کس درد کا حاصل ہیں ہم

آج گھر سے نکلتے ہی خیال آیا کہ سب آرام فرما رہے ہیں اور میں ۔۔۔صحافی کہنا تو غلط ہو گا ابھی، لہذا کچا صحافی ساڑھے تین بجے موٹر سائیکل پہ براجمان اپنے آفس کو روانہ ہوا چاہتا ہے ۔ زندگی عجیب سی ہے ، اتنی عجیب کہ عجیب سی عجیب ہے ۔ یہی سوچتے ہوئے گڑھی شاہو پل آیا اور گزر گیا ۔ میں جو سوچ رہا تھا وہ اچانک جون کے اس شعر کی صورت ذہن کے بوسیدہ خلیوں میں گونجنے لگا ۔۔۔
یہ خراباتیانِ خرد باختہ
صبح ہوتے ہی سب کام پر جائیں گے

بس اتنا فرق ہے ہماری زندگیوں میں اور جون کے شعر میں کہ یہاں ملگجی شام ہے اور وہاں تھکی ہوئی صبح۔ خیر تو سفر جاری تھا ، کشادہ کینال روڈ پہ واقعہ فیض احمد فیض انڈر پاس گزر رہا تھا کہ دیوار کے ساتھ چپکا، گھٹنوں میں سر دئیے ہوئے بچہ دنیا سے بے نیاز بیٹھا نظر آیا ۔ سامنے ماسک کا ڈبہ اس کے روزگار کی نشاندہی کر رہا تھا ۔ جسم پہ سوائے ایک ہلکے مہند ی رنگ کی شلوار قمیض کے کچھ نہیں تھا ۔ بے کسی سی بے کسی تھی ۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا دیوار ایک واحد آسرا ہے جس نے اسے پناہ دی ہے ۔ اور یہاں مجھے رونا آیا ۔ خود پہ اور اس ملک کے ہر اس فرد پہ جو سیاست کو ملکی بقا سے تشبیہ دیتے ہیں ۔ سیاست دانوں کو رہنما کہتے ہیں ۔ ان کی قیادت پہ اتراتے پھرتے ہیں ۔ یہ لوگ خالی برتن ہیں ،صرف آوازیں نکال سکتے ہیں ۔ اس ایک کام کے علاوہ انہیں کوئی کام ہرگز بھی نہیں آتا ۔ یوں سمجھیے کہ ہم نے بندر کے ہاتھ میں ماچس دے دی ہے ۔ لہذا اپنے مستقبل بارے سوچنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ معلوم ہے ۔ تباہ سے تباہ کن ہو گا ۔ ہم عوام جو پائی پائی جمع کر تے ہیں وہ ان لوگوں کے ناجائز کھاتوں میں جائز ہو جاتا ہے اور عوامی فلاح ان پہ ناجائز ہو جاتی ہے ۔

ملک میں سیلاب آیا ، تقریبا آدھا ملک تباہ ہو گیا ۔ ڈیم جن کا چرچا کیا جا رہا تھا ، پانی کے ذرا سے دھکے کو برداشت نہ کر سکے ۔ سڑکیں ، پل ، ہر وہ چیز جو نام نہاد قیادتوں کے ہاتھوں بنی تباہ ہو گئی ۔ 50 ، 50 کروڑ میں ضمیر خریدے گئے۔ لیکن سیلاب متاثرہ عوام کو دینے کے لیے ان عظیم رہنماوں کی جیبوں سے پچاس روپے تک نہ نکل سکے ۔ سیلاب کے نام پہ اپنے ضمیر کی تدفین کے لیے چارٹرڈ طیاروں پہ امداد لینے ملکوں ملکوں گھومے ۔ یہاں یہ امر غور طلب ہے کہ تما م سیاسی افراتفری نے قرضوں کی معافی کا تقاضا کیوں نہیں کیا ، وقت کی ضرورت بھی یہی تھی ۔ لیکن اس سے سوئس اکاونٹس کے ہندسوں میں اضافہ کیسے ہوتا ۔ معیشت کا کباڑہ نکال کر رکھ دیا گیا اور رہنما ایک دوسرے کو الزام دے کر بری الزمہ ہونے کے رہنما اصول پہ کاربند نظر آئے ۔ مہنگائی نے عوام کی سانس تک کھینچ لی ، کئی خود کشیاں ہوئیں، لوگوں نے اپنے بچوں کو مار ڈالا ۔ ماوں نے اپنے کلیجے دریاوں میں بہا دئیے ۔ لیکن ہمارے رہنما ، رہزنوں ایسے خود کو دلاسے دیتے رہے کہ پاکستان کو اللہ نے بنایا ہے لہذا فرض بھی اللہ ہی کا ہے کہ اسے چلائے ، اسے ترقی کے زینے چڑھائے ۔ خود منہ میں بانس لیے بیٹھے رہیں ۔ کچھ نہ کریں ۔ جو چیز مہنگی ہو اس کے چند نقصانات گنوائیں اور کھانے سے عوام کو منع کر دیں ۔ ملک ڈیفالٹ ہو چکا لیکن حالات قیادت کے کنٹرول میں ہیں ۔ روزمر ہ کی ہر چیز مہنگی ہو گئی لیکن حالات قابومیں ہیں ۔ عوام بھوک سے مر رہی ہے ۔ کروڑوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں ، ایک اندازے کے مطابق تقریبا 70 لاکھ افراد صرف ٹیکسٹائل انڈسٹری سے بے روزگار ہوئے ۔ لیکن حالات قیادت کے کنٹرول میں ہیں ۔

دیکھا جائے تو حالات واقعی قیادت کے قابو میں ہیں ۔ پیری میں دوشیزگی سمیٹے مریم نواز کی آمد آمد ہے ۔ وہ لندن سے پاکستان واپس آ رہی ہیں ۔ راستے میں کچھ سرجریز کے لیے دوبئی میں قیام ہے ۔ کیونکہ یہ سرجری یا تو لندن میں ہوتی ہے یا دوبئی میں باقی تمام دنیا اس سرجری سے نابلد ہے ۔

دوبئی سے پاکستان آنے تک ایک رات میں تمام کینال روڈ پہ فلیکس لگا دیے جاتے ہیں ۔ تمام ٹی وی چینلز پہ اور ویب سائٹس پہ ایڈ ز چل رہے ہوتے ہیں ۔ ترانے تو خیر بن بن کر اب ثانوی حیثیت اختیار کر چکے ۔ لہذا یہ سوال نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اس تمام واردات کے لیے پیسے کہاں سے آئے ۔

اور اگر اتنے ہی پیسے ہیں۔۔ تو ملک تباہ ہو رہا ہے، اس کی عوام دگر گوں حالات میں ہیں ۔ تو میرے خیال میں اس سے زیادہ بہتر وقت نہیں آئے گا وطن سے محبت کے دعوے کو سچ ثابت کرنے کا ۔ لہذا تمام قیادت کو بڑھ چڑھ کر اس کارِ خیر میں شامل ہونا چاہیے ۔ مارچ پاسٹ کرنے سے کچھ حصل و حصول نہیں لہذا عملی طور پر عوام کے خادم بنیں ۔

آج کل الیکشن کا ڈھنڈورا پورے زور و شور سے پیٹا جا رہا ہے ۔ جس کا تمام خرچہ عوام کے سر ہے ان کے دئیے گئے ٹیکس بجائے ان کی فلاح کے لیے استعمال ہوں ، رہنما اپنے لیے استعمال کر لیتے ہیں ۔ اس پہ مکمل قانون سازی ہونی چاہیے ۔ اور اس کی پہلی دفعہ میں یہ لکھا ہونا چاہیے کہ جو حضرات رہنما وں کے ریوڑ میں شریک ہونا چاہتے ہیں وہ کم از کم سیاسیات یا اس سے متعلقہ مضمون میں ایم فل کیے ہوں ۔ دوسری دفعہ یہ ہو کہ اپنے اثاثوں کے 30 فیصد متعلقہ ادارے میں جمع کروائیں ۔ فلیکس اور باقی تمام ایڈز پہ ایک خاص تخمینے کے مطابق ٹیکس لاگو کیا جائے ۔ میری ناقص رائے کے مطابق تو پر فلیکس 50 روپے ہونا چاہیے ۔ اگر میڈیا یا سوشل میڈیا کا استعمال کیا جا رہا ہے تو اس کے لیے الگ سے ٹیکس نظام متعارف کروایا جانا چاہیے ۔ اس سے نقصان کم اور فائدے زیادہ ہیں ۔ عوام بہت سے نام نہاد رہنماوں کے عتاب سے محفوظ ہو سکتی ہے ۔ اس طرح شاید عوام کا پیسہ عوام میں آئے اور کچھ اچھی قیادت کا دیدار ہو جو عوام کی بہبود کو مقدم رکھتی ہو ۔ ان کے درد کا مداوا کر سکے ۔ جو ضروریاتِ حاضرہ کو عمجھنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ تاکہ انڈر پاس کی دیواروں سے لپٹے بچے اپنی ماوں سے لپٹ سکیں ۔ ان کے ہاتھوں میں ماسک کے ڈبوں کی بجائے کتابیں ہوں ، اور سر گھٹنوں میں دبنے کی بجائے فخر سے تنے ہوئے ہوں ۔ عوام کا پیسہ عوام میں آئے گا تو ہی کچھ حاصل ہے ورنہ کچھ نہیں ۔ قانون سازی قانو ن دان کریں گے تو ہی کچھ حاصل ہے ، ورنہ کچھ نہیں ۔
اے گردشِ زمان ذرا رک کہ ہم بھی کچھ
آنکھوں میں چند خوابوں کی تعبیر بن سکیں
گلدستہِ حیات کی ترکیب چن سکیں
 

Waqas Ahmed
About the Author: Waqas AhmedNOTHING .. View More