت میں سینکڑوں کارخانے ہیں۔ بھارت میں آپ کہیں چلے جائیں۔ آپ کو ٹاٹا کے پٹرول پمپ، ٹاٹا کی گاڑیاں، ٹاٹا کی ٹیکسٹائل مصنوعات، ٹاٹا کی الیکٹرانک مصنوعات، ٹاٹا کی ہوم انڈسٹری کی چیزیں، ٹاٹا کے پانچ اور سات تارہ ہوٹل اور بہت کچھ ملے گا۔ ٹاٹا سوئی سے لے کر جہاز تک ہر چیز بناتا ہے۔وہ اپنی ساری صنعتوں کو اپنے ہیڈ آفس سے کنٹرول کرتا ہے۔ کبھی کبھار اپنی ان صنعتوں اور ہوٹلوں کا چکر بھی لگا لیتا ہے تاکہ اپنے ملازموں کے مسائل سے بخوبی آگاہ رہے۔اسی سلسلے میں وہ ایک دن اپنی کلکتے میں واقع فیکٹری میں موجود تھا۔حسب روایت اس نے فیکٹری میں موجود انتظامیہ کے لوگوں، اکاؤنٹس کے لوگوں اور لیبر نمائندوں سمیت ہر طرح کے لوگوں سے بات کی ۔ ان کے مسائل سنے اور جو حل ممکن تھا وہ کیا۔ اپنے سٹاف کو جیسے بھی مطمن کیا جا سکتا تھا اس کے لئے ہر سعی کی۔سب سے آخر میں اس نے لیبر نمائندوں سے ایک لمبی ملاقات کی اس لئے کہ لیبر کے معاملات بڑے حساس ہوتے ہیں اور وہ زیادہ توجہ کے محتاج ہوتے ہیں۔

میٹنگ کے خاتمے پر جاتے جاتے ایک لیبر نمائندے نے کہا کہ ایک بہت چھوٹا سا مسئلہ ایسا ہے کہ جس پر کوئی توجہ نہیں دیتا۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ یہاں ٹوائیلٹ کے دو سیٹ بنے ہوئے ہیں دونوں میں ایک جتنی گنجائش ہے ۔ ایک افیسرز کے لئے اور دوسرا لیبر کے لئے۔لیکن لیبر کی تعداد چونکہ زیادہ ہے وہ جگہ زیادہ استعمال ہوتی ہے ۔ نتیجے میں وہاں توڑ پھوڑ بھی قدرے زیادہ ہوتی ہے۔گندگی بھی زیادہ ہوتی ہے اور صفائی والے بھی اس پر کم توجہ دیتے ہیں۔ٹوٹی ہوئی چیزوں کی مرمت کے لئے پیسے بہت دیر سے ملتے ہیں اور جب ملتے ہیں تو اس وقت تک کئی نئی چیزیں ٹوٹ گئی ہوتی ہیں۔ آفیسر کم ہیں، انکے لئے مخصوص حصے میں ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں مرمت بھی فورآ ہو جاتی ہے اور وہاں صفائی کا بندوبست بھی بہت بہتر ہے ۔ اس مسئلے کا کوئی حل ہو جائے تو بہتر ہے۔ ٹاٹا نے ساری بات سن کر سر ہلایا اور کہا کہ آپ فکر نہ کریں میں آج اور ابھی جانے سے پہلے یہ مسئلہ حل کر کے جاؤں گا۔ لیبر کے سارے نمائندے حیران کے ابھی یہ مسئلہ کیسے حل ہو گا۔لیکن انہیں یقین تھا کہ ٹاٹا نے کہا ہے تو یقیناً یہ کام ہو جائے گا۔

ٹاٹا نے سب سے پہلے اس آفیسر کو بلایا جو دیکھ بھال اور مرمت وغیرہ کاانچارج تھا۔ اسے کہا کہ دو دن میں ٹائیلٹ کے دونوں سیٹ ایک جیسی حالت میں ہوں جو بھی خرچ آئے اکاؤنٹس والوں سے پیسے فوراً لو اور کام شروع کر دو۔۔ پھر کارپینٹر کو بلایا اور حکم دیا کہ دونوں سیٹوں کے باہر دو تختیاں لگی ہیں ایک پر لکھا ہے ’’افسران کے لئے‘‘ اور دوسری پر’’ مزدوروں کے لئے‘‘ لکھا ہے۔ فوراً تختیاں بدل دو۔آج ہی سے افسر مزدوروں والے حصے میں جائیں گے اور مزدور افسروں والے۔ مرمت میں کوتاہی کی قیمت بھی چند دن افسران ہی ادا کریں گے اور آئندہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو یہ دونوں تختیاں لازمی بدل دیا کرو۔ ایک ماہ افسران ایک طرف اور مزدور دوسری طرف جب کہ اگلے ماہ جگہ بدل جائے گی۔ کہتے ہیں اس کے بعد کسی کو وہاں ایسی کوئی شکایت نہیں رہی۔ حقیقت میں لیڈر اسی خوبی کا نام ہے کہ جو مسائل کو ختم کرنے کا فن جانتا ہو، اپنے اقتدار کے دوران لوگوں کو پریشانیوں اور افراتفری سے بچائے ناکہ ہماری حکومتوں کی طرح مسائل کو پھیلائے، ایسے اقدامات کرے کہ جس سے لوگوں میں نفرت کا فروغ ہو اور ذلت سمیت لے جو بہر حال ایسے لوگوں کا مقدر ہوتی ہے۔ تاریخ میں زندہ وہی رہتا ہے جو لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔میں جب اپنی صوبائی کابینہ پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے وہ اندھا یاد آ جاتا ہے جس کے قابو ایک بٹیر آگیا تو وہ خود کو شکاری سمجھ بیٹھا۔کابینہ کے ان لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ مشکلوں کو جنم دینے والا وقتی طور پر تو خود کو بڑا آدمی سمجھتا ہے مگر وہ تاریخ میں بونے جتنی جگہ بھی پا نہیں سکتا۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 443155 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More