میں نے برسوں بعد اسے دوبارہ کھانا شروع کردیا… اس پرانی روٹی میں ایسی کیا خاص بات ہے جو لوگ اسے پھر سے بنانے اور کھانے لگے؟

image
 
مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب بھی شمالی انڈین ریاست اتر پردیش میں واقع اپنے آبائی گھر میں جانا ہوتا تو مجھے اکثر اپنی دادی جوار اور باجرے کی بنی روٹی کھاتی نظر آتی تھیں۔
 
میری دادی پانی میں آٹا گوندھ کر اپنے ہاتھوں سے ایک بڑا سا گول پیڑا بناتیں اور پھر اسے لکڑیوں کی آگ جلا کر چولہے پر پکا لیتی تھیں۔ جب کبھی وہ مجھے یہ روٹی کھانے کو دیتی تھیں تو میں ناک بھوں چڑھا دیتی تھی۔ اس وقت یہ بات سمجھنا میرے لیے مشکل تھا کہ آخر پتلی، نرم اور زیادہ مزیدار گندم کی روٹی پر وہ جوار اور باجرے کی موٹی روٹی کو کیوں ترجیح دیتی ہیں۔
 
مگر چند سال قبل میں نے اپنی دادی کے کھانے کو اپنا لیا۔
 
میں نے اس وقت اپنے کچن سے گندم کا آٹا نکال دیا جب میں نے ایک رپورٹ میں پڑھا کہ باجرہ زیادہ صحت مند غذا ہے۔ اگرچہ باجرے کی روٹی چبانا تھوڑا مشکل ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ اس کے استعمال سے میری صحت بہتر ہوئی ہے۔
 
یہ سوچ صرف میری ہی نہیں بلکہ حالیہ برسوں میں ماہرین زراعت کے مطابق کئی پرانی خوراکیں اب کھیتوں اور کھلیانوں کے ذریعے ہمارے دسترخوانوں تک واپس آ رہی ہیں، وہی پرانی خوراکیں جو ہمارے گھروں سے غائب ہو چکی تھیں۔
 
بین الاقوامی ادارے انٹرنیشنل کراپ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر جیکولین ہیوز کہتی ہیں کہ کافی عرصے سے باقاعدہ کوشش کی جا رہی ہے کہ ’ملیٹس‘ یعنی جنسِ چینا سے تعلق رکھنے والے دانوں باجرے اور جوار کی بطور خوراک واپسی کو ممکن بنایا جائے۔
 
2023: چینا کا سال
انڈیا میں سنہ 2018 جوار، باجرے اور اسی طرح کے دانوں والی اجناس کے سال کے طور پر منایا گیا اور مارچ میں اقوام متحدہ نے انڈیا کی سنہ 2023 کو چینا کا سال بین الاقوامی طور پر منانے کی تجویز کو قبول کیا ہے۔
 
رپورٹس کے مطابق 2023 میں اس سال کو منانے ان اجناس کی کاشت اور طبی فوائد کو اجاگر کرنے میں مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ باجرے اور جوار کو خراب مٹی اور کیڑے مار ادویات کی عدم موجودگی میں بھی کامیابی سے اُگایا جا سکتا ہے۔ ان کی یہی خصوصیات انھیں ایک ایسے وقت میں اہمیت دیتی ہیں جب دنیا کو بڑے پیمانے پر ماحولیاتی تبدیلی کا سامنا ہے۔
 
image
 
ڈاکٹر ہیوز کہتی ہیں کہ باجرے اور جوار کو ’سمارٹ فوڈ‘ کا درجہ حاصل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ ’یہ کرہ ارض، کسان اور آپ کے لیے فائدہ مند ہیں۔‘
 
’انھیں کم پانی درکار ہوتا ہے اور یہ انتہائی گرم موسم میں کاشت کیے جا سکتے ہیں۔ کسانوں کے لیے اچھی بات یہ ہے کہ ان پر کئی مہلک فصلی بیماریاں اثر انداز نہیں ہوتیں۔ انسانوں کے لیے مفید بات یہ ہے کہ یہ غذائیت سے بھرپور ہوتی ہیں۔ یہ ناصرف ذیابیطس کم کرنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ کیلشیئم، زنک اور آئرن کی کمی بھی پوری کرتے ہیں اور کولیسٹرول کے مریضوں کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ گلوٹین سے بھی پاک ہوتے ہیں۔‘
 
شاید یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں ماہرین صحت بھی باجرے اور جوار میں دلچسپی لے رہے ہیں کیوں کہ انڈیا میں تقریباً آٹھ کروڑ افراد ذیابیطس کا شکار ہیں، ہر سال ایک کروڑ 70 لاکھ لوگ دل کی بیماریوں کے سبب جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور 30 لاکھ بچے غذا کی قلت کا شکار ہیں۔
 
انڈیا میں غذائی قلت کے خاتمے کا انقلاب
انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک سے غذائی قلت کے خاتمے کے لیے جوار باجرے کے انقلاب کا نعرہ لگایا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسا ہونا ممکن ہے کیونکہ صدیوں تک یہ دانے (جوار، باجرہ) انڈیا کے باسیوں کی غذا کا اہم جزو رہے ہیں۔
 
انڈین انسٹیٹیوٹ آف ملیٹ ریسرچ کے ڈائریکٹر ولاس توناپی کہتے ہیں کہ باجرہ اور جوار دنیا کے قدیم ترین اناج ہیں۔ ’وادی سندھ کی قدیم تہذیب میں تین ہزار سال قبل از مسیح میں ان کی کاشت ہوتی تھی۔ انڈیا میں یہ 21 ریاستوں میں اگائے جاتے ہیں اور ان کی کئی اقسام ہیں جو خوراک کے ساتھ ساتھ مذہبی رسومات کا بھی حصہ ہیں۔‘
 
اس وقت انڈیا دنیا میں باجرہ کاشت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے جہاں سالانہ تقریباً ایک کروڑ 60 لاکھ ٹن باجرہ اُگایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ولاس توناپی کے مطابق گذشتہ 50 برسوں میں اس کی کاشت کا رقبہ تین کروڑ 80 لاکھ ہیکٹر سے کم ہو کر ایک کروڑ 30 لاکھ ہیکٹر ہو چکا ہے، جبکہ 1960 میں باجرے کا خوراک میں تقریباً 20 فیصد حصہ تھا جو کم ہو کر اب صرف چھ فیصد پر آ چکا ہے۔ اس رجحان کا آغاز ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں ہوا۔
 
ڈاکٹر توناپی کے مطابق ’اس وقت تک انڈیا کا خوراک کے لیے بین الاقوامی امداد پر انحصار تھا۔ لیکن پھر ملک سے بھوک کے خاتمے اور خوراک کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس وقت حکومت نے سبز انقلاب کے تحت زیادہ پیداوار والی گندم اور چاول متعارف کروائے۔‘
 
image
 
سنہ 1960 سے 2015 تک انڈیا میں گندم کی پیداوار میں تین گنا اور چاول کی پیداوار میں 800 فیصد اضافہ ہوا۔ اس دوران باجرے کی پیداوار میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔
 
ڈاکٹر ہیوز جنھوں نے رواں سال ’بھولی ہوئی خوراکوں‘ کے عالمی منشور کو بنانے میں حصہ لیا، کہتی ہیں کہ ’چاول اور گندم کی پیداوار پر زور سے باجرے کی کاشت متاثر ہوئی اور آہستہ آہستہ کئی روایتی کھانے بھلا دیے گئے۔‘
 
’کیونکہ ملیٹس کو آج کی تیز رفتار دنیا کے حساب سے پکانا مشکل ہے اور ان کا ذائقہ بھی مختلف ہے، اس لیے یہ کئی دہائیوں سے نظر انداز ہو رہے ہیں لیکن ہماری کھانے کی پلیٹ میں تنوع ہونا نہایت ضروری ہے۔‘
 
’اب ملیٹس کو ہماری توجہ درکار ہے‘
ایسا کرنے کے لیے بھلائی جانے والی خوراک کو بھی اتنی ہی توجہ دینی ہو گی جتنی ایک وقت میں گندم اور چاول کو دی گئی۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ کسی حد تک اس کا آغاز ہو چکا ہے۔
 
ڈاکٹر توناپی کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں کاشت کی نئی حکمت عملی سامنے آنے کے بعد انڈیا میں باجرے کی مانگ میں 146 فیصد اضافہ ہوا ہے دوسری طرف مارکیٹ میں باجرے کے بنے بسکٹ، چپس اور کھانے کی دوسری اشیا بھی سامنے آنی شروع ہو چکی ہیں۔
 
سرکاری سطح پر حکومت لاکھوں افراد کو باجرہ اور جوار ایک روپیہ فی کلو کے ریٹ پر فراہم کر رہی ہے جبکہ چند ریاستیں تو سکول میں بچوں کو کھانا فراہم کرنے کے پروگرام کے تحت جوار، باجرے کی تیار خوراکیں بھی مہیا کر رہی ہیں۔
 
تلنگانہ ریاست کے شمالی اضلاع میں قبائلی برادری کے لیے ان اجناس میں نئی پیدا ہونے والی دلچسپی کسی نعمت سے کم نہیں۔ پی آئلا کا شمار آصف آباد کی دس خواتین کے اس گروہ میں ہوتا ہے جن کو ایک بین الاقوامی ادارے اکریسیٹ نے ملیٹس کے بنے کھانے بچوں کے لیے تیار کرنے کی ٹریننگ فراہم کی۔
 
اپنے دور دراز گاؤں سے فون پر مجھ سے بات کرتے ہوئے پی آئلا نے ان کھانوں میں استعمال ہونے والے مصالحوں اور دیگر اشیا کے نام گنوائے اور بتایا کہ اگست میں ہی اُنھوں نے جوار سے میٹھے اور چٹ پٹے پکوان بنا کر مجموعی طور پر تقریباً 12 ٹن کھانے فروخت کیے۔
 
پی آئلا کو ابھی تک یہ بات سمجھ نہیں آ سکی کہ اس سادے سے اناج میں لوگ ایک بار پھر اتنی دلچسپی کیوں لے رہے ہیں جسے وہ ساری زندگی خود بھی کھاتی رہی ہیں لیکن اُنھیں اس بات کی بہت خوشی ہے کہ جوار ایک بار پھر عام ہوتی جا رہی ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: