چور اور فرشتے

آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا یا چولہے سے نکال کر تندور میں ڈال دیا والی مثال دور حاضر میں اگر کسی قوم اور ملک پر صادق آتی ہے تو ہم ہیں اورہمارا پاکستان ہے لٹتے ہیں پھر چلتے ہیں پھر لٹتے ہیں پھر چلتے ہیں نہ چور تھک رہے نہ قافلہ،رنگ باز ساتھ ساتھ چل رہے ،کچھ کے ہاتھ میں کئی بار قافلے کمان بھی دے دی گئی کچھ زبردستی بھی قابض ہوئے مگر ہر ایک اپنے مطلب کا مال واسباب لوٹ کر الگ ہو گیالٹا پھٹا قافلہ ستر سال سے جانب منزل روا ں دواں ہے کئی بار منزل قریب آئی مگر اوپر سے نئی افتاد نے آن لیا ،یوں راستہ جو سیدھا تھا دائئر ے کی صورت اختیار کر گیا چل چل کر جب نڈھال ہو کر دائیں بائیں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے ،مگر سار ا قصور غارت گروں کا نہیں ہمارا بھی ہے ہم نے اکثر انہی عطار کے لونڈوں سے دوا لینا شروع کر دی جن کے ہاتھ سے ہم بیمار ہوئے ، تو کیا یہ سب ہمارا مقدر ہے نہیں ہر گز نہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جا سکتاہم ایک دو بار نہیں بلکہ بار بار اسی سوراخ سے ڈسے جاتے رہے اور پھر اپنا پاؤں بھی آگے دھرتے رہے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم شاید وہ مومن ہی نہیں ،ستر سالوں سے بھٹکتی قوم کے ساتھ نت نئے کھلواڑ نت نئے تجربے نت نئے ساہو کار اور نئے شعبدہ باز ہر دفعہ نیا نعرہ لیکر میدان میں اترے کبھی ہمیں روٹی کپڑے اور مکان کے پیچھے لگایا کبھی اسلام کو آڑ بنایا کبھی قرض اتاروملک سنوارووالے آئے تو کبھی بڑھے گا پنجاب پڑھے گا پنجاب،کبھی بے نظیر و بے مثال انکم اسپورٹس پروگرام کبھی تین مرلہ گھر ،کبھی پیلی ٹیکسی تو کبھی بدلے گا کسان بدلے گا پاکستان ،ہر بار نئے سے نیا پرفریب نعرہ مگر انجام کار دھوکا اور دو نمبری،خلق خدا دعائیں کر کر کے تھک چکی تو ایک نیا مسیحا کرکٹ کی دنیا سے آ نمو دار ہوا ، اب کھل رہا ہے کہ موصوف نے کرکٹ سے اور تو کچھ سیکھا نہ سیکھا گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا اس نے خوب سیکھ رکھا تھا ،قوم جو نہ جانے کتنے مارشل لاؤں کو بھی مقدر اور قسمت کا لکھا سمجھ کر مٹھائیاں کھا اور کھلا چکی تھی اسے دیکھتے ہی نہال ہو گئی اسے لگا کہ کوئی اوتار آ گیا نعرے اور لارے اتنے پرفریب تھے کہ لگتا تھا کہ اب ملک جنت نظیر بنا کہ بنا، تقریر ہمیشہ ایاک نعبدو و ایاکنستعین سے شروع کرتا اس سے آگے نہ جانے کیوں نہیں پڑھتا، پڑھنا جانتا نہیں یا جان بوجھ ایک ہی لفظ یاد کر رکھا ہے دعوے جتنے پر فریب تھے تعداد ان کی اس سے بھی زیادہ تھی،ہالینڈ کے وزیر اعظم کا سائیکل پر دفتر جانے سے شروع ہوا ،امیر غریب کے لیے ایک ہی نظا م انصاف وہ بھی چند دنوں میں ،کرپٹ لوگوں کو چن چن کر لٹکاؤں گا ،کسی کو نہیں چھوڑوں گا ،ریاست کو خواص کے ساتھ عوام کی بھی ماں بناؤں گاپچاس لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکری کی تو فکر ہی نہ کریں ،ہسپتال اور دوائیں وی آئی پیز کی طرح ہر کسی کو میسر ہوں گی ،ٹیکس صرف امرا ء سے لیا جائے گا اور غرباپر خرچ کیا جائے گا ،عدالت ایک ہفتے میں فیصلہ دے گی ،کسی کی زمین دکان مکان اور گھر پر کوئی اچکا قبضہ نہیں کر سکے گا،تاریخ کی سب سے چھوٹی کابینہ رکھوں گا امریکہ میں سات آٹھ سیکریٹری سارا نطام چلا سکتے ہیں یہاں کیوں نہیں ،رائٹ مین فار رائٹ جاب کا اصول سب سے پہلے لاگوہو گا ،اپنے مفادات کو پس پشت رکھوں گا ،کوئی عزیز دوست کسی حکومتی عہدے پر نظر نہیں آئے گا ،وزراء عوام کے خادم ہو ں گے وزیر اعظم ہاؤس یونیورسٹی بنے گا گورنر ہائسز پر بلڈوزرز پھریں گے ،وی آٗی پی کلچر ختم ہو گا کوئی ریڈ زون ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گا،روزانہ پارلیمنٹ میں آؤں گا ،بیرونی دورے بغیر کسی مجبوری کے ہر گز نہیں کروں گا،قانون پر عمل کروں گا اگر کوئی دورہ کرنا پڑا بھی تو کم سے کم افراد ساتھ لیکر جاؤں گا اپنا کوئی عزیز رشتہ دار دوست ساتھ لیکر جانے کا تو سوال ہی پید انہیں ہو گا،بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتیں کبھی بھی نہیں بڑھنے دوں گا ،جو ٹیکس ان قیمتوں پر لیا جا رہا سب معاف کروں گا پی ٹی وی کی فیس بجلی کے بلوں سے ختم کر دوں گا کہ اب پی ٹی وی دیکھتا کون ہے مہنگائی بڑھانے والے وزیر اعظم چو ر ہوتے ہیں ،مہنگائی ہمیشہ تب ہی بڑھتی جب اوپر چور بیٹھا ہوتاہے یہ سارے نعرے دعوے اور لارے اتنے پر فریب تھے کہ پاکستان کے باسی حیران و ششدر رہ گئے کہ ایسا ہیر اپہلے کہاں تھا ہو نہ ہو اسے اک موقع ضرور دینا چاہئیے بہت سوں کی طرح ہم بھی تبدیلی تبدیلی کرتے نئے پاکستان کی رتھ پر سوار ہو گئے اور عام کارکنان سے دو ہاتھ آگے بڑھ کر گھر گھر جا کر انصاف کی رکنیت سازی شروع کر دی اس کے علاوہ مختلف تقریبات میں تقاریر کر کے لوگوں کو تبدیلی پر اکسانا شروع کر دیا مگر اند ر جاتے ہی پتہ چلا کہ یہ سب ملمع کاری ہے اندر کچھ اور باہر کچھ ہے یہ تبدیلی نرا ڈھونگ ہے یہ کرپٹ لوگوں کو چن چن کر لٹکانے کی بجائے چن چن کر ساتھ ملایا جا رہا ہے یہ وہ تباہی کریں گے جو کسی نے دیکھی نہ سنی کیوں کہ نا تجربہ کار بھی ہیں اور نا اہل بھی اوپر سے سارا پرانا کچرا بھی ساتھ ملائے جا رہے ہیں ، اسی لیے فور ا ہی توبہ کر لی اور پھر وقت نے ثابت کیا اور الحمداﷲ ہمیں اپنے فیصلے پر ندامت نہ ہوئی مگر اگر قوم کی جان بچ جاتی اور ہمیں ندامت اور پشیمانی اٹھانا بھی پڑتی تو وہ اس سے کہیں نفعے کا سودا تھا مگر ان کے سبز وعدوں پر یقین کر کے قوم نے ان کا ساتھ دیا کچھ مقتدر حلقوں نے بھی نیا خون آزمانے کا فیصلہ کیا اور اقتدار کا ہما ان کے سر پر بٹھا دیا،جنہوں نے کبھی دکان نہیں چلائی تھی پورا پاکستان ان کے حوالے کر دیا گیا،نئے اور نا تجربہ کارلوگوں نے ملک کو لیبارٹری سمجھ کر اس پر اپنے تجربے کرنا شروع کر دیئے ،سب سے پہلے اسد عمر کو وزیر خزانہ لگایا گیا کہ موصوف فرما چکے تھے کہ گیس کا تو بل ہونا ہی نہیں چاہیئے پٹرول پینتالیس کا اور بجلی پانچ روپے یونٹ ہونی چاہیئے پاکستان اسٹیل ملز چلا کر دکھاؤں گا پھر کیا ہوا سب نے دیکھا یکے بعد دیکرے وزیر خزانہ بدلے گئے ایک طرف پہلے والے کھا گئے چور تھے دوسری طرف انہی کے وزرائے خزانہ کو خزانے کی وزارت دی گئی مگر یہ گاڑی چل نہ سکی کہ وزیر اعظم صاحب خود کنٹینر پہ بیٹھ کر فرما چکے کہ کھلاڑٰ ی کی پرفارمنس میں کپتا ن کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے اپنا ایک ایک وعدہ یوں توڑا کہ کہ خلق خدا منہ میں انگلیاں دبا کے رہ گئی کہ کیا یہ وہی نیازی صاحب ہیں جو کنٹینر سے گھنٹوں بھاشن دیا کرتے تھے ،کدھر گئے وہ پچاس لاکھ گھر وہ یک کروڑ نوکری وہ بلڈوزرز جو گورنر ہاؤسز پر چلنا تھے وہ یونیورسٹی جو پی ایم ہاؤس میں بننا تھی ،نجانے وہ سائیکل کدھر گئی جس پر صاحب نے دفتر جانا تھا شاید اسی کو پر لگا کر ہیلی کاپٹر بنا دیا گیا کابینہ کے سائز کا حال یہ ہے کہ پورے لوگوں کے نام بھی وزیر اعظم کو یاد نہیں ،بیرونی دورے اور جہاز بھر بھر کے دوست ساتھ، وزارتوں میں بھی دوست شامل کرپٹ لوگوں کی سزا محض وزارت کی تبدیلی ایک سے ایک بڑا اسکینڈل کسی چور سے دھیلا بھی برآمد نہ کروا سکے سوائے بڑھکوں کے ،اوپر سے مہنگائی ہے جو عفریت کی شکل اختیار کر چکی خلق خدا گھر کا سامان بیچتے بیچتے بچے بیچنے پر آ چکی مگر اللے تللے ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ایک کلو گھی مزدور کی آدھی دیہاڑی کے برابر آٹاچینی گھی ایل پی جی بجلی گیس کے نرخوں نے عام آدمی کو نفسیاتی مریض بنا کر رکھ دیااوپر سے سب سے پہلے آپ نے گھبرانانہیں کی پخ لگا کر زخموں پر نمک چھڑکا جا تا ہے محض آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے بجلی اور گیس کے نرخ عربی گھوڑے کی طرح دوڑے جا رہے ہیں لوگ حیران و پریشان اپنے اس کپتان کو تلاش کر رہے ہیں جو کنٹینر پہ کھڑے ہو کر وعظ و نصیحت کرتا تھا کہ مہنگائی بڑھے تو سمجھنا وزیر اعظم چور ہے آپ کے حکمران چور ہیں اب کیا سمجھا جائے عوام تو اس بات پر بھی حیران ہیں کہ اگر یہ فرشتے ہیں تو وہ کیسے چور تھے کہ ملک میں خوشھالی اور عا م آدمی کی زندگی آسان تھی ترقیاتی منصوبے اور سی پیک جیسا گیم چینجر منصوبہ بھی زور و شور سے جاری تھا کہ اوپر سے تبدیلی آ گئی ا ور پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی ہماری توحالت اب یہ ہو چکی کہ آسمان سے گرا کھجور میں اٹکا یا چولہے سے نکال کر تندور میں ڈال دیا والی مثال دور حاضر میں اگر کسی قوم اور ملک پر صادق آتی ہے تو ہم ہیں اورہمارا پاکستان ہے لٹتے ہیں پھر چلتے ہیں پھر لٹتے ہیں پھر چلتے ہیں نہ چور تھک رہے نہ قافلہ،رنگ باز ساتھ ساتھ چل رہے ،کچھ کے ہاتھ میں کئی بار قافلے کمان بھی دے دی گئی کچھ زبردستی بھی قابض ہوئے مگر ہر ایک اپنے مطلب کا مال واسباب لوٹ کر الگ ہو گیالٹا پھٹا قافلہ ستر سال سے جانب منزل روا ں دواں ہے کئی بار منزل قریب آئی مگر اوپر سے نئی افتاد نے آن لیا ،یوں راستہ جو سیدھا تھا دائئر ے کی صورت اختیار کر گیا چل چل کر جب نڈھال ہو کر دائیں بائیں دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے وہیں پہنچ گئے جہاں سے چلے تھے ،مگر سار ا قصور غارت گروں کا نہیں ہمارا بھی ہے ہم نے اکثر انہی عطار کے لونڈوں سے دوا لینا شروع کر دی جن کے ہاتھ سے ہم بیمار ہوئے ، تو کیا یہ سب ہمارا مقدر ہے نہیں ہر گز نہیں کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جا سکتاہم ایک دو بار نہیں بلکہ بار بار اسی سوراخ سے ڈسے جاتے رہے اور پھر اپنا پاؤں بھی آگے دھرتے رہے کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم شاید وہ مومن ہی نہیں ،،،،