کورونا وائرس: پاکستان میں ویکسین کے لیے سخت سکیورٹی انتظامات کی وجہ کیا ہے؟

image
 
سڑک کے دونوں اطراف سکیورٹی اہلکار تعینات تھے ہمیں لگا شاید کسی خاص شخصیت کی آمد ہے اس لیے سکیورٹی کے اتنے سخت انتظامات کیے گئے ہیں لیکن جب ہم اسلام آباد کے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے پاس پہنچے تو ہمیں احساس ہوا کہ یہ سارے سکیورٹی انتظامات خاص طور پر چین سے پاکستان آنے والی ویکسین کے لیے کیے گئے ہیں۔
 
این سی او سی میں ہیلتھ ورکرز کو کورونا ویکسین دینے کی تقریب میں وفاقی وزرا، چین کے سفیر کے علاوہ تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم نے ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی۔
 
سکیورٹی چیک کے بعد جب ہم این سی او سی کے ہال میں داخل ہوئے تو وہاں پاکستانی اور بین الاقوامی میڈیا بالخصوص چین کے سرکاری میڈیا کے افراد کی بڑی تعداد موجود تھی، جو اس تقریب کی کوریج کرنے کے لیے آئے تھے۔
 
اس تقریب میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر، وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چودھری، وزیراعظم کے مشیر فیصل سلطان اور ثانیہ نشتر جبکہ اس تقریب میں لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر اور ڈی جی آپریشنز اینڈ پلانگ این سی او سی کے علاوہ فوجی افسران کی ایک بڑی تعداد وہاں موجود تھی۔
 
image
 
ویکسین کے لیے سخت سکیورٹی انتظامات کیوں؟
کورونا کی ویکسین لگانے کا عمل دنیا کے متعدد ممالک میں شروع ہوچکا ہے لیکن جب یہ عمل پاکستان میں شروع ہوا تو ویکسین کب آئے گی، اسے کہاں اور کیسے رکھا جائے گا اور اسے کب اور کہاں لگایا جائے گا اس سے متعلق حکام غیر معمولی رازداری کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیے۔
 
اور اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس رازداری کی وجہ ویکسین کو لاحق سکیورٹی خطرات ہیں۔
 
حکومت کی جانب سے ویکسین کی منتقلی اور محفوظ کرنے کے دوران سکیورٹی کا خاص پلان مرتب کیا گیا ہے۔
 
پنجاب کے محکمہ پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کئیر کے جاری کردہ پلان کے مطابق ویکسین کے چوری ہونے، اس کی منتقلی کے دوران شدت پسند حملے اور اسے جعلی ویکسین سے تبدیل کرنے کا خطرہ موجود ہے، جس کے بعد ویکسین کو سخت سکیورٹی انتظامات کے تحت ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جائے گا۔
 
image
 
این سی او سی کی جانب سے جاری کردہ ہدایات کے مطابق ویکسین کی محفوظ منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے ہر گاڑی کے ساتھ پولیس، ایف سی، رینجرز یا فوج کی ایک گاڑی ہونا لازمی ہے جبکہ اس کی منتقلی کا وقت، تاریخ اور گاڑی سے متعلق معلومات کو صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔
 
جبکہ اس کی منتقلی کے دوران یہ بھی یقینی بنایا جائے گا کہ ویکسین لے جانے والی گاڑی رستے میں کہیں نہ رکے۔
 
اس کے علاوہ جب یہ ویکسین کولڈ سٹوریج منتقل کر دی جائے گی تو سی سی ٹی وی کیمروں کے ذریعے اس کی خاص نگرانی کی جائے گی اور کسی ایمرجنسی کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پولیس، ایف سی، رینجرز یا فوج پر مبنی دستہ ( کوئک رسپانس فورس) کو تیار رکھا جائے گا۔
 
image
 
سامنے آنے والے سرکاری دستاویزات کے مطابق سکیورٹی کے یہ تمام انتظامات فرانس کے بین الاقوامی سکیورٹی کے ادارے انٹرپول کی جانب سے ویکسین کو درپیش ممکنہ خطرات سے متعلق جاری وارننگ کے پیش نظر کیے گئے ہیں۔
 
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ویکسین پر کسی شدت پسند حملے سے متعلق تو کوئی معلومات نہیں ہیں لیکن یہ تمام اقدامات ہر قسم کے سکیورٹی خطرات کے پیش نظر کیے گئے ہیں۔
 
’بہت ضروری تھا کہ میں یہ ویکسین لگواؤں‘
 
image
 
تقریب میں اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کے تین فرنٹ لائن ہیلتھ ورکرز کو کورونا سے پچاؤ کے لیے چینی ویکسین سائنو فارم لگائی گئی۔
 
ویکسین لگوانے والی پمز ہسپتال کی نرس رضوانہ یاسمین کا کہنا تھا کہ وہ ویکسین لگوانے کے بعد بالکل مطمئن ہیں اور کسی قسم کی تکلیف محسوس نہیں کر رہی ہیں۔
 
'یہاں آنے سے پہلے میرے بہت سے رشتے داروں نے کہا کہ ابھی یہ ویکسین مت لگوائیں کہیں اس کے کوئی منفی اثرات نہ ہوں۔ لیکن کیونکہ میں فرنٹ لائن ہیلتھ ورکر ہوں اور کورونا کے مریضوں کے علاج میں پیش پیش ہوتی ہوں اس لیے بہت ضروری تھا کہ میں خود کو محفوظ بناؤں۔'
 
رضوانہ یاسمین کا کہنا تھا کہ ان کے بہت سے ساتھی بھی ویکسین لگانے سے متعلق ہچکچاہٹ کا شکار ہیں لیکن ’اب میں جا کر انھیں بتاؤں گی کہ یہ ویکسین بالکل محفوظ ہے تاکہ وہ بھی یہ ویکسین لگوائیں‘۔
 
پاکستان انڈیا سے ویکسین درآمد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا
وفاقی وزیر اسد عمر نے بتایا کہ پاکستان نے انڈیا سے ویکسین درآمد کرنے سے متعلق نہ تو کوئی بات چیت کی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔
 
ان کے مطابق پاکستان اس وقت چین کی دو کمپنیوں جس میں سائنو فارم اور کین سائینو بائیولوجک شامل ہیں سے ویکسین خریدنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔
 
اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت کے کوویکس پروگرام کے تحت بھی اسے آکسفورڈ کی ایسٹرا زینیکا کی ایک کروڑ ستر لاکھ خوراکیں ملنے کی توقع ہے۔
 
تاہم پاکستان نے انڈیا سے ویکسین درآمد کرنے سے متعلق نہ تو کوئی بات چیت کی ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ رکھتا ہے۔
 
Partner Content: BBC Urdu

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: