وزیر اعظم عمران خان نے بچوں کو بھی لالی پاپ دے دیا، بچوں سے کیا وعدہ بھی وفا نہ ہوسکا

image
 
بچے ضد کرتے ہیں اور بڑے ان کو تسلی دیتے ہیں۔ شاید اسی کو عرف عام میں طفل تسلیاں کہتے ہیں۔ ایسی بچکانہ تسلیاں حکومتیں وغیرہ دیتی پھرتی ہیں تاکہ بڑے بھی انسان کے بچے بنے رہیں۔ کسی کنٹینر پر نہ چڑھ جائیں۔ بعض بچے زیادہ ضدی ہوتے ہیں وہ کھیلن کو چاند مانگتے ہیں۔ ان کو اس سے کم کی کوئی پراپرٹی پسند نہیں آتی۔ لیکن منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہونے والے بچوں کا وطن عزیز کی کل آبادی میں تناسب قلیل ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ تھا کہ وہ اقتدار کا پتوار تھامنے کے بعد مملکت خداداد کے بچوں کی کم خوراکی کا مسئلہ حل کردیں گے۔ لیکن عمران خان کی حکومت اس میدان میں بھی صرف کرکٹ کھیلتی نظر آتی ہے کوئی جھنڈے نہیں گاڑے گئے ہیں۔ حالانکہ آئینِ پاکستان کے مطابق ریاست ہر شہری کو بلاتفریق رنگ ونسل، بے روزگاری و معذوری، روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، اور طبی، سہولیات کی فراہمی کی پابند ہے۔
 
پاکستان کے بچوں کی ایک بڑی تعداد تو خوراک میں غذائیت کی کمی سے دوچار ہے جو بچوں کی بڑھوتری پر براہ راست اثر انداز ہے۔ صورتحال اتنی خطرناک ہوچکی ہے کہ اس سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں پاکستان، افغانستان کے بعد دوسرے نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ معاشرہ غذائیت اور وزن کی کمی، ضیاع اور ماﺅں کی صحت کے مسائل سے بری طرح دوچار ہے۔ پاکستان میں تنگدستی کا شکار افراد کی اکثریت ہے جو نہ صرف مہنگائی کی وجہ سے خوراک کی کم مقدار استعمال کرنے پر مجبور ہیں بلکہ انہیں میسر خوراک میں غذائیت (معیار) کی بھی کمی ہے۔
 
image
 
پاکستانی معاشرے میں زچہ کی صحت بھی سنگین مسئلہ ہے۔ جس کی وجہ سے ولادت کے عمل کے دوران ماں اور بچے کی زندگیاں داﺅ پر لگ جاتی ہیں۔ ایسے بچے دنیا میں آنے کے بعد بھی کم خوراکی سے دوچار رہتے ہیں۔ یہ کتنی بڑی بدقسمتی ہے کہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق صرف ملک کی 30 فیصد آبادی کو صاف پانی میسر ہے۔ اشرافیہ، صاحب ثروت افراد تو پینے کا پانی خرید لیتے ہیں۔ لیکن عسرت و تنگدستی کے مارے نفوس آلودہ پانی کے استعمال پر مجبور ہوتے ہیں۔ آلودہ پانی اور صفائی کی ناقص صورتحال کم خوراکی کی وجہ سے کمزور قوت مدافعت کا شکار بچوں اور خواتین کو ایک بیماری سے اٹھنے کے بعد دوسری بیماری سے دوچار کردیتی ہے۔ ماہرین کا مشورہ ہے کہ اس افسوسناک صورتحال پر رونے پیٹنے اور حکومت پر تکیہ کرنے کے بجائے نجی شعبہ بھی آگے آئے، عوام میں شعور اجاگر کرنے میں اپنا کردار اور اس شعبے میں کوشاں فلاحی اداروں سے تعاون کرے۔ مناسب، متوازن، صحت بخش اور معیاری خوراک ہر عمر کے فرد کی صحت، نشوونما اور بیماریوں سے تحفظ کے لیے ناگزیر ہے۔
 
پاکستان میں 38 فیصد بچے پہلے چھ ماہ کی عمر میں مکمل طور پر دودھ سے محروم ہیں، جس کی وجہ سے پانچ سال سے کم آدھے سے زائد بچے وٹامن اے کی کمی کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے مطابق پاکستان میں ہر دس میں سے آٹھ بچے صحیح قسم اور اچھی مقدار کے کھانے سے لطف اندوز نہیں ہو سکتے جس کی وجہ سے بچے سست اور کند ذہن ہوتے ہیں۔ عمر کے حساب سے قد اور وزن بھی مناسب نہیں، اس کی اہم وجہ غذائی عدم تحفظ ہے۔
 
غذائی عدم تحفظ یا فوڈ انسکیورٹی سنگین خطرات کا باعث بنتا ہے۔ غذائی عدم تحفظ کو اِسکے چار اجزاء سے سمجھا جا سکتا ہے۔ خوراک کا موجود نہ ہونا، لوگوں کی رسائی نہ ہونا، خوراک کا قابلِ استعمال نہ ہونا یا خوراک کا جسم میں جذب نہ ہونا یہ تمام اجزاء غذائی عدم تحفظ کو ایک سنگین مسئلہ بناتے ہیں۔ خوراک کا موجود نہ ہونا سے مراد معیاری خوراک کا نہ ہونا ہے۔ قابلِ استعمال نہ ہونے سے مراد خوراک کا صحت بخش، صاف ستھرا اور فائدہ مند نہ ہونا ہے جبکہ عدم انجذاب سے مرادخوراک میں شامل غذائی مرکبات یعنی حیاتین، اور لحمیات کا جذب ہو کر خون میں شامل نہ ہونا ہے۔ خوراک تک رسائی نہ ہونے سے مراد لوگوں کی قوتِ خرید نہ ہونا ہے کہ جس سے وہ خوراک کو بازار سے خرید نہیں سکتے۔ تقریباً 60 فیصد افراد پاکستان میں خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی آمدنی اتنی نہیں کہ تیزی سے بڑھتی خوراک کی قیمتوں سے اپنے کچن کا بجٹ پورا کرسکیں ۔
 
image
 
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان 2050 ء تک آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک ہوگا اور پھر 35 سال کے بعد فصلوں کیلئے پانی کی عدم دستیابی، غذائی بحران میں بے تحاشہ اضافہ کر سکتی ہے۔ اشیائے خوراک بالخصوص آٹے، چینی، چاول، اور مویشیوں کی اسمگلنگ، مسلسل بدعنوانی و بدامنی، بیرونی مالیاتی قرضوں کا دباؤ اور تعلیم و طبی سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جو اقوامِ متحدہ کے وضع کردہ ترقی کے اہداف (سسٹین ایبل ڈیویلپمنٹ گولز) میں سے ایک یعنی بھوک میں کمی کو پورا کرنے میں عملی طور پر ناکام ہے۔
 
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے عالمی ادارہ صحت کے مطابق 21 سے 23 فیصد آبادی غذا کا بڑا حصہ گندم سے پورا کرتے ہیں اور گوشت، دودھ اور پھل خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ موجودہ دور میں کورونا وائرس کی وجہ سے بے روزگاری میں اضافہ اور مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ خرید میں انتہائی کمی واقع ہوئی ہے جس سے لوگ خوراک کی مقدار اور معیار پر سمجھوتہ کرتے ہیں۔ کم مقدار میں معیاری خوراک کھانے کی بجائے زیادہ مقدار میں کم معیاری خوراک کو ترجیح دیتے ہیں۔ جس سے بچوں اور ماؤں میں فولاد، کیلشیم، اور وٹامن اے کی کمی ہو رہی ہے۔
 
image
 
شعبہ اقتصادیات، طب و صحت کے ماہرین کا پھر یہی کہنا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں کو مل کر غذائی بحران، عدم تحفظ کے سدِباب کیلئے لائحہ عمل تشکیل دیں، درست سمت میں کام کریں۔ عوام کو ان کی غذائی عادات اور روزمرہ خوراک کے استعمال کے بارے میں شعور و آگہی دیں۔ غذائیت بھر فصلوں کی پیداوار کے لئے جدید ٹیکنالوجی کسان کو متعارف کرائیں، کسان کی تربیت اور مالی معاونت کریں، ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ اور ناجائز منافع خوری کی روک تھام کریں، ذاتی و سیاسی مفاد کو ترجیح دیے بغیر ایسی پالیسیاں تشکیل دیں جن سے معیشت، سرمایہ کاری، تجارت، ماحولیات، صحت اور تعلیم کی صورتحال بہتر ہوسکے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: