سقوط ڈھاکہ

وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
مولانا ابوالکلام آزاد فرما تے ہیں تاریخ اسلام میں خون عثمان سے نفاق کی لکیر کھینچی گئی۔ اسی طرح تاریخ پاکستان میں لسانیت کو بنیاد بنا کر فتنہ وفساد برپا کیا گیا جس کی ایک تصویر سقوط ڈھاکہ ہے۔ جسے بنگالی قوم مکتی جدھو اور بنگلہ دیشی جنگ آزادی سے تصور کرتی ہے۔
John charchil جان چرچل کا قول ہے۔
آپ ماضی سے جتنا واقف ہو گئے اتنا ہی بہتر مستقبل کی تیاری کر سکیں گے۔ جب حاکم اقتدار کے نشے میں مست ہو جائے اور عوام کو محرومیوں کے اندھیرے میں چھوڑ کر عیاشیوں کی روشنیوں میں کھو جائے تو ابتلاء آتا ہے۔ قوم پر اجتماعی آزمائش بھی آتی ہے۔ جب ظلم عام ہو جائے پھر گیہوں کے ساتھ گھن بھی پستا ہے۔
جیسے اللّٰہ نے فرمایا
واتقوا فتنہ لا تصیبن الذین ظلموا خاصتہ
اور ڈرو اس فتنے سے جو صرف خصوصاً انہی کو ا بتلائے مصیبت نہیں کرے گا جنہوں نے ظلم کیا
(بلکہ
جنہوں نے باوجود استطاعت اس کے آگے بندنہیں باندھا ان پر بھی ہوگا)
سقوط ڈھاکہ کوئی عام واقعہ نہیں۔ بیسویں صدی میں پوری دنیا اور امت مسلمہ کے لئے ایک اندوہناک واقعہ ہے۔ جس میں ترانوے ہزار فوجی جوانان ملت پاکستان نے سپاہی سے لے کر جنرل تک سب نے ہتھیار ڈال لئے ۔یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہتھیار ڈالنے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اور یہ وہ افسوسناک واقعہ ہے جن میں پوری دنیائے اسلام کی رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑی ریاست "ریاست اسلامی جمہوریہ پاکستان" دو لخت ہو گئی۔ اور بقول اندرا گاندھی کے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہو گیا۔
حوصلے وہ نام رہے ہم نہ رہے، دل نہ رہا
گھر یہ اُجڑا ہے کہ تو رونق محفل نہ رہا۔
قدرت اللہ شہاب اس سقوط کی بڑی وجہ تحریک بنگالی زبان کو دیتے ہیں۔ جو اسی وقت معرض وجود میں آگئی تھی جب محمد علی جناح نے کہا تھا
Only urdu shall be language of the state and no other language. Anyone who try to mislead you is enemy of pakistan.
بنگالی لیڈروں نے کانگرس کی آشرباد سے لسانیت کے مسئلے کو مزید اجاگر کیا۔ بنگالی 56 فیصد لوگوں کی مادری زبان تھی جن کے دلوں میں اردو کے لئے نفرت کے شعلے بھڑکائے گئے۔ سونے پر سہاگہ یحییٰ خان کی مطلق العنان حکومت نے عوام کی محرومیوں میں اضافہ کیا۔ بنگال سے تعلق رکھنے والے تین وزرائے اعظم سے تخت اقتدار چھینا گیا۔
پہلے سکندر مرزا اور محمد علی بوگرہ کی کلونیئل ذہنیت نے دونوں بازؤں میں توازن قائم نہ رکھا۔ عوام کا آئین و جمہوریت سے رشتہ منسلک نہ رہ سکا۔ خواجہ ناظم الدین کی حکومت ختم کی گئی اور دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر بنگالیوں کو مایوس کیا۔ صوبائی خودمختاری قائم ہی نہ کی گئی اور بنگال کا معاشی استحصال کیا گیا۔
پھر کیا تھا؟
" منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک۔
امت احمد مرسل اخوت سے گریزاں ہوئی۔ شہید سہروردی اور اے کے فضل الحق سے سیاسی انتقام لیا گیا۔ صوبائیت کی لعنت نے ملک نگل لیا اور حاکم یحییٰ خان اقتدار کو شراب کہن سمجھ کر پیتا رہا ۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
وہ قومِ ہند جس کو وجود پاکستان ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا اول یوم سے شیطانی مجلس شوریٰ میں طاغوتی سازشیں کرنے لگی۔ شیطان کی مجلس شوریٰ میں قوم محمد میں دراڑ ڈالنے کا منصوبہ بنایا گیا۔
اس سانحہ سقوط کے کردر یحییٰ خان ، بھٹو ،شیخ مجیب اور اندرا گاندھی تھی ۔
کتاب "میں نے ڈھاکہ ڈوبتا دیکھا" میں لکھا ہے کہ اندرا گاندھی جی نے بہت پہلے R.k radev کے ساتھ خفیہ پلان بنایا جسے Mission and Deblew یا قایو پلان کہا جاتا ہے۔اس کا مقصد پاکستان کی سالمیت اور استحکام کو توڑنا تھا۔
حسینہ واجد نے اپنی کتاب جو آکسفورڈ سے شائع ہوئی میں انکشاف کیا ہے کہ شیخ مجیب الرحمٰن راء سے خفیہ 25 ہزار روپے تنخوہ لیتا تھا۔ اس کی خفیہ تنظیم تھی جو الگ ریاست کے قیام کے لیے کام کرتی تھی۔
وہ غلامانِ صنم کدہ جو ہماری ہیبت سے سہمے رہتے تھے۔ انہیں کی تیغ زنی نے ہم سر بکف پھرنے والوں میں دراڑ ڈالی۔ 1965 پاک و ہندو جنگ کی شکست کا بدلہ 1971 میں لیا گیا۔
انھیں معلوم تھا اگر دونوں طرف سے دشمن باطل کو مٹانے کے لئے مستعد ہوا تو ہندوستان کا نام صرف تاریخ کے کتابوں میں ملے گا۔
یہ وہی قوم ہے جو مئے توحید لے کر صفت جام پھرتی ہے۔ جس نے ایران کے بت کدہ کو پاش پاش کر دیا تھا۔
عام تاثر ہے کہ بھٹو کے جارحانہ رویہ پاکستان ٹوٹنے کی وجہ بنا مگر اصل قصور وار شراب نوش یحییٰ خان تھا۔

جو چاہے سو آپ کرے
ہم کو عبس بدنام کیا
یحییٰ پرامن انتقال اقتدار پر راضی نہ تھاWar till victory کا نعرہ لگایا۔ بھٹو کے جملے "جو ڈھاکہ گیا ٹانگیں توڑ دونگا" " اقتدار نہ ملا تو خیبر سے کراچی تک طوفان برپا کردونگا۔ اپوزیشن میں نہیں بیٹھوں گا۔ عام طور پر مشہور ر ہے۔ سچ ہے ادھر تم دھر ہم کا نعرہ بھی بھٹو نے لگا یامگریہ یہ شیخ تھا جس نے الگ کرسی اور فوج اور صوبائی حاکمیت کے لئے 6 نکات پیش کیے تھے۔ جن میں سے 5 بھٹو صاحب مان گئے تھے آگر تب مان لیتے تو پھر ملک کے دو نھیں 12 ٹکڑے ہونے کی ریت چل پڑتی۔ ہر کوئی ایک صوبے میں الیکشن جیتتا اور الگ فوج اور کرنسی کا مطالبہ کر لیتا۔
بھٹو نے کہا Pakistan is indivisible and shall remain one.
سیاسی گرمی عروج پر پہنچی تو بنگال میں غیر بنگالی نظر آنے والوں کا ایک ہفتہ میں قتل عام کیا گیا۔ حالات تلخ ہوئے تو شیخ مجیب نے سول نافرمانی شروع کی پھر اس کو غدار قرار دے کر زنداں کے حوالے کر دیا اور تمام سیاسی سرگرمیاں بند کرنے کا شاہی فرمان جاری ہوا۔
سہروردی گراؤنڈ جہاں شیخ آزاد بنگال کا اعلان کرنا تھا۔ بنگلہ دیش کا قومی ترانہ لگا یا گیا۔
قومِ اقبال آپس میں پس پیکار ہوئی
اور اللہ کے نام پر اٹھنے والی شمشیریں اپنے بھائیوں کے خون سے نہلائی گئیں
وہ مجاھد جن کے سینوں نے طاغوتی توپوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننا تھا سازش ہندوستان کے سبب آ ج امت یزداں کے خون کے پیاسے ہوئے۔
آخر کار جنرل نیازی نے اپنے ترانوے ہزار جرنلوں، کرنلو اور سپاہ اسلام کے ساتھ ہتھیار ڈال دیئے۔
عہد ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن
اڑ گئے ڈالیوں سے زمزہ پرداز چمن۔
ایک بلبل ہے کہ محوِ ترنم اب تک
اس کے سینے میں نغموں کا تلاطم اب تک
اور وہ بلبل اخوت تھے جماعت اسلامی
کے درویش جو پآکستان سے عشق کی سزا میں آج بھی حسینہ وآجد کا عتاب جھیل رہے ہیں
آج بھی متحدہ پاکستان پر نثار ہو کر تختہ دار کو چوم رہے ہیں اور شہادتوں کے جآم پی رہے ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا۔ "روسیوں، بھارتیوں تم پاکستان کو ختم نہیں کر سکتے"۔ اس نے دوبارہ متحد ہونے کا قوم کو یقین دلایا اور ہر ایوانِ اقوام کا دروازہ کھٹکھٹایا تا کہ Reconciliation ہو سکے۔ اس ملت کا شیرازہ دوبارہ چن چن کر اکھٹا جوڑ سکے جو اغیار نے بکھیرے دیا تھا۔ دوسری طرف شیخ مجیب لندن میں آزاد بنگلہ دیش کا اعلان کر کہ سیدھا بنگلہ دیش آنے کی بجائے اپنے صنم خانہ انڈیا میں آقاؤں کو سلامی دینے گیا۔ اندرا گاندھی نے بھی فتح کا جشن منایا مگر
قبر اقبال سے آ رہی تھی صدا
یہ چمن مجھ کو آدھا گوارہ نہیں۔
 

Hafsa Saqi
About the Author: Hafsa Saqi Read More Articles by Hafsa Saqi: 49 Articles with 43495 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.