کیا بلڈوزر نے عدلیہ کو کچل دیا؟

بے قصور لوگوں کے خلاف بلڈوزر کا استعمال نیا نہیں ہے لیکن ویلفیئر پارٹی کے ریاستی جنرل سکریٹری اور جماعت اسلامی ہند کے مقامی ناظم جاوید محمد کے گھر پر چلنے کے بعد اب اس کی سمت بد ل گئی ہے۔ یہ اب ان لوگوں پر چلے گا ان شاء اللہ جوفخر سے اس کو چلا کر اپنی پیٹھ تھپتھپاتے تھے۔ عدلیہ کا جو ردعمل فی الحال سامنے آرہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اب وہ اپنے وجود کی جنگ میں مصروف ہوگیا ہے۔ یہ ایک نہایت فطری ردعمل ہے ۔ نظام حکومت تین پہیوں پر چلتا ہے ۔ مقننہ قانون بناتا ہے لیکن وہ آئین کے مطابق ہے یا نہیں اس کا فیصلہ کرنا عدلیہ کا حق ہے۔ عدالت کی آئینی بنچ اگر محسوس کرے تو کسی بھی وضع کردہ قانون کو خلافِ آئین قرار دے کر مسترد کرسکتی ہے۔ اسی طرح انتظامیہ کے ذریعہ پیش کردہ شواہد کو ردو قبول کا اختیار بھی عدلیہ کو ہے اور کسی ملزم کو سزا دینے یا بری کردینے کے معاملے میں انتظامیہ کو عدلیہ کی تابعداری کرنی پڑتی ہے ۔ بلڈوزر کا بے دریغ استعمال دراصل مقننہ اور انتظامیہ کی ساز باز سے عدلیہ کو روند کر مسمار کردینے کی سازش ہے۔

عدالت سے وابستہ ماہرین قانون کو اس کا احساس ہونے لگا ہے کہ بلڈوزر نے ان کی معنوعیت ختم کردی ہے اور وہ دن دور نہیں جب لوگ اس کا رخ کرنا چھوڑ دیں گے اور عدالت پر قفل لگانا پڑے گا ۔ اس صورت میں معاشرے کے اندر عدل و انصاف کی امید کا آخری چراغ بھی گُل ہوجائے ۔ یہی وجہ ہے کہ بلڈوزر کے خلاف پریاگ راج میں واقع الہ ٰ باد د ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس گووند ماتھر نے سب سے پہلے صدائے احتجاج بلند کی ۔ پہلے تو ان کا بیان اور پھر تفصیلی انٹرویو نشر ہوا۔ انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ بلڈوزر سے مکانات کو اس طرح گرانا مکمل طور پرغیر قانونی ہے۔ ان کے مطابق اگر ایک لمحے کے لئے یہ فرض کرلیا جائے کہ تعمیر غیر قانونی تھی،تب بھی کروڑوں ہندوستانی ان میں رہتے ہیں؟ اس لیے کسی کو یہ اجازت نہیں ہےکہ وہ اتوار کوایک ایسے فرد کا گھر منہدم کردے جس کے سارے لوگ زیرحراست ہوں۔ جسٹس ماتھر نے اسے تکنیکی مسئلہ نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی کا سوال کہہ کراس کی سنگینی اور سرکارکی منشاء بے نقاب کردی۔ ماتھر صاحب کی بات کو نظر انداز کردیا گیا تو کہنا پڑے گا؎
مظلوم کو دلائے جو ہر ظلم سے نجات
ایسی جہاں میں کوئی عدالت نہیں رہی

سابق چیف جسٹس ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہنے کی خاطر سبکدوشی کا انتظار نہیں کرتے۔ انہوں نے8 مارچ 2020 ، اتوار کو سی اےاے مخالف مظاہروں میں لکھنؤ انتظامیہ کے ذریعہ شائع کردہ متنازع پوسٹرس کا از خود نوٹس لیا تھا۔ عدالت نے یوگی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کو ملزم کے پرائیویسی کی خلاف ورزی قرار دیا تھا ۔ اس معاملے میں الٰہ باد عدالت کے بعد عدالت عظمیٰ میں بھی یوگی سرکار کو پھٹکار پڑی تھی لیکن اس نے اس سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ بلڈوزر کے استعمال کا معاملہ فی الحال سپریم کورٹ، الہ آباد ہائی کورٹ اور مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ اس کو میونسپل اور شہری منصوبہ بندی قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے بہانے بنیادی حقوق اور مناسب عمل کی خلاف ورزی کے طور پر عدالتوں میں چیلنج کیا گیا ہے۔ جہانگیر پوری میں سپریم کورٹ نے بلڈوزر کے خلاف اسٹے جاری کرکے یہ جانچ کر رہی ہے کہ آیا یہ حرکت مناسب عمل کی پیروی کے بعد کی گئی تھی یا نہیں؟ عدالت عظمیٰ اگست میں اس پر سماعت کرنے والی ہے مگر عدلیہ سے بے نیاز بلڈوزر بابا اپنی من مانی کیے جارہے ہیں ۔

جسٹس گووند ما تھر کےبعد سپریم کورٹ کے تین سابق ججوں نے بھی بلڈوزر سے لوگوں کے مکانات گرانے کی کارروائی کوخلاف قانون ٹھہرا کر خارج کر دیا ۔ ان سابق ججوں کے علاوہ 9 معروف قانونی ماہرین نے اس کارروائی کو قانون کا مذاق قرار دیا ہے۔ اپنا احتجاج درج کرانے والے سپریم کورٹ کے ان سابق ججوں میں نامی گرامی بی سدرشن ریڈی، وی گوپالا گوڑا اور اے کے گنگولی کےساتھ ہائی کورٹ کے تین سابق ججوں اور چھ وکلاء کے دستخط ہیں۔ان نامور ہستیوں میں جسٹس اے پی شاہ دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور لاء کمیشن کےسابق چیئرمین رہے ہیں ۔ سینئر وکلاء میں سا بق وزیرقانون شانتی بھوشن، پرشانت بھوشن، اندرا جے سنگھ، چندر ادے سنگھ، سری رام پنچو اور آنند گروور کا نامِ نامی شامل ہے۔ ان حضرات نے صرف بیان بازی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو خط لکھ کر اس معاملے میں مداخلت کی درخواست بھی کردی ہے۔

اس درخواست میں چیف جسٹس سے ریاستی حکام کی مسلم شہریوں کے خلاف اختیار کیے جانے والے تشدد اور جبر کے راستے میں مداخلت کرنے کی گہار لگائی گئی ہے۔ ان لوگوں نے مظاہرین کے گھروں کو مسمار کرنے کو ناقابل قبول کہہ کر یاد دلایا ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہے۔ چیف جسٹس کو لکھے گئے مذکورہ خط میں پولیس کی حراست کے اندر نوجوانوں کو لاٹھیوں سے پیٹنے ، مظاہرین کے گھروں کو بغیر کسی نوٹس یا کارروائی کے مسمارکرنے اور اقلیتی مسلم طبقہ سےمتعلق مظاہرین کے ساتھ کیے جانے والے ظالمانہ سلوک کی ویڈیو پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس تناظر میں سابق ججوں اور ماہرین قانون نے سپریم کورٹ کو یاد دلایا ہے کہ ایسے نازک وقت میں عدلیہ کی اہلیت کا امتحان ہوتاہے۔ عدلیہ ماضی میں عوام کے حقوق کی محافظ بن کر ابھری ہے۔ خط میں سپریم کورٹ کی طرف سے کی گئی ازخود کارروائی کی مثالیں پیش کی گئی ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے عدالت اپنی ذمہ داری کا احساس کرکے کوئی جرأتمندانہ اقدام کرتی ہے یا بلڈوزر کے نیچے دب کر فوت ہوجانے کو پسند کرتی ہے۔ ایسا اگر ہوجائے تو یہ کیفیت ہوگی؎
عدالت سے یہاں روتا ہوا ہر مدعی نکلا
کرم فرمائی سے منصف کی ہر مجرم بری نکلا

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ یوگی سرکار کی حالیہ کارروائی کا واحد ہدف مسلمان ہیں لیکن جو لوگ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ وہ صرف ایک طبقہ تک محدود رہے گا تو انہیں صوبائی انتخاب کے بعد سماجوادی پارٹی کے ہندو رہنماوں پر چلنے والے بلڈوزر کو یاد کرلینا چاہیے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان میں ایک روشن لال تو بڑے عرصے تک بی جے پی میں تھے ۔ شاہجہاں پور کی انتظامیہ نے سابق بی جے پی رکن اسمبلی ورما جی کی عمارت کو غیر قانونی قرار دے کر بلڈوز سے روند دیا ۔ یہ مکان اس وقت تعمیر ہوا تھا جب موصوف بی جے پی کے لیے کام کرتے تھے لیکن اس وقت نہ انتظامیہ کی مجال تھی اور نہ اسے مسمار کرنے کے احکامات دئیے گئے تھے ۔روشن لال ورما نے یوگی کے سابق کابینی وزیر سوامی پرساد موریہ کے بعد بی جے پی چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اپنی جان بچانے کی خاطرآگے چل کر روشن لال ورما نے یوگی آدتیہ ناتھ کی تعریف بھی کی لیکن وہ ان کے کسی کام نہیں آسکی۔

روشن لال ورما تو صرف ایک رکن اسمبلی تھے لیکن جس دن ان کی شامت آئی اسی روز 4 بار کے ایم ایل اے اور یوگی حکومت میں کابینی وزیر رہ چکے دھرم سنگھ سینی کی دوکانوں پر بھی بلڈوزر کی کارروائی ہوئی ۔ سینی کا دعویٰ تھا کہ ان کے پاس تمام دستاویزات موجود تھے اس کے باوجود سہارنپور کی انتظامیہ نے ان کی کچھ دکانوں پر بلڈوزر چلا دیا ۔ اس بار دھرم سنگھ سینی نہ صرف سہارنپور کی نکوڑ اسمبلی حلقہ سے الیکشن ہار گئے بلکہ اب اپنی دوکانیں بھی گنوا دیں ۔ اس کو کہتے ہیں ڈبل انجن سرکار ڈبل دھماکہ سوامی پرساد موریہ کے ساتھ بی جے پی اور یوگی حکومت کا ساتھ چھوڑ نے والوں میں وہ بھی شامل تھے۔ باندہ کے اندر بی جے پی کو خیر باد کہہ کر ایس پی میں شامل ہونے والے سابق ایم ایل اے برجیش پرجاپتی کی کثیر المنزلہ عمارت پر بھی انتقاماً بلڈوزر چلایا گیا ۔ بریلی کے بھوج پورہ سے کامیاب ہونے والے ایس پی رکن اسمبلی شاہزالا سلام انصاری نے بی جے پی سے غداری نہیں کی تھی پھر بھی ان کے پٹرول پمپ کوبلڈوزرنےکچل دیا۔ اس کے بعد ان کے شادی خانہ اور کمپلیکس پر بھی نوٹس دیا گیا ۔ ایس پی کے ریاستی صدر نریش اتم پٹیل نے پارٹی کے رہنما اور سابق بلاک پرمکھ رام ناتھ یادو پر آگرہ میں غیر قانونی تعمیر کا الزام لگا کر انتظامیہ کی کارروائی کو سیاسی انتقام قرار دیا۔

اترپردیش میں حزب اختلاف کے رہنما اکھلیش یادو نے وزیر اعلی ٰیوگی آدتیہ ناتھ کو نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا تھا کہ پارٹی دیکھ کر قانونی اور غیر قانونی کا ضابطہ نافذ ہو گا؟ایس پی سربراہ کے ٹوئٹر پر شیئر کیے جانے والے ایک دلچسپ ا خباری تراشے میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ جب ایل ڈی اے کی ٹیم لکھنؤ کے جانکی پورم ایکسٹینشن میں نہر روڈ پر بغیر نقشے والی عمارت کو توڑنے پہنچی تو انہیں معلوم ہوا یہ تو بی جے پی کارکن کی ملکیت ہے۔ اس کے بعد ایل ڈی اے کی ٹیم بغیر کسی کارروائی کے واپس چلی گئی۔ اس خبر کے ساتھ اکھلیش نے سوال کیا عوام پوچھ رہے ہیں کہ ریاست بھر میں بی جے پی کے لوگوں کی ان گنت غیر قانونی تعمیرات پر بلڈوزر کیوں نہیں چل رہے ہیں؟ حالیہ کارروائی پر آر ایل ڈی سربراہ جینت چودھری نے کہا کہ بلڈوزر قانون کی حکمرانی کو نافذ نہیں کر رہا بلکہ ریاستی سرپرستی میں غنڈہ گردی کی علامت بن گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے لیکن اگر عوام غنڈوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور سونپ دیں تو ان کے مقدر میں غنڈہ گردی کے علاوہ اور کیا آسکتا ہے؟ عوام کو سوچنا پڑے گا کہ اگر یہ بلڈوزر عدلیہ کو منہدم کردے گا تو وہ انصاف کی گہار کہا ں جاکر لگائیں گے؟ ایسے میں ان کوکفِ افسوس ملتے ہوئے اعتراف کرنا پڑے گا کہ ؎
مظلوم کو دلائے جو ہر ظلم سے نجات
ایسی جہاں میں کوئی عدالت نہیں رہی


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1223360 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.