|
|
“کاش ہمارا کوئی بھائی ہوتا جو انجیکشنز لانے میں ہماری
مدد کرتا اور میں اپنے ابو کے پاس آئی سی یو میں ٹہر سکتی۔ انھیں چھوڑ کر
انجیکشن کی تلاش میں نکلنا میرے لئے بہت تکلیف دہ تھا“ |
|
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نمرہ کہتی ہیں کہ کورونا میں
مبتلا ان کے والد کو ڈاکٹرز
نے خون پتلا کرنے والا انجیکشن “کلیزن“ تجویز
کیا تھا مگر انجیکشن اسپتال میں موجود نہیں تھا ۔ نمرہ کی دو بہنیں ملک سے
باہر رہتی ہیں اس لئے والد کو بچانے کے لئے انجیکشن کا انتظام انھیں خود ہی
کرنا تھا انھوں نے اسلام آباد اور راولپنڈی کی تمام فارمیسیز چھان لیں لیکن
انھیں مطلوبہ انجیکشن کہیں نہیں ملا جس کے بعد انھوں نے سوشل میڈیا سے اس
حوالے سے مدد طلب کی۔ لیکن جب تک انجیکشن انھیں ملتا تب تک بہت دیر ہوچکی
تھی۔ |
|
منہ مانگی قیمتوں پر
ادویات کی فروخت |
پاکستان میں کورونا میں ریلیف دینے والی ایمرجینسی
ادویات کافی جگہوں پر دستیاب نہیں اور اگر چند ایک جگہ مل رہی ہیں تو منہ
مانگے داموں فروخت کی جارہی ہیں۔ ایک اور شہری بلاول کا کہنا ہے کہ “کورونا
کے ہاتھوں مجبور لوگ ان ادویات کو
منہ مانگی قیمت پر خریدنے پر مجبور ہیں“
|
|
ادویات اور آکسیجن کی
قیمت میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ |
وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کا
کہنا تھا کہ تیسری لہر کے دوران پاکستان میں چند ادویات جیسا کہ ’اکٹمرا‘
انجیکشن کی مانگ میں اضافہ ہونے کی وجہ سے قلت ہوئی لیکن حکومت نے بروقت ہی
اس کو درآمد کر کے اس قلت پر قابو پا لیاہے جبکہ سماجی کارکن نے بی بی سی
سے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کے
بڑھتے ہوئے کیسز دیکھ کر
لوگوں نے بغیر ضرورت آکسیجن سیلینڈر خرید کر ذخیرہ کرلیے جس کی وجہ سے
آکسیجن کی قلت ہوئی۔ لیکن اس کے باوجود یہ قلت بھارت کے مقابلے میں ہہت کم
ہے۔ |
|
|
|
معمولی دوائیں اور آلات
کی عدم دستیابی |
حیرت انگیز طور پر کورونا میں مبتلا افراد کو دی جانے
والی زیادہ تر گولیوں میں پیراسیٹا مول اور آئبوپروفین شامل ہیں۔ یہ ادویات
ملتی تو بہت سستی ہیں لیکن ان میں شامل ہونے والے بہت سے اجزاء پاکستان کو
باہر سے منگوانے پڑتے ہیں۔ لہذا پاکستان کی دواساز کمپنیز کو اس حوالے سے
سوچنے کی ضرورت ہے کہ کسی
بھی وجہ سے اگر دیگر ممالک نے ان اجزاء کی سپلائی
روک دی تو شہریوں کو کس صورتحال سے گزرنا پڑیگا۔ |
|
|
|
دوسری طرف کورونا میں استعمال کیے جانے والے عام آلات
مثلاً تھرمامیٹر اور آکسی میٹر وغیرہ کی بھی ذخیرہ اندوزی پر پابند ہونی
چاہئیے نیز ان کی قیمتوں پر بھی نظر رکھی جانی چاہئیے |