محمد خالد اختر ۔ اردو مزاح نگاری کا اہم ستون

کراچی سے تعلق رکھنے والے ادیب و ناشر اجمل کمال نے جداگانہ اسلوب کے حامل اردو مزاح نگار محمد خالد اختر کی تحریروں کو یکجا و محفوظ کرنے کا بیڑہ اٹھایا ، خالد اختر کی تمام تحریروں کو بنا سنوار کر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی کے حوالے کیا اور جون 2011 (دو ہزار گیارہ) میں جہاں ایک طرف اجمل صاحب کی محنت بار آور ثابت ہوئی وہاں اس ادیب بے مثال کی تحریروں تک ان کے پرستاروں اور اردو زبان سے لگاؤ رکھنے والوں کو رسائی حاصل ہوئی جسے دنیا محمد خالد اختر کے نام سے جانتی ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کراچی کے تحت محمد خالد اختر کی تمام تحریریں کئی جلدوں میں شائع کی جائیں گی اور اس سلسلے میں دو جلدیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں جلد دوم (سفرنامے ) اور جلد سوم (افسانے) شائع ہوچکے ہیں جبکہ جلد اول (ناول) اشاعتی مراحل میں ہے۔ جلد چہا رم جو چچا عبدالباقی کہانیوں کا مجموعہ ہے، اگلے ایک ماہ میں شائع ہونے کی توقع ہے۔
 

image

سفرناموں پر مشتمل جلد دوم کے دیباچے میں اجمل کمال لکھتے ہیں: “محمد خالد اختر کے سفرناموں میں پڑھنے والوں کو مسحور کرنے والی بات ان انسانی کرداروں کی رنگا رنگی ہے جن سے ان کی سفر کے دوران ملاقات ہوتی ہے۔ اپنی اپنی مخصوص صورت حال سے دوچار انسانوں پر مشتمل زندگی کا میلہ ہی ہے جس سے محمد خالد اختر کا سفری تجربہ عبارت ہے۔ وہ اپنے ان عارضی ہمسفروں ،مختلف پس منظر رکھنے والے عام لوگوں سے بھرپور تخلیقی دلچسپی لیتے ہیں اور ہمدردی اور گہرائی سے بنائی گئی تصویروں کے ذریعے پڑھنے والے کو اپنے اس مطالعے میں شریک کرتے ہیں۔اس عمل میں محمد خالد اختر کی تخلیقی شخصیت کا فکشن نگار پہلو پوری طرح بروئے کار آتا ہے۔“

ابن انشاء نے خالد اختر کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا تھا: “محمد خالد اختر کو پڑھنے والا اکثر یہ بھول جاتا ہے کہ وہ اردو پڑھ رہا ہے۔ اس میں انگزیزی الفاظ کی بھرمار بھی نہیں ہے لیکن جملوں کی ساخت سراسر انگریزی ہے۔ شروع شروع میں یہ انداز غریب اور اکھڑا اکھڑا معلوم ہوتا ہے لیکن بعد میں اس میں بانکپن کا لطف آنے لگتا ہے۔
 

image

محمد خالد اختر کے بارے میں ادیب و انشاءپرداز محمد کاظم کہتے ہیں : “ اس اسلوب میں ضرور ایک اجنبی زبان کا اثر ہے لیکن اس کے طنز و مزاح کا ماحول، اس کے افراد اور ان کی گفتگو اور چلت پھرت سب کچھ یہیں کا ہے اور دیسی ہے۔ “

جبکہ اشفاق احمد کی رائے کچھ اس طرح ہے: “ خالد کے فن کا سب سے بڑا کمال اس کے مغربی علوم کے مطالعے میںمشرقی زندگی کی پہچان ہے ۔ یہ پہچان ایسی انوکھی، ایسی سبک اور کچھ ایسی اچانک ہے کہ اگلے فقرے پر پہنچ جانے کے بعد پچھلا راز کھل کر سامنے آجاتا ہے۔ ایسا انداز مشق سے حاصل نہیں ہوتا۔۔۔صرف فطرت کی طرف سے ملتا ہے۔ “

فیض احمد فیض ، محمد خالد اختر کے ناول چاکیواڑہ میں وصال کو اردو زبان کا اہم ناول قرار دیتے تھے اور اس ناول پر فلم بنانے کا ارادہ بھی رکھتے تھے۔

محمد خالد اختر 23 (تیئس) جنوری 1920(انیس سو بیس ) کو اللہ آباد ضلع بہاولپور میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم صادق ڈین ہائی اسکول سے حاصل کی جبکہ صادق ایجرٹن کالج سے 1938 (انیس سو اڑتیس) میں بی اے کیا۔ صادق ڈین ہائی اسکول میں ساتویں جماعت میں اردو کے مشہور مزاح نگار شفیق الرحمان کچھ عرصے ان کے ہم جماعت رہے تھے۔ صادق ایجرٹن کالج میں داخلہ لینے سے قبل محمد خالد اختر تین ماہ تک لاہور کے گورنمنٹ کالج میں فرسٹ ائیر کے طالب علم رہے۔ مذکورہ کالج میں وہ پروفیسر پطرس بخاری کی شخصیت کے اسیر ہوئے۔ صادق ایجرٹن کالج میں احمد ندیم قا سمی اور محمد خالد اختر کے ساتھ ہوا۔ قاسمی ، تھرڈ ائیر میں تھے اور خالد اختر سے دو برس سینئر! ۔۔ دونوں کی دوستی بہت جلد ہوگئی ۔۔۔ محمد خالد اختر فخر سے یہ دعوی کرتے تھے کہ احمد ندیم قاسمی کو انہوں نے افسانہ نگاری کی راہ پر ڈالاتھا۔
 

image
2001 (دو ہزار ایک ) کی ایک تصویر

1945 (انیس سو پینتالیس) میں میکنیگن انجینئرنگ کالج سے الیکٹرونکس انجینئرنگ میں بی ایس سی کرنے کے بعد وہ اعلی تعلیم کے لیے لندن گئے اور ایڈاونسز پوسٹ گریجویٹ کی تربیت حاصل کرنے کے بعد 1948 (انیس سو اڑتالیس) میں وطن واپس آئے۔ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد انگلش الیکٹرک کمپنی میں دو برس ملازمت کی اور 1952(انیس سو باون) میں واپڈا میں بحیثیت انجینئر تعینات ہوئے۔ محمد خالد اختر واپڈا کے ادارے سے 1980( انیس سو اسی) میں ر یٹائر ہوئے۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو (مطبوعہ روزنامہ جنگ۔ 17 اکتوبر 2001 ۔سترہ اکتوبر دو ہزار ایک) میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اپنی ریٹائرمنٹ پر انہوں نے خدا کا شکر ادا کیا تھا۔ ۔۔ان کے الفاظ میں: “ میری طبیعت سے میرے پیشے کو کوئی مناسبت نہ تھی۔ ملازمت کے سارے عرصے میں ایک ذہنی اذیت کا شکار رہا ہوں۔ افسر عموما اچھے ہمدردر لوگ تھے جو میرا خیال کرتے تھے لیکن ملازمت کے آخری چھ ساتھ برسوں میں دو ایسے افسران سے سابقہ پڑا جو انتہائی اذیت پسند واقع ہوئے تھے اور جنہوں نے میری زندگی اجیرن کردی۔ اس عملی زندگی کے دوران چند اچھے مہر و مروت کے پتلے دوست بھی میرے ہاتھ ضرور آئے۔ محمد کاظم، صلاح الدین محمود، محمد خورشید، اکرام اللہ، ظہور نظر، ریاض الرحمان ( خالد صاحب نے اپنے ناول چاکیواڑہ میں وصال کے ابتدا میں اپنے انہی دوست کو مخاطب کیا ہے ۔راقم) اور احمد حسین چغتائی۔ ( محمد حسین چغتائی، محمد خالد اختر کو اپنے ہمراہ چین کی سیاحت پر لے گئے تھے جہاں دونوں دوستوں نے دو ماہ گزارے۔راقم)

محمد خالد اختر نے اوائل عمری ہی سے لکھنے کا آغاز کردیا تھا۔ جب وہ ساتویں جماعت میں تھے تو پہلی مرتبہ ا ن کے چند مضامین ماہانہ رسالے “مسلم گوجر“ میں شائع ہوئے۔مذکورہ رسالہ گورداسپور سے شائع ہوتا تھا۔ نویں جماعت میں محمد خالد اختر کو شاعر بننے کا شوق ہوا اور انہوں نے خضر تخلص اختیار کیا۔ پندرہ بیس نظموں کا ایک دیوان مرتب کیا جسے وہ اپنے سرہانے رکھ کر سویا کرتے تھے۔ نویں جماعت کے دنوں ہی میں محمد خالد اختر کو انگریزی ادب پڑھنے کا چسکا پڑا جس کے سحر سے وہ تمام عمر نہ نکل سکے۔ کالج کے زمانے میں وہ نخلستان نامی کالج میگزین میں اردو و انگریزی زبانوں میں لکھتے رہے۔ محمد خالد اختر نے طنز و مزاح، خاکہ نگاری، افسانہ اور سفر نامہ کے علاوہ متعدد ادبی اصناف میں اپنی فن کا لوہا منوایا ہے۔

محمد خالد اختر کی پہلی تحریر جو کسی ادبی جریدے میں شائع ہوئی ، ایک مزاحیہ تحریر تھی جسے احمد ندیم قاسمی کی سفارش پر مولانا چراغ حسن حسرت نے اپنے ہفتہ وار مزاحیہ پرچے “ شیرازہ “ (۷۳۹۱ میں اجراء ہوا اور کچھ ہی عرصے میںبند ہوگیا ۔راقم) میں شائع کیا تھا۔ بعد ازاں، 1946 (انیس سو چھیالیس) میں احمد ندیم قاسمی نے ، خالد صاحب کا تحریر کردہ سفرنامہ “ ڈیپلو سے نو کوٹ تک “ ادب لطیف میں شائع کیا۔ (محمد خالد اختر متذکرہ سفرنامے کواپنی بہترین چیزوں میںشمار کرتے تھے ۔راقم) ۔ اس کے علاوہ سعادت حسن منٹو پر لکھے اپنے ایک مضمون (لالٹین نامی کتاب میں شامل ہے۔۷۹۹۱ ۔راقم ) کو بھی خالد اختر اپنے پسندیدہ تحریروں میں شمار کرتے ہیں۔وہ اپنے طرز تحریر کے بارے میں اپنی ایک کتاب کھویا ہوا افق میں قاری سے یوں مخاطب ہوتے ہیں: ” جو مسخرے پن کو مزاح سمجھتے ہیں، میری کتاب میں ان کو کچھ لطف حاصل نہ ہوگا۔“

اپنی دلنشیں تحریروں کے ساتھ ساتھ محمد خالد اختر کے بیان میں بھی ایک منفرد چاشنی نظر آتی ہے۔ گرد و پیش کے حالات، تیزی سے بدلتی سماجی قدروں اور ماضی و حال کے موازنے پر ایسا بے لاگ ، بھرپور اور دل کو چھو جانے والا تبصرہ خال خال ہی پڑھنے میں آتا ہے۔ اپنے آ خری انٹرویو (روزنامہ جنگ کراچی ۔ 2001سترہ اکتوبر) میں وہ کہتے ہیں: ” بیتا ہوا زمانہ ہمیں سہانا لگتا ہے۔ ہمارے بچپن اور لڑکپن کے ایام میں سادگی تھی۔ محبت کرنے والے لوگ تھے۔ فراغت کا احساس تھا۔ انسان کی زندگی اتنی الجھی ہوئی، اتنی مشینی نہ تھی جتنی اب بن کر رہ گئی ہے۔ اب جس شخص سے ملو وہ جلدی میں ہوتا ہے۔ کسی جان لیوا مصیبت میں مبتلا۔ اگر زندگی میں گائیوں اور بھیڑوں کی طرح دیر تک خالی نظروں سے دیکھنے کا وقت نہ ہو اور آدمی ہر وقت تفکرات سے مغموم رہے تو اس زندگی کا کیا فائدہ ؟ ۔۔اس دور میں ہر کوئی اپنے خول میں سمٹ کر جیتا ہے۔ ہمارے معاشرتی اور سماجی رویوں میں کوئی خاطر خواہ یا خوشگوار تبدیلی نہیں آئی۔بے شک ہم نے سائنسی طور پر بڑی ترقی کرلی ہے۔ چاند کی تسخیر، سٹیلائٹ، ٹیلی ویژن، کمپیوٹر وغیرہ اور ہم سہج سہج ایک نئی دنیا کے قیام کی طرف جارہے ہیں۔لیکن کیا اس دور کا آدمی پچھلے دور کے آدمی سے زیادہ خوش او ر مطمئین ہے ؟۔۔پھر بھی ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ہم آنکھوں پر کپڑا باندھے کوہلو کے بیل نہیں جو چکر کاٹتے رہتے ہیں اور ایک ہی راہ کو روندتے چلے جاتے ہیں۔میں رجائیت پسند ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ ہم آگے کسی بہتر مستقبل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ویسے آپ جانتے ہیں کہ مخلوقات میں انسان ہی سب سے زیادہ سفاک، چالاک اور خطرناک حیوان ہے۔ اور یہ دنیا جس میں ہم جیتے اور مرتے ہیں، پرفیکٹ دنیا نہیں۔ایسی دنیا جس میں روپے پیسے کی راجدھانی ہو ، پرفیکٹ کیونکر ہوسکتی ہے۔“

محمد خالد اختر انگریزی کے نامور ادیب و انشاءپرداز رابرٹ لوئی اسٹیونسن سے بے انتہا متاثر تھے۔ انہیں سیر و سیاحت کا بہت شوق تھا۔ اپنے اسی شوق کی خاطر وہ کئی بار گھر سے نکلے اور دور دراز علاقوں کی مسافت اختیار کی۔ گیان اور شانتی کی تلاش میں ایک مرتبہ وہ ہندوؤں کے مقدس مقام ہردوار جا پہنچے اور ہندوانہ نام اختیار کر کے ایک سرائے میں کئی روز قیام کیا۔ اپنے اسی قیام کے دوران انہوں نے اپنی مشہور کہانی “ کھویا ہوا افق“ لکھی۔ اس کہانی کو سعادت حسن منٹو نے کتر بیونت کے بعد شائع کیا۔ محمد خالد اختر کی تصانیف میں مندرجہ ذیل نام شامل ہیں:

بیس سو گیارہ (ناول) ۔ پہلی اشاعت: 1954 (انیس سو چون)۔مکتبہ جدید لاہور
چاکیواڑہ میں وصا ل (ناول)۔ 1964(انیس سو چونسٹھ)
کھویا ہوا افق (افسانے) ۔ آدم جی ادبی انعام یافتہ ۔ پہلی اشاعت: 1967 (انیس سو سڑسٹھ) ۔مکتبہ جدید لاہور
چچا عبدالباقی (کہانیاں) ۔ قوسین پبلشر۔لاہور۔ 1985(انیس سو پچاسی)
مکاتیب خضر (مضامین) ۔ خطوط غالب کی طرز پر لکھے گئے مزاحیہ مکاتیب
ابن جبیر کا سفر ۔ 1994 (انیس سو چورانوے)
یاترا (سفرنامہ) ۔ آ کسفورڈ پریس کے مجموعہ خالد اختر جلد دوم میں شامل ہے ۔ سن اشاعت: جون 2011 (دو ہزار گیارہ)
دو سفر (سفرنامہ) ۔ مطبوعات پبلشر۔لاہور ۔ 1984 (انیس سو چوراسی) ۔۔ آ کسفورڈ پریس کے مجموعہ خالد اخترکی جلد دوم میں شامل ہے ۔ سن اشاعت: جون 2011 (دو ہزار گیارہ)
 

image
 
یہاں محمد خالد اختر کے اسلوب تحریر کے چند نمونے پیش خدمت ہیں:


image
دو سفر


image
دو سفر


image
دو سفر

معسود اشعر نے اپنے ایک اہم اور دلچسپ مضمون 2011منفی9 (بیس سو گیارہ منفی نو) میں محمد خالد اختر کا حلیہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے :“ ستر کی دہائی کی بات ہے، ان دنوں میں ملتان میں تھا۔احمد ندیم قاسمی نے مجھے لکھا کہ محمد خالد اختر تمہارے شہر میں آگئے ہیں ، ان سے ضرور ملو اور ان کا خیال رکھو۔ خالد اختر واپڈا میں تھے اور رحیم یار خان سے ان کا تبادلہ ملتان ہوا تھا۔ میں نے انہیں پڑھا تو بہت تھا اور بہت ذوق و شوق سے پڑھا تھا ، ملا کبھی نہیں تھا۔ دوسرے ہی دن میں ان کے دفتر پہنچ گیا۔یہ دفتر گلگشت میں تھا۔ ایسا ہی دفتر جیسے سرکاری دفتر ہوتے ہیں۔وہی پرانی پالش اتری کرسیاں، وہی بے رونق میز۔ ہاں، اس میز پر فائلوں کا ڈھیر نہیں تھا کہ وہ ایک افسر انجینئر کی میز تھی۔ اس میز کے پیچھے ایک نہایت دبلا پتلا سوکھا تنکا سا آدمی بیٹھا تھا۔ لمبا قد، کندھے تھوڑے سے جھکے ہوئے ، اندر کو دھنسی آنکھیں ، گالوں کی ہڈیاں خوب ابھری ہوئیں، لمبے لمبے کان جو استخوانی چہرے کی وجہ سے اور بھی لمبے محسوس ہوتے تھے۔، کشادہ دہانہ اور نوکیلی تھوڑی۔ رنگ کبھی صاف ہوگا مگر اب اجلا ہوا بلکہ جل کر بجھا ہوا نظر آتا تھا۔ اگر ان کے ہونٹوں پر ایک کان سے دوسرے کان تک پھیلی مسکراہٹ اور آنکھوں میں ملنساری کی معصومانہ چمک نہ ہوتی تو سچی بات یہ ہے کہ مجھے ان سے مل کر ذرا بھی خوشی نہ ہوتی۔ لیکن ان کی ہنسی اور مسکراہٹ بھی عجیب سی تھی۔ کسی بات پر ہنستے اور پھر فورا ہی شرما جاتے۔ اپنی بھاری آواز میں ہوں ہوں کرتے اور آنکھیں جھپکانے لگتے۔ میں بھی کچھ کم شرمیلا نہیں ہوں مگر ان کے شرمانے کے آگے میں نے بھی ہتھیار ڈال دیے۔ اب حالت یہ تھی کہ میں باتیں کررہا تھا اور وہ ہوں ہوں کررہے تھے ”

مسعود اشعر ان دنوں کی یادگار محفلوں کا احوال بیان کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں: ” ملتان میں ریڈیو اسٹیشن نیا نیا کھلا تھا۔ پھر ظہور نظر بھی بہاولپور سے آگئے۔ اب خوب دھما چوکڑی مچنے لگی۔ ظہور نظر کی موجودگی میں اودھم اور دھما چوکڑی ہی مچ سکتی تھی۔ پھر ہم نے سوچا ظہور نظر کے ساتھ شام منائی جائے اور صدارت خالد اختر سے کرائی جائے۔ بڑی منت سماجت کے بعد خالد اختر صدارت کے لیے راضی ہوئے لیکن اس شرط پر کہ وہ کچھ بولیں گے نہیں ، دوسروں کی سنتے رہیں گے اور آخر میں شکریہ ادا کرکے جلسہ بر خاست کردیں گے۔ پھر ہم سب کے کہنے پر وہ مضمون لکھنے کے لیے بھی راضی ہوگئے لیکن اس شرط پر کہ کوئی اور پڑھے۔ اب کیا کیا جائے ۔۔۔خالد صاحب کو اپنا مضمون تو خود ہی پڑھنا چاہیے۔
”یہ مجھ پر چھوڑ دو ” ۔۔ظہور نظر نے اعلان کیا ۔ ”میں اس بڈھے کی ایسی مت ماروں گا کہ اسے پتہ بھی نہیں چلے گا اور وہ خود ہی اپنا مضمون پڑھ جائے گا۔ “

ظہور نظر کی خالد اختر کے ساتھ بہت بے تکلفی تھی۔ خالد اختر چونکہ جوانی ہی میں بوڑھے لگتے تھے اس لیے ظہور نظر انہیں ہمیشہ بڈھا اور بڈھے کہہ کر پکارتا تھا۔

آٹھ بجے جلسہ شروع ہوا ، اس وقت تک ظہور نظر اپنی سازش میں کامیاب ہوچکا تھا۔ چناچہ خالد اختر جلسے میں پہنچے اور اور بڑے اعتماد کے ساتھ صرف صدارت ہی نہیں بلکہ اپنا صدارتی مضمون بھی اس دھڑلے سے پڑھاکہ لوگ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہوگئے۔ مضمون میں کوئی ہنسی کی بات آتی تو خود بھی ہنس پڑتے۔ وہی ہنسی جس کے بعد وہ جھینپ جاتے اور شرما کرخاموش ہوجاتے۔ ان کی ہنسی پر لوگ جب قہقہہ لگاتے تو انگریزی میں ظہور نظر کو موٹی سی گالی دیتے اور کہتے : ” ہاں یہ ایسا ہی ہے “ ۔۔۔۔ اورہاں! اسی اسٹیج پر ظہور نظر کو ڈانٹ بھی دیا۔ اور ایسا ڈانٹا کہ ظہور نظر دھپ ہوگیا۔ ہوا یوں کہ جب وہ (خالد اختر) اپنا مضمون پڑھنے اٹھے تو کہیں پاؤں لڑکھڑا گیا اور ظہور نظر نے جو اسی جانب بیٹھا تھا، انہیں سنبھالنے کے لیے اپنا ہاتھ بڑھا دیا۔ بس پھر کیا تھا۔۔یکدم ڈانٹ پڑی:
Let me Be You
اس ڈانٹ نے ان کے اندر ایسا اعتماد پیدا کیا کہ پھر کسی شرم اور جھجک کے بغیر اپنا مضمون پڑھ ڈالا۔

مسعود اشعر لاہور کے دنوں کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:“ خا لد اختر کو بہت قریب سے جاننے کا موقع لاہور میں ملا۔ وہ واپڈا میں ڈائریکٹر ہوکر لاہور آگئے تھے اور مجھے بھی جنرل ضیاءالحق نے ملتان بدر کردیا تھا۔ اکرام اللہ اور راؤ ریاض بھی لاہور ہی میں تھے۔ یہاں ہم سب کا ٹھکانہ دوستوں کے دوست ہاشم خان کا گلبرگ والا فلیٹ تھا۔ ہاشم خان پیشے کے لحاظ سے تو انجینئر تھے لیکن خالد اختر، راؤ ریاض اور محمد کاظم کی طرح ادب کے شیدائی تھے۔ یہ 1979 (انیس سو اناسی) اور 1980 (انیس سو اسی) کا زمانہ تھا۔ ضیاءالحق کا مارشل لاءاپنے عروج پر تھا۔ ہم سب ہر شام ہاشم خان کے فلیٹ پر اکھٹے ہوتے اور دلوں کا غبار نکالتے۔ ان محفلوں میں دنیا بھر کا ادب، ساری دنیا کی موسیقی اورمقامی سے لے کر بین الاقوامی سیاست کے بخئے ادھیڑے جاتے۔ خالد صاحب اکثر تو خاموش ہی رہتے لیکن جب غصے میں آتے تو سب کو اپنی بھاری آواز میں ڈانٹ دیتے۔ ان دنوں ان کی صحت کچھ زیادہ ہی گرنے لگی تھی۔ انہیں اپنے پیٹ سے تو ہمیشہ ہی شکایت رہی تھی کہ ایک زمانے سے بھوسی والی ڈبل روٹی کے دو توس ہی ان کی غذا تھے۔ اب انہیں بات بات پر رونا آنے لگا تھا۔ جب بھی کوئی دوست ان سے زیادہ گھل مل کر باتیں کرتا تھا یا وہ بہت سرور میں ہوتے تو ان کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہتے، دونوں گال بھیگ جاتے اور کشادہ ہونٹ اور بھی کشادہ ہوجاتے اور ہاشم خان چیختا :

” چاچا! مت روؤ، کیوں آنسو ضائع کررہا ہے۔ان میں سے کوئی تجھے یاد نہیں کرے گا “
اور وہ ہاشم خان سے لپٹ جاتے: ” تو ضرور یاد کرے گا مجھے “
پھر وہ ہنسنے لگتے۔۔۔۔۔!

ہاشم خان نے خالد اختر کی بھیگی آنکھوں اور گالوں پر بہتے آنسوؤں کی کئی تصاویر کھینچی تھیں۔ وہ یقینا تاریخی تصویریں ہیں۔ مگر میں جانتا ہوں ہاشم خان کی کتابوں کی طرح وہ تصویریں بھی محفوظ نہیں ہوں گی۔ “

مندجہ بالا بیانئے کے بعد یوں ہوا کہ پھر وقت کے ساتھ ساتھ خالد اختر میں اس دارفانی کو الوادع کہنے کا خوف ماند پڑتا گیا۔ اس سلسلے میں مسعود اشعر بیان کرتے ہیں: ”عجیب بات ہے، بیس پچیس سال پہلے تو وہ دوستوں سے گلے مل کر روتے تھے جیسے انہیں اپنی زندگی کا بھروسہ نہیں ہے مگرجوں جوں بیسیویں صدی کے آخری سال قریب آرہے تھے، انہوں نے کہنا شروع کردیا تھا کہ میں نیا میلینیم دیکھے بنا نہیں جاؤں گا۔ اور جب نیا میلینیم شروع ہوگیا تو ہم نے یعنی ان کے دوستوں نے انہیں تسلی دینا شروع کردی کہ اب آپ اپنے ناول کا بیس سو گیارہ بھی دیکھیں گے۔ میں نے انہیں لکھا کہ Futuristic ناول لکھنے والوں میں سے جن تین ناول نگاروں کو میں نے پڑھا ہے ان میں سے صرف آرویل ہی ایسا تھا جس نے اپنے ناول کا سال نہیں دیکھا۔ باقی دونوں وہ سال دیکھنے کے لیے زندہ رہے۔ انتھونی برجیس اپنے ناول والے سال کے کئی برس بعد مرا اور آرتھر کلارک ابھی تک زندہ ہے۔ آپ بھی بیس سو گیارہ ضرور دیکھیں گے۔ یہ خط پڑھ کر وہ بہت خوش ہوئے تھے اور لکھا تھا: ”تم کہتے ہو تو ضرور دیکھوں گا وہ سال “

پھر کیا ہوا ؟ اکرام اللہ (لاہور کے دوست) کہتے ہیں انہوں نے انتقال سے چند روز قبل ہی انہیں ٹیلیفون کیا تھا۔ کوئی پریشانی نہیں تھی ان کی آواز میں۔انہوں نے کہا: “ تمہارا خط آئے کافی دن ہوگئے ہیں۔ جلد ہی جواب لکھوں گا۔“

مگر پھر وہ کسی کے خط کا جواب نہیں دے سکے ۔آخر ان کا جسم اپنی اس سازش میں کامیاب ہوگیا جس کے تانے بانے وہ تیس چالیس سال سے بن رہا تھا۔ صرف نو برس ہی تو رہ گئے تھے بیس سو گیارہ میں۔ بیس سو گیارہ کو تو وہ اپنے لمبے لمبے ہاتھ بڑھا کر چھو سکتے تھے۔ (مسعود اشعر)

اجمل کمال نے ’ آج ‘ نامی اشاعتی سلسلے کے تحت 1997 (انیس سو ستانوے) میںمحمد خالد اختر کے متفرق مضامین پر مشتمل لالٹین کے عنوان سے کتاب شائع کی تھی، اس کے علاوہ اجمل کمال نے اپنے ادبی جریدے سہہ ماہی آج کا محمد خالد اختر نمبر بھی نکالا ہے۔محمد خالد اختر کی تحاریر کو محفوظ کرنے میں اجمل کمال اور آکسفورڈ پریس کی قابل قدر کوشش کا ذکر بین السطور کیا جاچکا ہے۔

فیض احمد فیض کے علاوہ محمد خالد اختر کے مداحوں میں کنہیا لال کپور، احمد ندیم قاسمی، شفیق الرحمان، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، سید سبط حسن ، سید ضمیر جعفری اور فہمیدہ ریاض کے نام شامل ہیں۔

سید ضمیر جعفری خالد اختر کے بارے میں رائے زن ہیں: ”اردو ادب کا یہ انجینئر ان چیف اپنی غیر معمولی تخلیقی ذکاوت سے نئی نئی شاہراہیں تراشتا رہتا ہے۔ اور پنڈی میں اس کے تین عشاق برئگیڈئیر شفیق الرحمان، کرنل محمد خان اور راقم الحروف جب بھی یکجا ہوتے ہیں تو محمد خالد اختر کے چمکیلے اور خوش ذائقہ اسلو ب نگارش پر اکیس توپوں کی سلامی نچھاور کرلیتے ہیں۔ “

یہاں ا جمل کمال کے محمد خالد اختر کے اسلوب پر سیر حاصل تبصرے کے بغیر یہ مضمون مکمل نہیں سمجھنا جانا چاہیے۔۔۔۔ وہ لکھتے ہیں: ”اردو نثر کے تاریخی ارتقاءکا مطالعہ کرنے والے کسی شخص کو محمد خالد اختر کے مخصوص اسلوب میں ایک گہری تہذیبی تبدیلی کار فرما محسوس ہوسکتی ہے جس کے تحت علم، اطلاع اور ثقافتی اقدار کے منبعے کے طور پر فارسی اور دیگر مشرقی زبانوں کی جگہ رفتہ رفتہ انگریزی نے حاصل کرلی۔ اردو کی تقریبا تمام تر جدید نثر اسی تہذیبی تبدیلی سے پیدا ہوئی ہے۔ اردو کے جدید تخلیقی ادب میں اس کا اولین اظہارقرة العین حیدر کی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے۔ محمد خالد اخترکے ہاں انگریزی نثر کے رچاؤ کا یہ رنگ نسبتا زیادہ گہرا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کی تحریروں میں ایک خوشگوار طور پر نامانوس لہجہ جنم لیتا ہے بلکہ کسی بھی انسانی صورتحال کو ایک خارجی ، نسبتا زیادہ معروضی زاویے سے دیکھنے کا تخلیقی انداز بھی پیدا ہوتا ہے۔ محمد خالد اختر کی تحریروں میں متواتر محسوس ہونے والا خفیف طنز ان کے اسی مخصوص تخلیقی اسلوب کی دین ہے۔“

9 جنوری 2002 (دو ہزار دو) کو عالمی فروغ اردو ادب دوحہ نے انہیں ڈیڑھ لاکھ کے ایوارڈ اور ایک عدد گولڈ میڈل سے نوازا۔ علالت کے باوجود محمد خالد اختر نے یہ ایوارڈ دوحہ جاکر کر وصول کیا۔

اکیسویں صدی کے آغاز پر محمد خالد اختر کو احساس ہوا کہ اب ان کی زندگی کی لو ٹمٹما رہی ہے۔ تب انہوں نے کہا: ”میں اب سب خواہشوں اور امنگوں سے آزاد ہوچکا ہوں۔ نہ علمی، نہ ادبی اور نہ عملی۔سورج غروب ہورہا ہے اور سائے لمبے ہورہے ہیں۔جلد، بہت جلد میں بھی اس دور دراز کے سفرپر چل نکلوں گا جو جلد یا بدیر ہم سب کو درپیش ہے۔ معمولی سا ٹیلنٹ یا صلاحیت مجھ میں تھی ، اس کو موافق جو کچھ مجھ سے ہوسکا، میں نے کرلیا۔ پچھتاوے بھی نہیں ہیں۔ایک خواہش البتہ ہے کہ جب اس دنیا سے جاؤں ، چلتا پھرتا جاؤں۔کسی کا محتاج ہوئے بغیر، کسی کو جوکھم میں ڈالے بغیر! “

اردو ادب کا یہ نام و نمود و شہرت سے دور بھاگنے والا، مشرق اور مغرب کو اپنی تحریروں میں یکجا کرنے والا منفرد مزاح نگار ، دنیا جس کو محمد خالد اختر کے نام سے جانتی ہے، 2 فروری 2002 (دو ہزار دو) کو کراچی میں 90 (نوے) برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ کراچی میں سوسائٹی کے قبرستان میں تدفین ہوئی۔انتقال سے چند روز قبل احمد ندیم قاسمی کے نام اپنے آخری خط میں انہوں نے لکھا کہ” میری حالت کچھ ٹھیک نہیں۔۔آپ کی طرح خوش خوش جیا اور خوش خوش جاؤں گا۔۔یعنی 2011 (بیس سو گیارہ) میں۔۔ اپنے وعدے پر انشاءاللہ قائم ہوں۔۔ویسے پھیپھڑے ستر فیصد بیکار ہوچکے ہیں مگر ان کے بغیر بھی آدمی جی سکتا ہے۔“

یہاں محمد خالد اختر کا اشارہ اپنے ناول بیس سو گیارہ کے عنوان کے مطابق سن بیس سو گیارہ میں اس دنیا سے رخصت ہونے کی طرف تھا۔

ادیب و مترجم وجاہت مسعود نے انہیں ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا: ” چاکیواڑہ اور مٹھن کوٹ اداس ہیں کہ محمد خالد اختر چلا گیا۔ کہانیاں کہتا ہوا۔۔۔ایک زود بصر گیانی کی سی وسعت قلب سے گاہے مسکراتا، گاہے ہنستا۔۔۔گیا کی ترائیوں میں برگد کے پیڑ بہت ہیں ۔۔۔۔اور رات ابھی باقی ہے۔“
Rashid Ashraf
About the Author: Rashid Ashraf Read More Articles by Rashid Ashraf: 107 Articles with 277733 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.