کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم امت کے احوال سے باخبر ہیں؟

زیر نظر مضمون عز و شان بدایوں علامہ اسید الحق عاصم قادری بدایونی دامت برکاتہم العالیہ کا تحریر کردہ ہے۔ جو کہ اہل سنت کے نامور رسالے جام نور کے اگست ۲۰۰۹ کے ایڈیشن میں شائع ہوا تھا۔ فقیر اہل سنت اس کو عوامی استفادہ کے لئے اور کچھ بد مذہبوں کی پھیلائی ہوئی گمراہی کو دور کرنے کے لئے پیش کر رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

حضرت علامہ ڈاکٹر سید محمود السید صبیح مصر کے بلند پایہ عالم اور وسیع النظر محدث ہیں، آپ کی کتاب ’’اخطاء ابن تیمیۃ فی حق رسول اللّٰہ واہل بیتہٖ‘‘ آپ کی محدثانہ بصیرت، تنقیدی مہارت اور عشق رسول کا منھ بولتا ثبوت ہے ،کتاب کے ہر صفحہ پر عشق و محبت اور تحقیق و تنقید کے ایسے موتی بکھرے ہوئے ہیں کہ جب جب کتاب ہاتھ میں آتی ہے ایک نیا لطف آتا ہے-کتاب کی اہمیت کے پیش نظرخواہش ہوئی کہ اس کو اردو میں منتقل کر دیا جائے تاکہ اردو داں حضرات بھی اس سے استفادہ کر سکیں-راقم الحروف نے مصنف محترم سے ملاقات کرکے اس کتاب کے اردو ترجمہ کی اجازت بھی حاصل کر لی تھی، مگر پھرفوراً ہی ہندستان واپس آنا ہوگیا،اور یہاں کی مصروفیات میں الجھ کریہ اہم کام رہ گیا- اگر کوئی صاحب علم اس طرف توجہ کریں تو یہ ایک بڑا علمی کام ہوگا-

اس کتاب کی ایک فصل کا ترجمہ ہدیۂ قارئین ہے، یاد رہے کہ یہ لفظی ترجمہ نہیں ہے بلکہ تلخیص و اختصار ہے- (اسید الحق قادری)

دورِ حاضر میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے امت محمدیہ کو ایک آزمائش میں مبتلا کیا ہے، یہ آزمائش ان لوگوں کے ذریعہ ہے جو حضور اکرم ﷺ کے روضۂ اقدس کی زیارت سے خود بھی محروم ہیں اور لوگوں کو بھی حضورﷺ کی زیارت نہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں- لوگوں کو زیارت قبر انور سے روکنے کے لیے وہ جرأت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ (معاذ اللہ)’’ اب رسول اللہ کو خود اپنے بارے میں کچھ پتہ نہیں تو امت کے بارے میں کیا خاک علم ہوگا‘‘-

خدا کی قسم ا س طرح کی بات یا تو زندیق کے منھ سے نکل سکتی ہے یا پھر اس منافق کی زبان سے جس کے دل میں رسول اللہ ﷺ کے خلاف عداوت و دشمنی بھری ہو اور وہ حضوراکرم ﷺ کو ایک کمزور اور عاجز کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہو-ایسا قول اسی شخص کی زبان سے ادا ہو سکتا ہے جو دل سے حدیث معراج کی تکذیب کرتا ہولیکن ظاہری طور پر اس کی تکذیب کی جرأت نہ کرتا ہو- جو لوگ اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ علما کی کتابوں میں چراغ لے کر ڈھونڈتے ہیں کہ ان کو اپنے اس عقیدہ پر کوئی دلیل مل جائے اگر چہ وہ دلیل کیسی ہی واہی اور بے سرو پا کیوں نہ ہو-

آخر کار اس زمانے کے بعض مبتدعین کو ایک ایسی چیز مل ہی گئی جس کو وہ اپنے لیے دلیل گمان کرتے ہیں، ان کی یہ دلیل وہ حدیث پاک ہے جس میں حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر کچھ لوگ پانی پینے آئیں گے لیکن مجھے ان کو جام کوثر دینے سے منع کیا جائے گا، میں کہوں گا:
’’اصحابی، اصحابی، فیقال انک لا تدری ما احد ثوا بعدک‘‘
یہ میرے صحابہ ہیں، تو کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد انھوں نے کیا کیا؟

میرے علم میں نہیں ہے کہ علما امت میں سے کسی نے بھی اب تک اس حدیث کو قبر انور میںحضوراکرم ﷺ کی نفی علم کے لیے بطور دلیل پیش کیا ہو، اس حدیث سے قبر انور میں نفی علم پر استدلال اسی دور کی پیداوار ہے- سند کے اعتبار سے ہمیں اس حدیث کی صحت میں شبہ نہیں ہے، لیکن یہ حدیث ’’مشکل‘‘ ہے جیسا کہ بے شمار ائمہ و حفاظ نے اس کی صراحت کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ یہ روایت ایسی دلیلوں کےمعارض ہے جو اس روایت سے زیادہ قوی بھی ہیں اور کثیر بھی، ہم یہاں بعض دلائل کا ذکر کریں گے…

۱-امام بزار حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے باسناد صحیح روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ان للّٰہ ملائکۃ سیاحین یبلغون عن امتی السلام(اللہ تبارک و تعالیٰ کے کچھ فرشتے (دنیا میں) گھومنے والے ہیں جو میری امت کا سلام مجھ تک پہنچاتے ہیں)-

مزید فرمایا کہ : حیاتی خیر لکم تحدثون و تحدث لکم ووفاتی خیرلکم تعرض علیّ اعمالکم فما رأیت من خیر حمدت اللّٰہ علیہ وما رایت من شر استغفرت اللّٰہ لکم-(میری حیات بھی تمہاری لیے بہتر ہے کہ تم گفتگو کرتے ہو اور تمہارے لیے گفتگو کی جاتی ہے اور میرا پردہ فرمانا بھی تمہارے لیے بہتر ہے، تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جائیں گے تو اگر میں ان کو اچھا دیکھوں گا تو اللہ کا شکر ادا کروں گا اور اگر برے اعمال دیکھوں گا تو تمہارے لیے اللہ کی بارگاہ میں استغفار کروں گا)-

یہ حدیث کئی طریقوں سے مروی ہے، ان میں سے صحیح طریقہ وہ ہے جس سے امام بزار نے روایت کیا (مسند بزار، ج ۵/ص: ۳۰۸؍۳۰۹) امام الہیثمی نے مجمع الزوائد میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا اور فرمایا : رجالہ رجال الصحیح (مجمع الزوائد، ج:۹/ص: ۲۴)

اسی طرح حافظ عراقی نے بھی اس کی تصحیح کی اور امام سیوطی نے خصائص کبریٰ میں اس کو صحیح قرار دیا- امام زرقانی نے فرمایا کہ رواہ البزار باسناد جید (اس کو امام بزار نے عمدہ سند کے ساتھ روایت کیا ہے)- یہ حدیث اور بھی طرق سے مروی ہے مثلاً انس بن مالک اور بکر بن عبداللہ المزنی وغیر ہ ،ہم صرف اسی صحیح طریقے کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں جس کی تصحیح چار ائمہ اعلام نے کی ہے-

۲-ایک دوسری روایت بھی گزشتہ روایت کی صحت پر دلالت کرتی ہے اور اس باب یعنی قبر انور میں حضور ﷺکے علم و ادراک سے متعلق ہے، اس کو امام احمد بن حنبل، ابو داؤد، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ نے متعدد طرق سے روایت کیا ہے- حضور علیہ الصلاۃوالسلام نے فرمایا :ان من افضل ایامکم یوم الجمعۃ فیہ خلق آدم وفیہ قبض وفیہ النفخۃ وفیہ الصعقۃ فاکثروا علیّ من الصلاۃ فیہ فان صلاتکم معروضۃ علیّ قالوا وکیف تعرض صلاتنا علیک وقد ارمت فقال ان اللّٰہ عزو جل حرم علی الارض ان تاکل اجساد الانبیائ-

جمعہ تمہارے دنوں میں بہترین دن ہے، اسی دن (حضرت) آدم (علیہ السلام )کی تخلیق کی گئی اور اسی دن ان کی وفات ہوئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا، تو اس دن مجھ پر درود کی کثرت کیا کرو اس لیے کہ تمہارے درود مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں- صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے درود آپ پر کیسے پیش کیے جائیں گے حالانکہ (پردہ فرمانے کے بعد) آپ تو قبر میں ہوں گے، حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حرام کر دیا ہے کہ وہ انبیا(علیہم السلام) کے جسموں کو کھائے-

یہ حدیث مسند احمد بن حنبل (ج ۴/ص:۸)، سنن ابی داؤد (ج ۱/ص :۲۷۵)، سنن نسائی (ج ۱/ص :۵۱۹)، سنن ابن ماجہ (ج ۱/ص :۳۵۴)، صحیح ابن خزیمہ (ج ۳/ص :۱۱۸)، صحیح ابن حبان (ج ۳/ص : ۱۹۰، ۱۹۱)اور مستدرک حاکم (ج ۱/ص :۴۱۳) وغیرہ میں روایت کی گئی ہے- ان کے علاوہ ابن ابی شیبہ، دارمی، طبرانی اور بیہقی نے بھی اس کو روایت کیا ہے- امام ابن خزیمہ، ابن حبان، حاکم اور دار قطنی نے اس کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے- امام نووی نے بھی الاذکار میں اس کی اسناد کے صحیح ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے- حافظ منذری نے الترغیب وا لترہیب میں (ج ۲/ص :۳۲۸) اس کی ایک سند کو جید قرار دیا ہے- امام بیہقی نے اس کو بطریق ابو امامۃ روایت کیا ہے اس طریقے کے بارے میں حافظ ابن حجر فتح الباری میں (ج ۱۱/ص :۱۶۷) ارشاد فرماتے ہیں ’’لا بأس بسندہٖ‘‘-

۳-عام اہل قبور پر ان کے رشتہ دارا ور اقارب کے اعمال پیش کیے جانے کا معاملہ صحابہ و تابعین کے درمیان مشہور و معروف تھا، یہاں تک کہ صحابہ کرام لوگوں کویہ بات بتایا کرتے تھے کہ ان کے مردہ رشتہ داروں کے سامنے زندوں کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں- یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے- حافظ ابن تیمیہ کے شاگرد حافظ ابن کثیر زندوں کے اعمال مردوں پر پیش کیے جانے کے معاملہ میں لکھتے ہیں کہ ’’اس باب میں صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہم) سے بہت سے آثار و روایات مروی ہیں- حضرت عبداللہ ابن رواحۃ کے انصاری رشتہ داروں میں سے ایک فرمایا کرتے تھے :اللّٰہم انی اعوذ بک من عمل اخزیٰ بہ عند عبداللّٰہ بن رواحۃ،اے اللہ میں ایسے عمل سے تیری پناہ مانگتا ہوں جس سے عبداللہ بن رواحہ کی نگاہ میں میری رسوائی ہو‘‘ (تفسیر ابن کثیر، ج ۳/ص :۴۴۰)

بلکہ خود حافظ ابن تیمیہ نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ زندوں کے اعمال مردوں پر پیش کیے جاتے ہیں، اپنے مجموعہ فتاویٰ میں لکھتے ہیں: ولما کانت اعمال الاحیاء تعرض علی الموتٰی کان ابوالدرداء یقول اللّٰہم انی اعوذ بک ان اعمل عملاً اخزیٰ بہٖ عند عبداللّٰہ ابن رواحۃ-(مجموعہ فتاویٰ ابن تیمیہ، ج ۲۴/ص :۳۱۸)

چونکہ زندوں کے اعمال مردوں پر پیش کیے جاتے ہیں اس لیے حضرت ابو دردا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے عمل سے جس سے عبداللہ ابن رواحۃ کی نظر میں میری رسوائی ہو-

سبحان اللہ! ابن تیمیہ اور ان کے ماننے والے عام مردوں پر ان کے زندہ رشتہ داروں کے اعمال پیش کیے جانے کو تو ثابت کرتے ہیں مگر امت کے اعمال اس امت کے نبی پر پیش کیے جانے کا انکار کرتے ہیں-

اموات پر زندوں کے اعمال پیش کیے جانے کے سلسلہ میں مختلف احادیث و آثار مختلف طرق سے مروی ہیں، مثلاً حضرت نعمان بن بشیر فرماتے ہیں کہ میں نے حضور اکرم ﷺ کو فرماتے سنا کہ’’ لوگوں اپنے مردہ بھائیوں کے معاملہ میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تمہارے اعمال ان پر پیش کیے جاتے ہیں‘‘

حضرت نعمان کی اس حدیث کو امام حاکم نے مستدرک میں (ج ۴/ص : ۳۴۲ ) روایت کیا اور فرمایا کہ ’’یہ حدیث صحیح الاسناد ہے‘‘- اگر چہ امام ذہبی نے اس پر تعقیب کی ہے، اس کے علاوہ امام بیہقی نے بھی اس کو شعب الایمان میں (ج ۷/ص : ۲۶۱ ) روایت کیا ہے-

حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :وان اعمالکم تعرض علی اقاربکم وعشائرکم فان کان خیراً فرحوا واستبشروا وقالوا اللّٰھم ھٰذا فضلک ورحمتک فأتمم نعمتک علیہ ویعرض علیہم عمل المسئی فیقولون اللّٰہم الہمہ عملا صالحاً ترضٰی بہٖ عنہ و تقربہ الیک-

تمہارے اعمال تمہارے (مردہ) عزیز و اقارب پر پیش کیےجاتے ہیں، اگر وہ اعمال اچھے ہوتے ہیں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اے اللہ یہ تیرا فضل و رحمت ہے تو اس پر اپنی نعمتوں کا اتمام فرما دے اور جب ان پر برے عمل پیش کیے جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ اے اللہ اس کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما جس سے تو اس سے راضی ہو جائے اور تیری قربت حاصل ہو-

حضرت ابو ایوب انصاری کی اس حدیث کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں (ج ۴/ص : ۱۲۹ ) اور معجم اوسط میں (ج ۱/ص : ۵۴) روایت کیا ہے- امام الہیثمی نے مجمع الزوائد میں (ج ۲/ص : ۳۲۷ ) فرمایا کہ ’’اس کی سند میں مسلمہ بن علی ہیں اور وہ ضعیف ہیں‘‘-

ہم عرض کریں گے کہ یہی حدیث حضرت انس بن مالک سے بھی مروی ہے جس کو امام احمد بن حنبل نے مسند میں (ج ۳/ص : ۱۶۴ ) روایت کیا ہے- اس روایت کے بارے میں امام الہیثمی مجمع الزوائد میں (ج ۲/ص : ۳۲۸، ۳۲۹) فرماتے ہیں کہ ’’اس میں ایک ایسا روای ہے جس کا نام مذکور نہیں ہے‘‘- اسی معنی کی روایت حضرت جابر بن عبداللہ سے بھی مروی ہے جس کو امام طیالسی نے اپنی مسند میں (ج ۱/ص : ۲۴۸) روایت کیا ہے، نیز تفسیر ابن کثیر میں بھی(ج ۲/ص : ۳۸۸)اس کو نقل کیا گیا ہے- اسی معنی کی حدیث حضرت ابو ہریرہ سے بھی موقوفاً مروی ہے جس کو حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں (ج ۳/ص : ۱۵۵) نقل کرکے اس کو صحیح قرار دیا ہے اور اس کی نسبت امام طبری کی جانب کی ہے- امام ابن مبارک نے کتاب الزہد میں (ج ۱/ص : ۴۲) حضرت ابو الدرداء سے مرفوعاً اسی معنی کی حدیث روایت کی ہے-

۴-امام طبرانی وغیرہ نے صحابیٔ رسول حضرت محمد بن فضالہ الظفری سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ رسول اکرم ﷺ مسجد بنی ظفر میں تشریف فرما ہوئے- آپ کے ہمراہ عبداللہ ابن مسعود، معاذ ابن جبل اور دوسرے صحابۂ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) تھے، آپ نے ایک قرآن پڑھنے والے کو تلاوت کا حکم دیا، انھوں نے پڑھنا شروع کیا، جب وہ اس آیت پر پہنچے
’’فکیف اذا جئنا من کل امۃ بشہید وجئنابک علی ھٰؤلاء شہیدا‘‘
(ترجمہ : پھر ان کا کیا حال ہوگا جب ہم ہر امت سے ایک گواہی دینے والا لائیں گے، اور اے نبی! آپ کو ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے)

یہ آیت سن کر حضور اکرم ﷺ رونے لگے اور اتنا روئے کہ آنسو آپ کی داڑھی مبارک پر نظر آنے لگے، پھر آپ نے فرمایا :
ای رب شہدت علی من انا بین ظہرا فیہ فکیف بمن لم أر-
اے پروردگار! میں جن لوگوں کے درمیان ہوں ان پر تو گواہی دوں گا لیکن جن کو میں نے دیکھا نہیں ہے ان پر کیسے گواہی دوں گا‘‘

اس حدیث کو امام طبرانی نے معجم کبیر میں (ج ۱۹/ص : ۲۴۳) روایت کیا ہے، امام الہیثمی نے مجمع الزوائد میں (ج ۷/ص : ۴ ) فرمایا ’’رجالہ ثقات‘‘ (اس حدیث کے راوی ثقہ ہیں) تفسیر در منشور میں (ج ۲/ص : ۵۴۱) امام سیوطی نے اس کی اسناد کو حسن قرار دیا ہے اور اس کی نسبت ابن ابی حاتم کی طرف کی ہے-

اس حدیث پاک میں حضور علیہ السلام کا گریہ فرمانا اور یہ ارشاد فرمانا کہ ’’جن کو میں نے نہیں دیکھا ان کی گواہی کیسے دوں گا‘‘ گویا یہ ایک طرح کی دعا ہے کہ جن کو آپ نے نہیں دیکھا ان کے حال اور اعمال پر بھی آپ کو مطلع کیا جائے تاکہ آپ ان کی بھی گواہی دے سکیں- امام بغوی نے اپنی تفسیر میں جو کچھ فرمایا ہے اس سے بھی ہماری اس بات کی تائید ہوتی ہے، تفسیر بغوی (ج ۱/ص : ۴۲۹) میں فرماتے ہیں :
’’علی ھٰؤلاء شہیدا، شاہداً یشہد علی جمیع الامۃ علی من رأہٗ ومن لم یرأہ‘‘-
(اللہ نے فرمایا کہ ہم آپ کو ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے) آپ تمام امت پر گواہی دیں گے (ظاہری حیات میں) جس کو آپ نے دیکھا ہو اور جس کو نہ دیکھا ہو-

امام طبری تفسیر طبری میں (ج ۵/ص : ۹۲) فرماتے ہیں :بما ذا یشہد؟ فیہ اربعۃ اقوال : احدھا بأنہ قد بلغ امتہ قالہ ابن مسعود، وابن جریح والسدّی ومقاتل، والثانی بایمانھم قالہ ابو العالیۃ والثالث باعمالہم قالہ مجاہد و قتادۃ، والرابع یشہد لہم وعلیہم قالہ الزجاج-

حضور علیہ السلام کس چیز کی گواہی دیں گے؟ اس سلسلے میں چار قول ہیں پہلا قول یہ ہے کہ آپ اس بات کی گواہی دیں گے کہ آپ نے اپنی امت تک دین پہنچا دیا، یہ حضرت ابن مسعود، ابن جریج، سدّی اور مقاتل کا قول ہے، دوسرا قول یہ ہے کہ آپ امت کے ایمان کی گواہی دیں گے یہ ابو العالیہ نے فرمایا ہے، تیسرا قول یہ ہے کہ آپ امت کے اعمال کی گواہی دیں گے یہ حضرت مجاہد اور حضرت قتادہ کا قول ہے- چوتھا یہ کہ آپ کی گواہی ان کے حق میں بھی ہوگی اور ان کے خلاف بھی ہوگی ؟(یعنی مؤمن کے حق میں ہوگی اور کافر کے خلاف ہوگی)‘‘-

حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری (ج ۸/ص : ۱۴۹ ) میں ارشاد فرماتے ہیں :امام خطابی نے فرمایا کہ حضور علیہ السلام نے حضرت فاطمہ سے وفات سے کچھ پہلے ارشاد فرمایا تھا کہ لا کرب علی ابیک بعد الیوم (یعنی اے فاطمہ تمہارے والد کو آج کے دن کے بعد اب کوئی تکلیف نہیں ہوگی) بعض وہ لوگ جن کا شمار اہل علم میں نہیں ہوتا وہ یہ گمان کرتے ہیں کہ :’’حضور علیہ السلام کو علم دیا گیا تھا کہ ان کے بعد ان کی امت میں فتنے اور اختلافات پیدا ہوں گے، امت پر شفقت و محبت کی وجہ سے آپ کو اس کی فکر رہتی تھی، یہ فکر آپ کی تکلیف کا باعث تھی اب چونکہ آپ دنیا سے رخصت ہو رہے ہیں لہٰذا آپ کی یہ فکر بھی دور ہو رہی ہے، اس حدیث میں تکلیف سے یہی مراد ہے‘‘، حالانکہ یہ بالکل بے سر پیر کی بات ہے، اس لیے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ امت پر حضور کی شفقت و محبت آپ کے وفات فرمانے کے ساتھ ہی منقطع اور ختم ہو جائے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ کی امت پر آپ کی شفقت و محبت قیامت تک باقی ہے، کیونکہ آپ ان لوگوں کے لیے بھی مبعوث کیے گئے ہیں جو آپ کے بعد آئیں گے اور ان کے اعمال آپ پر پیش کیے جائیں گے‘‘- (فتح الباری ج ۸/ص : ۱۴۹، ترجمہ ملخصاً)

ہم یہاں عرض کریں گے کہ یہ بات ثابت ہوئی کہ رسول ﷺ ہمارے اعمال پر گواہی دیں گے، تواب جو شخص اس بات کا اعتقاد ہی نہیں رکھتا کہ حضور علیہ السلام پر ان کی قبر انور میں امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں تو پھر اس معترض کے حق میں کون گواہی دے گا؟

حضرت ابن عباس، حضرت حسن بن علی، حضرت عکرمہ، ضحاک اور عبدالعزیز بن یحییٰ وغیرہ سے مروی ہے کہ آیت کریمہ ’’وشاہد و مشہود‘‘ میں شاہد (گواہ) سے مراد حضور اکرم ﷺ کی ذات گرامی ہے-

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے قول کو امام نسائی نے سنن کبریٰ میں (ج ۶/ص : ۵۱۲) روایت کیا ہے، امام االہیثمی نے مجمع الزوائد میں (ج۷/ص : ۱۳۶) میں فرمایا کہ ’’اس کو بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں‘‘- اس کے علاوہ حضرت ابن عباس کا یہ تفسیری قول تفسیر زاد المسیر (ج ۹/ص : ۷۱، ۷۲)، تفسیر ابن کثیر (ج ۴/ص : ۴۹۳)، تفسیر طبری (ج ۵/ص : ۹۲ )اور تفسیر در منشور (ج ۸/ص : ۴۶۴) میں بھی مذکور ہے-

۵-امام مسلم اپنی صحیح میں حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے اچھے اور برے تمام اعمال میرے سامنے پیش کیے گئے تو راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا میں نے اچھے اعمال میں پایا اور برے اعمال میں میں نے وہ تھوک اور بلغم دیکھا جو مسجد سے صاف نہ کیا گیا ہو-

اس سے صاف ظاہر ہے کہ حضور علیہ السلام اپنی امت کے صرف ایمان و کفر اور بڑی بڑی نیکیوں اور گناہوں پر ہی مطلع نہیں ہیں بلکہ آپ کی امت سے جو مستحبات اور خلاف اولیٰ صادر ہوں گے آپ کو ان کا بھی علم دیا گیا-

۶-زیر بحث حدیث جس کو دلیل بنا کر حضور اکرم ﷺ کو اپنی امت کے احوال سے بے خبر قرار دیا جا رہا ہے، یہ حدیث حضرت ابو الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے- حضرت ابو الدرداء نے فرمایا کہ جب حضور نے ارشاد فرمایا کہ مجھ سے کہا جائے گا کہ تمہیں نہیں معلوم کہ انھوں نے تمہارے بعد کیا کیا، تو میں نے (حضرت ابو الدرداء نے) عرض کیا :
یا رسول اللّٰہ ادع اللّٰہ ان لا یجعلنی منہم قال لست منہم-
یا رسول اللہ ﷺ دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے ان لوگوںمیں سے نہ کرے، تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ابو درداء تم ان میں سے نہیں ہو-

یہ حدیث امام طبرانی نے المعجم الاوسط میں (ج ۱/ص : ۱۲۵ ) روایت کی ہے اس ے علاوہ مسند شامیین میں (ج ۲/ص : ۳۱۱) اور ابن عبدالبر نے التمہید میں (ج ۲/ص : ۳۰۴)بھی اس کا ذکر کیا ہے- مجمع الزوائد میں (ج ۹/ص : ۳۶۷) امام الہشیمی نے فرمایا کہ ’’طبرانی نے اس کو معجم اوسط میں روایت کیا ہے اور اسی کی مثل بزار نے بھی روایت کی ہے اور ان دونوں روایتوں کے رجال ثقات ہیں‘‘، نیز حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری میں (ج ۱۱/ص : ۳۸۵ ) اس کی اسناد کو حسن قرار دیا ہے-

حضرت ابو الدرداء سے اس معنی کی ایک اور حدیث مروی ہے آپ فرماتے ہیں کہ :قلت یا رسول اللّٰہ (ﷺ) بلغنی انک تقول ان نأ ساً من امتی سیکفرون بعد ایمانہم قال اجل یا ابا الدرداء ولست منہم-

میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ میری امت کے کچھ لوگ ایمان لانے کے بعد کافر ہو جائیں گے؟ تو آپ نے ارشاد فرمایا ہاں ابو درداء مگر تم ان لوگوں میں سے نہیں ہو-

اس حدیث کو ابن ابی عاصم نے الاحاد والمثانی میں (ج ۱/ص : ۱۲۹ ) روایت کیا، اور طبرانی نے معجم کبیر میں (ج ۱/ص : ۸۹ ) ، امام الہیثمی نے فرمایا کہ ’’اس کو طبرانی نے دو سندوں سے روایت کیا ہے ان میں سے ایک کے رجال ’’رجال صحیح‘‘ ہیں- اس میں ایک راوی ابو عبداللہ الاشعری ہے جو ثقہ ہے‘‘-

حضرت ابو الدرداء کی ان دونوں روایتوں کے سلسلہ میں ہم عرض کریں گے کہ ان سے معلوم ہو رہا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو اس بات کا علم بھی دیا کہ حوض سے واپس کیے جانے والے لوگوں میں کون شامل ہے اور کون شامل نہیں ہے، لہٰذا ’’لا تدری ما احد ثوا بعدک‘‘ کو ظاہر پر محمول کرنا کیسے درست ہو سکتا ہے-

آخر میں ہم عرض کریں گے کہ مبتدعین کا یہ گروہ جان بوجھ کر یا لاشعوری طور پر ایسی چیزوں اور دلیلوں کی تلاش میں رہتا ہے جس سے نبی مکرم ﷺ کے مرتبہ و مقام میں کمی ثابت کی جا سکے اور آپ کو ایک ایسے عام آدمی کی صورت میں پیش کیا جا سکے جو وفات کے بعد اپنے لیے دوسروں کی دعاے مغفرت کا محتاج ہو اور جو اس کی زیارت کرے تو اس کی زیارت سے زائر کو کوئی فائدہ نہ ہو بلکہ زائر کی دعا سے صاحب قبر کو فائدہ ہو (العیاذ باللّٰہ)-

ہمارے زمانے کے زندیقوں اور گستاخوں میں سے ایک شخص نے حضور اکرم ﷺ کے بارے میں لکھا :

میت لا یتکلم ولا یستغفر وقد انقطع عملہ بموتہ انقطع سمعہ بالوفاۃ فالذی ینادیہ لا یسمع نداء ہ حتی یجیبۃ-

وہ مردہ ہیں نہ کلام کر سکتے ہیں نہ استغفار، ان کی موت سے ان کے عمل منقطع ہو گئے اور وفات کے بعد ان کی قوت سماعت بھی منقطع ہو گئی، تو اب جو ان کو پکارتا ہے وہ اس کی پکار ہی نہیں سنتے ہیں تو جواب کیا دیں گے (العیاذ باللّٰہ)

اے عزیز! میں اسرا و معراج والی صحیح حدیث تجھے یاد دلاتا ہوں تو اس کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھ، اس حدیث میں ایسے ایسے اسرار ہیں جن کا علم صرف اللہ کے پاس ہے- رسول اللہ ﷺ نے انبیا علیہم السلام کی حیات (بعد الوفات) مشاہدہ فرمائی، ان کی قبروںمیں ان کی حرکات و سکنات دیکھیں، ان کو مسجد اقصیٰ میں اور آسمانوں میں دیکھا، یہ حضرات حضور (علیہم السلام) کو سلام کر رہے ہیں ان سے گفتگو فرما رہے ہیں- ان کے لیے دعا کر رہے (جیسا کہ صحیح مسلم والی روایت میں ہے)- ان کی امت کے لیے نصیحت کر رہے ہیں-

اے عزیز! یہ بات بھی یاد رکھ کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے حضرت ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی وہ وصیت پوری فرمائی جو انھوںنے اپنی موت کے بعد خواب میں کی تھی، وہ واقعہ بھی یاد کر کہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ۲۰؍غلام آزاد کیے اور فرمایا کہ میںنے رات رسول اللہ ﷺ، ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو خواب میں دیکھا ہے، یہ لوگ مجھ سے کہہ رہے ہیں کہ عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ صبر کرو کل صبح تم ہمارے ساتھ ہوگے، پھر حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے قرآن کریم منگوایا اور اپنے سامنے کھول کر رکھا اور اسی حال میں آپ شہید کر دئیے گئے- حضور اکرم ﷺ، حضرت ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو کیسے معلوم ہوا کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے؟ پھر ان کو حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا وقت کیسے معلوم ہوا؟ اور پھر سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اس خواب پر یقین کیوں کر لیا؟

ان دونوں روایتوں کے بارے میں امام الہیثمی نے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں روایتوں کو عبداللہ اور ابو یعلی نے کبیر میں روایت کیا ہے اور ان دونوں کے راوی ثقات ہیں-(۱)
(جامِ نور اگست ۲۰۰۹ء)
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 408950 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.