پاکستان میں بائیں بازو کی سیاسی تاریخ

لیفٹ ونگ اور رائیٹ ونگ کی اصطلاحات دو مختلف نظریات رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے لیے استعمال کی جاتی ہیں- لیفٹ ونگ نظریاتی اعتبار سے انقلاب کا حامی جبکہ رائیٹ ونگ رائج نظام کا محافظ یا انقلاب مخالف نظریات کا حامل ہوتا ہے- ان اصطلاحات کی ابتدا 1789ء کے فرانسیسی انقلاب سے ہوئی تھی- فرانس میں اس وقت بادشاہت تھی اور پارلیمنٹ میں نشستوں کی ترتیب کچھ یوں تھی کہ انقلاب مخالف یا بادشاہ کے حمایتی اراکین دائیں جانب بیٹھتے تھے، جبکہ انقلاب کی حمایت کرنے والے بائیں جانب- دونوں اطراف میں بیٹھنے والے اراکین نظریاتی اختلافات رکھتے تھے یوں پوری دنیا میں یہ اصطلاحات اسی تناظر میں استعمال ہونے لگیں-

اس وقت پاکستان کی سیاسیت پر دائیں بازو (رائیٹ ونگ)کی جماعتوں کا غلبہ ہے اور بائیں بازو(لیفٹ ونگ) کی جماعتوں کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے- بائیں بازو کی جماعتیں چھوٹے چھوٹے گروہوں کی شکل میں ضرور موجود ہیں اور ملک کے کچھ حصوں، خصوصاً خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں ان کی عوامی طاقت بھی ہے لیکن منفی پروپیگنڈہ، رجعت پسندی اور متشدد سوچ ان کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں- اس کی مثال 2008 کے انتخابات کے بعد خیبر پختون خواہ میں قائم ہونے والی عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت کی ہے ، جب ان کے 1000 سے زائد کارکنان کو مذہبی شدت پسندوں نے ہلاک کر دیا تھا-

پاکستان کی آزادی کے فوراً بعد ہی ترقی پسند سوچ رکھنے والوں کے لیے میدان تنگ کرنے کی کوششیں شروع ہو گئی تھیں- راولپنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض اور فوجی افسران کو سزائیں ہوئیں اور 1954 میں اس وقت کی سب سے بڑی بائیں بازو کی جماعت، کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان پر پابندی لگا دی گئی- یوں پاکستان میں سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا- 1965میں ڈاکٹر محبوب الحق کی رپورٹ کے مطابق 22 خاندان پاکستان کی معیشت پر حاوی ہو گئےتھے ۔ دو تہائی صنعتی اثاثے ، 80 فیصد بینکنگ اور 79 فیصد انشورنس کے اثاثےان کے کنٹرول میں تھے ۔

1960 میں نامور لیفٹ راہنما کامریڈ حسن ناصر کو لاہور جیل میں تشدد کر کے شہید کر دیا گیا- پابندیوں اور سخت تشدد کے باوجود ترقی پسند راہنما محتلف سیاسی پلیٹ فارمز سے جدوجہد کرتے رہے- ایوب حکومت کے خلاف تحریک میں نمایاں کردار لیفٹ اور مزدور تحریکوں کا ہی تھا- ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد کچھ عرصہ پیپلز پارٹی اور ترقی پسند جماعتوں کا اتحاد ہوا کیونکہ بھٹو بھی اشتراکیت پسند تھے لیکن یہ زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا جس کے بعد ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا-

ضیاء دور میں یہ سلسلہ اپنے عروج کو پہنچا- لوگوں میں لسانی اور مذہبی تفریق کا جو بیج بویا گیا تھا اس کا اثر ترقی پسند تحریکوں اور مزدور یونینز پر بھی ہوا اور وہ مختلف گروہوں میں بٹ گئیں- اس دور میں بائیں بازو کی تحریکوں کے خلاف خوب پروپیگنڈا ہوا-انہیں مذہب سے متصادم قرار دیا گیا یا غدار کہا گیا- یہ وہی دور ہے جس میں امریکہ نے اشتراکیت کو بدنام کرنے کے لیے پاکستان کی سیاسی و مذہبی قیادت کی زبردست فنڈنگ کی تھی-

یہ سلسلہ قیام پاکستان سے قبل برطانوی دورحکومت میں شروع ہوا تھا- بقول مولانا عبیداللہ سندھی کے ، برصغیر کے علما کو سب سے پہلے برطانوی حکومت نے اشتراکیت پسندوں کے خلاف ماحول بنانے کے لیے استعمال کیا تھا-

قیام پاکستان کے بعد یہی سلسلہ جاری رہا- مشہور مؤرخ ڈاکٹر مبارک علی لکھتے ہیں کہ ’’مجلس احرار اور جماعت اسلامی نے اشتراکیوں کے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا۔ حالت یہ تھی کہ جب میں اسلامیہ کالج کراچی میں پڑھتا تھا، تو ہمارے پرنسپل کو امریکی سفارت خانے سے یہ پیغام دیا گیا کہ اشتراکی نظریا ت والی کتابیں کالج کی لائبریری سے ہٹا دی جائیں اور وہ ہٹا بھی دی گئی تھیں۔ اگر یہ سب کچھ نہ ہوتا تو شاید آج صورت حال مختلف ہوتی کیونکہ ساٹھ کی دہائی میں ملک کی سب سے بڑی طلبا تنظیم اشتراکیوں ہی کی تھی۔‘‘

جہاں پر دوسری مشکلات اور مصائب تھے وہیں سوویت یونین کے خاتمے نے ترقی پسند تحریکوں کو مزید مایوسی کی طرف دھکیل دیا - کچھ لوگ این جی اوز کا حصہ بن گئے اور بائیں بازو کی سیاست ختم ہونے لگی- اس کے بعد سے بائیں بازو کی جماعتیں زوال کا شکار رہی ہیں- 2008ء کے انتخابات میں خیبر پختون خواہ میں لیفٹ کو کامیابی ملی لیکن خراب حالات اور دہشتگردی کے باعث وہ اپنے ایجنڈے پر عمل نہ کر سکے- جس کا نتیجہ 2013 میں ان کی شکست کی صورت میں نکلا-

اس منفی پروپیگنڈے کا نتیجہ آج دیکھا جا سکتا ہے- حالات یہ ہیں کہ تمام سیاسی، اور مذہبی سیاسی جماعتیں ایک ڈرامائی سین کے سوا کچھ نہیں- اورفی الوقت پاکستان میں بائیں بازو کے احیا کی بھی کوئی امید نظر نہیں آتی- لیکن تاریخ میں بہت سی ایسی تبدیلیاں ہوئی ہیں جن کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی- ممکن ہے کہ بائیں بازو کی جماعتیں مستقبل میں دوبارا سے عوامی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں-

ایسے میں ہر مثبت سوچ رکھنے والے شخص کو تعلیمی میدان میں جدوجہد کرنا ہو گی - عوام کو لسانیت، قومیت اور مذہبی اختلاف کی بنیاد پر تقسیم کر کے جو اجارہ داری قائم کی گئی ہے، انہیں اس سے نکال کر حقیقی مسائل کی بنیاد پر اکٹھا کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے- اس کے لیے شعور پہلا قدم ہے- مثبت سوچ کے حامل، مخلص اور باصلاحیت لوگوں کو اس میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے، تا کہ آئندہ لوگ خود سے یہ فیصلہ کر سکیں کہ ان کے مستقبل کے لیے کیا بہتر ہے-
 

Ali Hamza Dar
About the Author: Ali Hamza Dar Read More Articles by Ali Hamza Dar: 4 Articles with 2191 views A science student, Social rights activist and writer .. View More