ریفائنڈ، سمندری یا پھر آئیوڈین ملا نمک... اچھی صحت کے لیے کونسا نمک اور کس مقدار میں کھانا چاہیے؟

image
 
نمک ہماری خوراک میں سوڈیم کا سب سے بنیادی ذریعہ ہے۔ ہمارے جسم کو بہت سے کاموں کے لیے سوڈیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ خلیے ٹھیک سے کام کرتے ہیں، جسم میں موجود الیکٹرولائٹس متوازن رہتے ہیں اور بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے یہ تمام کام سوڈیم کی وجہ سے ممکن ہو پاتے ہیں۔
 
سوڈیم ہمارے جسم کا ایک لازمی حصہ ہے تو پھر نمک کا کیا کام ہے؟ دراصل یہ کیا چیز ہے؟
 
ٹیبل سالٹ یا عام نمک ہمارے جسم کی ضرورت کے 90 فیصد سوڈیم کو پورا کرتا ہے۔ سائنسی زبان میں اسے سوڈیم کلورائیڈ بھی کہا جاتا ہے۔
 
عالمی ادارہ صحت، صحت مند لوگوں کو روزانہ پانچ گرام سے کم نمک کھانے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ تقریباً ایک چائے کے چمچ کے برابر ہے۔
 
لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں لوگ روزانہ 11 گرام تک نمک کھاتے ہیں جو کہ ڈبلیو ایچ او کے مشورے سے کہیں زیادہ ہے۔
 
زیادہ نمک کھانے کے کیا نقصانات ہیں؟
کسی بھی عمر میں زیادہ نمک کھانے سے آپ کا بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی خوراک میں بہت زیادہ نمک ہونے کے دیگر خطرات بھی ہیں۔
 
امراضِ قلب، گیسٹرک کینسر اور دماغ میں خون کی روانی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے یعنی دماغ کی کوئی رگ پھٹ سکتی ہے یا خون کے لوتھڑے یا بلڈ کلاٹس بن سکتے ہیں۔
 
لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خوراک میں نمک کی مقدار کم کرنے سے بلڈ پریشر کی سطح بہتر ہوتی ہے اور ان تمام بیماریوں کا خطرہ بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
 
image
 
کس قسم کے نمک میں سب سے کم سوڈیم ہوتا ہے؟
بازار میں نمک کی کئی اقسام دستیاب ہیں جن کا استعمال کھانے کو مزید ذائقہ دار بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔
 
نمک کی ان تمام اقسام میں سب سے صحت مند نمک وہ ہے جس میں سوڈیم کی مقدار کم سے کم ہو۔
 
دنیا کے الگ الگ حصوں میں نمک کی بہت سی اقسام ہیں جو نمک کی تیاری کے مختلف طریقوں، اس میں شامل اجزاء، رنگ اور ذائقہ پر منحصر ہے۔
 
ریفائنڈ نمک یا عام نمک سب سے زیادہ استعمال ہونے والے نمک میں سے ایک ہے۔ اس میں 97 سے 99 فیصد سوڈیم کلورائیڈ ہوتا ہے۔
 
یہ اتنا ریفائنڈ ہوتا ہے کہ اس میں کسی قسم کا صحت مند جز نہیں ہوتا۔ غذائی اجزاء کے لحاظ سے اسے اچھا نہیں کہا جا سکتا۔
 
مثال کے طور پر سمندری نمک لے لیں، یہ سمندر کے کھارے پانی کو بخارات بنا کر تیار کیا جاتا ہے یہ ریفائنڈ نہیں ہے اور اس میں زیادہ معدنیات ہوتے ہیں۔
 
اس کے علاوہ اس میں آئیوڈین بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جو کہ ہمارے جسم کے لیے اچھا ہے۔ سمندری نمک میں عام نمک سے 10فیصد کم سوڈیم ہوتا ہے۔
 
اسی طرح ہمالیہ سے نکالے گئے گلابی نمک میں بھی سوڈیم کم ہوتا ہے اور اس میں میگنیشیم اور پوٹاشیم جیسے اجزاء ہوتے ہیں۔
 
سیلٹک نمک یا سرمئی نمک میں بھی سوڈیم کم ہوتا ہے اور دیگر معدنیات اور نمکیات وافر مقدار میں ہوتے ہیں۔ یہ نمک اتنا قدرتی ہے کہ اس میں کوئی باہری چیز نہیں ملائی جاتی۔
 
image
 
کم سوڈیم والا نمک
مارکیٹ میں ہلکے نمک یا کم سوڈیم نمک کے نام سے نمک بھی فروخت ہوتا ہے جس میں سوڈیم کی مقدار پچاس فیصد کم ہوتی ہے۔
 
اس کے ساتھ پوٹاشیم سالٹ کے نام سے جو نمک دستیاب ہے اس میں سوڈیم نہیں ہے یا اگر موجود ہے تو یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
 
اس قسم کا نمک ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جنہیں زیادہ نمک کھانے کی عادت ہے۔
 
تاہم یہ نمک صرف ڈاکٹر کے مشورہ پر استعمال کرنا چاہیے.
 
یہ اس وقت کھایا جانا چاہیے جب آپکو کچھ مخصوص بیماریاں ہوں کیونکہ اسے کھانے سے آپ کی خوراک میں پوٹاشیم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
 
کیا کھانے کی میز سے نمک ہٹا لینا کافی ہے؟
زیادہ نمک کھانا صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ایسے میں اپنے لیے نمک کی قسم کا انتخاب کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس کی مقدار کو کنٹرول کیا جائے۔
 
یہ بھی ذہن میں رکھنے کی بات ہے کہ ہماری خوراک میں نمک صرف پکے ہوئے کھانے سے نہیں پہنچتا۔ بہت سی ایسی مصنوعات ہیں جن میں نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر یہ چیزیں ضرورت سے زیادہ کھائی جائیں تو یہ ہماری صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے، چاہے ہم نے روزمرہ کے کھانے میں نمک کی مقدار کم کر دی ہو۔
 
یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق ہماری خوراک میں سوڈیم کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ پیک کھانوں اور تیار شدہ کھانوں سے آتا ہے۔
 
image
 
ان چیزوں کی ایک بڑی مقدار تیار شدہ چٹنی اور سویا بین کی چٹنی ہے، جن میں نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اور پہلے سے پکایا ہوا سوپ، کھانوں، نمکین گوشت، ساسیجز، نمکین مچھلیوں اور پریزرو یعنی محفوظ کیے جانے والے کھانوں میں بھی نمک بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ہمیں نمکین کھانے کی اشیاء جیسے چپس، تلی ہوئی گری دار میوے اور پاپ کارن کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔
 
ہمیں ایسی مصنوعات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے جن میں ذائقہ بڑھانے کے لیے مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
 
ذائقہ پر سمجھوتہ کیے بغیر نمک کو کیسے کم کیا جائے؟
نمک سے متعلق ان تمام چیزوں کو جاننے کے بعد ہم اپنی خوراک میں نمک کی مقدار کو کم کرنے کے لیے یہ طریقے اپنا سکتے ہیں۔
 
پہلے سے پیک شدہ کھانوں اور ساسیجز سے پرہیز کریں
نمکین سنیکس کھانے کے بجائے ایسے سنیکس کھائیں جس میں نمک نہ ہو جیسے قدرتی گری دار میوے، پھل، سویا بین کی پھلیاں اور گھر میں بنا ہوا ہمس وغیرہ۔
 
image
 
پیک شدہ کھانے کی اشیاء کے اجزاء کو احتیاط سے دیکھیں جن میں نمک اور مونوسوڈیم گلوٹامیٹ ہو انہیں نہ کھائیں۔
 
کھانے میں نمک کی بجائے مسالہ جات اور خوشبودار جڑی بوٹیاں شامل کریں جس سے کھانے کا ذائقہ بڑھے گا۔
 
کھانا پکانے کے طریقوں جیسے ابالنے سمیت دیگر طریقے اپنائیں جیسے بھاپ میں کھانا پکانا اور بیکِنگ کرنے سے کھانے کا ذائقہ برقرار رہتا ہے ہیں۔ اس صورت میں کھانے میں بہت زیادہ نمک شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.
 
لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سوڈیم کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
 
اپنی غذا سے ٹیبل نمک یا زیادہ نمکین اشیا کو ختم کرنا ممکن ہے۔ کیونکہ روٹی اور پنیر جیسی بہت سی مصنوعات ہیں جن کو بناتے وقت نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔
 
تاہم طبی مشورہ کے بغیر خوراک میں بہت کم نمک یا سوڈیم لینا آپ کی صحت پر مضر اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔
 
مثال کے طور پر یہ نیند کے مسائل، سوڈیم کی کمی اور گردے کی پتھری بننے کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔
 
اس کی وجہ سے آپ کی خوراک میں نمک کی مقدار کو کم کرنا چاہیے اور ایسی چیزیں کھانے سے گریز کرنا چاہیے جن میں نمک کی زیادتی ہو۔
 
لیکن طبی مشورہ کے بغیر نمک کو اپنی خوراک سے نہیں نکالنا چاہیے۔
 
یہ آرٹیکل اصل میں 'دی کنزرویشن' پر شائع ہوا تھا اور یہاں کرییٹئو کامن لائسنس کے تحت شائع کیا گیا ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: