آخر ہم کب سمجھیں گے ؟

آخر ہم کب سمجھیں گے ؟

یہ ملک اس وقت شدید بحران کی نظر ہے۔ ہر طرف افراتفری، انارکی، لاقانونیت اور سیاسی شعبدہ بازی نظر آرہی ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں اپنا سیاسی منجن بیچ رہی ہیں موجودہ حکومت تمام تر ناکامیوں اور معاشی بدحالی کا ذمہ دار سابقہ حکومت پر ڈال کر خود کو تمام تر معاملات سے بری الذمہ ہونے کی ناکام کوشش کر رہی ہے ۔اگرچہ پی ڈی ایم کی تمام سیاسی جماعتیں پاکستان کی سیاسی تاریخ میں کئی دہائیوں سے سرگرم عمل ہیں مگر حیرت کی بات یہ ہے۔کہ ان تمام سیاسی جماعتوں کا طرز سیاست آج کے جدید دور میں بھی 80 اور 90 کی دہائی جیسا ہی ہے۔ اور یہی بات پاکستان تحریک انصاف کو سب سے منفرد بناتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر ، فیس بک، انسٹاگرام اور یوٹیوب جو موجودہ دور میں عوام میں بیانیہ بنانےاورپھیلانے کے سب سے موثر پلیٹ فارم ہیں پر مضبوط قدم جمائے رکھے ہیں۔جس کی وجہ سے ان تمام حالات میں پاکستان تحریک انصاف کا بیانیہ عوام میں زور پکڑ رہا ہے۔ ہر خاص و عام شخص یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ جب اقتصادی سروے کے مطابق معیشت کے تمام تر اشاریہ مثبت آرہے تھے تو حکومت کا تختہ الٹنے کی کیاضرورت تھی؟

ایسی حکومت جو ترقی یافتہ ممالک میں سرد جنگ کی وجہ سے مشکل ترین معاشی دور میں میں عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے بچائے جا رہی تھی اچانک اس کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے اور ایسے حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں جن کے پاس نہ تو عوامی اکثریت ہے اور نہ ہی کوئی معاشی منصوبہ ایسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے تمام دوست ممالک نے موجودہ حکومت کی مدد سے انکار کر دیا۔اور پاکستان کو آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کے آگے پھینک دیا اور یوں پاکستان آئی ایم ایف کی معاشی دلدل میں پھنستا چلا گیا،محض دو ماہ میں 83 روپے فی لیٹر پیٹرول اور بجلی کی قیمت بڑھانے کے بعد مہنگائی کی اتنی شدید لہر معیشت کو آجکڑا ہے کہ عام آدمی دہاڑی دار طبقہ اورتنخواہ دار طبقے کی کمر ٹوٹ چکی ہے پاکستان تحریک انصاف کے بیانیہ کے بعد عام آدمی بھی یہ سوال کر رہا ہے اگر روس سستا تیل دینے پر رضامند ہے تو روس کی حکومت سے رابطہ کیوں نہیں کیا جا رہا ؟ آخر پاکستان اپنے پڑوسی ملک بھارت کی طرح بیرونی پریشر کو نظر انداز کر کے اپنی عوام کو سستا تیل خرید کر ریلیف کیوں نہیں دے سکتا؟آخر کب تک ہم مغرب کے اثر و رسوخ میں رہ کر فیصلہ سازی کرتے رہیں گے؟ آخر کب تک ہماری خودمختاری اور آزاد خارجہ پالیسی پر سوالیہ نشان موجود رہے گا؟ آخر کب تک پاکستان کی خارجہ پالیسی اغیار کے اشاروں پر چلتی رہے گی؟ موجودہ حکومت کی غلامانہ ذہنیت معیشت کے لیے مزید مشکلات کھڑی کر رہی ہے۔موجودہ معاشی بحران میں عوام کے زخموں پر مرہم رکھنے کا واحد حل عام انتخابات کا انعقاد ہے۔تمام سیاسی جماعتوں کو عوام کے درمیان جا کر عوامی کثرت رائے سے منتخب ہونا ہوگا کیونکہ ایک مضبوط جمہوری اور خودمختار حکومت ہی عوام کی امنگوں پر پورا اتر سکتی ہے اگر اب بھی عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرتے ہوئے حقیقی اور قابل لوگوں کو منتخب کرکے اقتدار کے ایوانوں میں نہ لا سکے تو بحران اس ملک میں مزید شدت اختیار کر جائیں گے۔اگر تمام تر مثبت معاشی اشاریوں کے باوجود رجیم چینج اور معاشی بحران دیکھنے کے بعد بھی عوام صحیح اور غلط کا فیصلہ نہیں کر پاتی تو پھر آخر ہم کب سمجھیں گے ؟
 

Rizwan Firasat
About the Author: Rizwan Firasat Read More Articles by Rizwan Firasat: 4 Articles with 1438 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.