عوام اور سیاسی لیڈر

آج کل سیاسی گہما گہمی بہت عروج پر پہنچی ہوئی ہے۔اتنے تو سیاسی لیڈر سرگرم نہیں جتنا کہ عوام سرگرم نظر آرہے ہیں۔ابھی لیڈر کا بلاوا آتا نہیں،اسکے سپورٹرز وہاں پہلے پہنچ جاتے ہیں۔موجودہ دور کی سیاست کو ہم سیاست نہیں کہ سکتے،بلکہ ہم اسے کچھ بھی نہیں کہ سکتے۔سیاست بہت اچھی چیز کا نام ہے بشرطیکہ وہ آج کل کی سیاست نہ ہو۔سیاست تو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی کی،اسکے علاوہ ہمارے قائد محترم محمد علی جناح بھی سیاستدان ہی تو تھے۔لیکن انکی سیاست اورموجودہ دور کی سیاست میں محض اتنا فرق ہے کہ وہ سیاست کر کے لوگوں کو کچھ دیتے تھے اور ہم لوگوں کو بجائے کچھ دینے کے،ان سے پہلے والا بھی سب کچھ چھین لیتے ہیں۔اور کچھ لوگ تو ایسے بھی ہیں بلکہ کچھ نہیں،ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے،جن کو انہی کا مال واپس کیا جاتا ہے اور وہ خوش ہو جاتے ہیں کہ ہمارے لیڈر تو بہت سخی ہیں۔انہیں ہمارا بہت زیادہ خیال ہے۔

آج سے چند ماہ قبل ایک معاملہ بہت مشہور ہوا تھا۔اور اس معاملہ کا نام تھا "بیرونی سازش"۔اس معاملے کی مزید وضاحت نہیں کروں گا ۔اس میں ایک لیڈر اپنی عوام سے کہتا ہے کہ آپ لوگ ایک عالمی طاقت کے غلام بنا دیئے گئے ہیں۔اور عوام اپنے لیڈر کی بات کو آنکھیں بند کرکے مان لیتی ہے۔اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کس طرح کی عوام ہیں کہ ہمیں تب پتہ چلے گا کہ ہم غلام ہیں جب ہمیں کوئی اور آکے بتائے گا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم کسی نہ کسی پر انحصار کیے بیٹھے ہیں۔اور وہ قوم کیسے پروان چڑھ سکتی ہے جو خود کسی اور پر منحصر ہو۔سرسید احمد خان کے مطابق اصل غلام وہ نہیں جو کہ کسی آقا کے حوالے ہو اور وہ اس پر ظلم کرے بلکہ اصلی غلام تو وہ ہے جو خود کسی اور پر منحصر ہو اور جس کی اپنی کوئی خواہش نہ ہو۔ہمیں اس وقت کسی بھی حکمران سے کوئی اچھی توقع نہیں رکھنی چاہیے جب تک ہم خود اپنی ترقی و کامرانی کے لیے کوشش نہ کریں کیونکہ یہ تو قرآن کا فیصلہ ہے کہ جس طرح کی عوام ہوگی اسی طرح کے ان پر حکمران بھی ہوں گے۔

موجودہ دور میں عوام حقیقت سے بالکل بے خبر ہے،ان کیلئے وہ درست ہے جو ان کے لیڈر نے کہا ہے۔مثال کے طور پر پی ٹی آئی کے سپورٹرز کیلئے وہ درست ہے جو عمران خان صاحب نے کہا ہے جبکہ ن لیگی سپورٹرز کے لیے شہباز شریف،مریم نواز یا نواز شریف صاحب کی بات درست ہے اور یہی حال پی پی پی سپورٹرز کا بھی ہے۔

یہ ہم کس طرف جا رہے ہیں۔اس سے پہلے کیا کم مسلمانوں میں گروہ بندی تھی،جو اب تین گروہ اور وجود میں آچکے ہیں۔یہ تین گروہ پاکستان کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کے سپورٹرز کے ہیں اور ان کے بہت بے ہودہ نام رکھے گئے ہیں۔اس لیے میں نام نہیں بتاؤں گا۔ہم صرف تب ہی ترقی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں،جب ہم ایک پاکستانی بن کر سوچیں گے۔لوگ سیاست میں اس طرح گر چکے ہیں کہ دوست ،دشمن بنتے جا رہے ہیں۔ہم سوچتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کیوں نہیں کر رہا،اسکی وجہ کرپٹ حکمران نہیں بلکہ اسکی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے جو میں نے اوپر بتائی ہے۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے پاس ابھی بھی وقت ہے۔اگر ہم ایک پاکستانی بن کر سوچیں گے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمیں آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی۔

۔۔۔۔۔۔اللہ نگہبان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

Asad Mustafa
About the Author: Asad MustafaStudent.. View More