اِیگزیکٹ کنٹرول لسٹ اور آئی بی ایم ایس کا غیر قانونی استعمال۔

خروج کنٹرول فہرست یا اِیگزیکٹ کنٹرول لسٹ اِی سی ایل یہ حکوت پاکستان کا ایک خارجہ سرحدی نظام ہے۔ اس فہرست میں جس شخص کا نام ڈالا جاتا ہے وہ ملک سے باہر نہیں جاسکتا۔ پاکستان کی پارلیمان سے 1981ء میں یہ قانون پاس کرایا گیاتھا جس کے مطابق وفاقی حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ ہر اُس شخص کو ملک سے باہر جانے نہ دے جو جرم میں ملوث ہو، خاص طور پر درجہ ذیل جرائم: وہ شخص جو کرپشن میں ملوث ہو یا جس نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا ہو۔ وہ حکومتی لوگ جنہوں نے حکومتی فنڈز میں رَدو بدل کیا ہو۔ وہ مجرمان جو دہشت گردی یا سنگین جرائم میں ملوث ہو۔اُن لوگوں کا نام جن کو عدالت عظمیٰ یا عدالت عالیہ یا کسی اور عدالت نے ملک سے باہر جانے سے روکا ہو۔ اس کے علاوہ اور وجوہات بھی ہوسکتی ہیں۔ وفاقی وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق اس وقت ساڑھے دس ہزار کے لگ بھگ افراد کے نام اِیگزٹ کنٹرول لسٹ اور آئی بی ایم ایس پر ہیں۔ اِس تعداد میں پی ٹی آئی حکومت کے قائم ہونے کے دوران کمی نہ ہو سکی۔ وفاقی وزارت داخلہ کے ذرائع نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ اعلیٰ سیاسی اورسرکاری شخصیات ذاتی دشمنیوں کی خاطر بھی کئی افراد کے نام اِیگزٹ کنٹرول لسٹ اور Integrated Border Management System (IBMS) میں شامل کروا دیتے ہیں جو کسی جرم میں ملوث تک نہیں ہوتے جن کے لیئے اکثر وفاقی وزارت داخلہ پر دباؤ رہتا ہے۔اور فہرست میں ایسے اَفراد کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔ یعنی کہ ایسی اندھیر نگری مچی ہوئی ہے کہ کوئی پرائیویٹ شخص وفاقی وزیر داخلہ، وفاقی سیکرٹری داخلہ یا ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کو کہہ کر یا وازاتِ داخلہ کے اِی سی ایل سیکشن یا ایف آئی اے کے آئی بی ایم ایس میں کسی سیکشن اَفسر یا بابو کو انڈر ٹیبل رَقم دے کر کسی بھی شخص کا نام لسٹ یا سسٹم میں ڈلوا سکتا ہے۔ ایف آئی اے کے اِی سی ایل اور Integrated بارڈر مینجمنٹ سسٹم (IBMS) میں تعینات اَسی فیصد اہلکار کنٹریکٹ پر بھرتی کیئے گئے ہیں جن کے کنٹریکٹ میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ اب اگر ایک شخص کنٹریکٹ پر بھرتی ہوا ہو تو وہ بہت بہادری کے ساتھ قواعد و ضوابط کی دَھجیاں اُڑائے گا جس طرح چند سال قبل ایف آئی اے کی آئی بی ایم ایس سیکشن میں بھرتی ہونے والے اَصغر نامی سسٹم ایڈمنسٹریٹر نے اپنے ایک رشتہ دار کا نام غیر قانونی طور پر سسٹم میں شامل کر دیا تھا جس پر متاثرہ شخص نے ہائی کورٹ میں کیس کیا تو سسٹم ایڈمنسٹریٹر کو نوکری سے ہاتھ دھونے پڑے تھے۔ جس کو بعد میں دوبارہ نوکری پر بحال کرکے اُسی جگہ تعینات کر دیا گیا تھا جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ موصوف کے پاس ایف آئی اے کے اَفسران کی کرپشن کے راز تھے۔ ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ اگر کوئی شخص جو معمولی جرم میں ملوث ہوتو وہ وفاقی وزارت داخلہ کے اِی سی ایل ونگ اور ایف آئی اے کے آئی بی ایم ایس سیکشن میں پیسوں کی لین دین کرکے اپنا نام بآسانی فہرست سے نکلوا بھی سکتا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اِی سی ایل اور آئی بی ایم ایس میں تاحال ایسے افراد بھی موجود ہیں جو فوت ہو چکے ہیں اورقبروں میں اُن کی ہڈیاں بھی بوسیدہ ہو چکی ہوں گی مگر اِی سی ایل اور آئی بی ایم ایس سے اب تک اُن کے نام خارج نہ ہو سکے اور نہ ہی تاحال اَپ ڈیٹ کرنے کی زحمت تک گوارہ کی گئی۔ لسٹ اور سسٹم میں اُن لوگوں کے نام بھی شامل کیئے جاتے ہیں جو کئی کئی سالوں سے پاکستان سے باہر رہ رہے ہیں۔ اگر ایک شخص ملک سے باہر ہی ہے تو اُس کا نام اِی سی ایل یا آئی بی ایم ایس میں شامل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اگر ایک شخص کسی کیس میں مجرم ہے اور اس کا نام اِی سی ایل یا آئی بی ایم ایس میں شامل کیا گیا ہے تو وہ ائیرپورٹ پر تعینات ایف آئی اے سٹاف کی مٹھی گرم کرکے بآسانی ملک سے باہر سفر کر سکتا ہے اور اِسی طرح وہ ملک میں داخل بھی ہو سکتا ہے۔مذکورہ اِی سی ایل اور آئی بی ایم ایس سسٹم میں اب تک اُن افراد کے نام بھی موجود ہیں جن کے خلاف عدالت اور تھانوں سے مقدمات ختم ہو چکے ہیں۔ مطلوب افراد میں سینکڑوں ہر ماہ ملک کے مختلف ائیرپورٹس اور زمینی سرحدوں کے ذریعے بیرون ممالک آتے جاتے ہیں مگر پکڑ صرف اُسی کی ہوتی ہے جو ایف آئی اے والوں کی مٹھی گرم نہ کرے۔ رقم دینے والے کووی آئی پی طریقے سے ائیرپورٹ کے بیک ڈور سے نکال دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں اِی سی ایل اور آئی بی ایم ایس کا نظام اگر پاکستان کی کسی فوجی انٹیلی جنس ایجنسی کے ہاتھ میں ہوتا توآئے روز کئی لوگ ملک آتے اور ملک سے باہر جاتے ہوئے دَھر لیئے جاتے مگر اِی سی ایل اور آئی بی ایم ایس کا یہ نظام بھی کرپشن کرنے کا ذریعہ بن چکا ہے جس کو ناجائز اور غلط طریقے سے استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی خطرناک جرائم پیشہ اَفراد پاکستان سے آسانی کے ساتھ فرار ہو جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کو اِی سی ایل اور آئی بی ایم ایس کو اَپ ڈیٹ کرنے کے متعلق سوموٹو ایکشن لینا ہوگا کیونکہ یہ لسٹ اور سسٹم عوام کو عذاب میں ڈالنے کے لیئے تیار کیا گیا ہے۔ اور صرف سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کو یہ اختیار ہونا چاہیئے کہ وہ کسی ملزم یا مجرم کا نام فہرست یا سسٹم میں شامل کریں۔
 

Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 96 Articles with 80089 views i am a humble person... View More