دینی کام کا معنی اور اس کے تقاضے کیا ہیں؟

یہ مضمون محقق عصر جناب صاحبزادہ علامہ اُسید الحق عاصم قادری بدایونی دامت برکاتہم العالیہ کا ہے جو کہ ماہنامہ جام نور ، دہلی انڈیا جولائی ۲۰۰۹ کے شمارے میں شائع ہوا۔ آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور دینی کام کرنے کے لئے اپنی ترجیحات کا تعین کریں۔

نکات -
۱-دینی کام اور غیر دینی کام میں فرق کا کیا معیار ہے ؟
۲-دینی کام کی خصوصیات اور کارکنان کے اخلاقی اوصاف کیا ہونے چاہیے؟
۳-عصر حاضر میں ترجیحی طور پر دینی کام کے خانے میں کون کون سے امور آتے ہیں؟
۴-دینی کام میں درہم ودینار کا حصول کس حد تک درست قراردیا جاسکتا ہے؟

’’دینی کام ‘‘یہ ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگراپنی معنوی وسعت کے لحاظ سے اپنے اندر ایک جہان معنی رکھتا ہے،اگر ایک جملے میں اس کی وضاحت کی جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہر وہ کام ’’دینی کام ‘‘ ہے جس سے دین کی تبلیغ واشاعت مقصود ہو،مگر جب اس اجمالی جملے کی تفصیل میں جائیں تو ایسے کاموں کی ایک بہت طویل فہرست مرتب ہوجائے گی جن کے ذریعے دین کی تبلیغ واشاعت کی جاسکتی ہے،درس وتدریس،تصنیف وتالیف، تقریر وخطابت، بیعت وارشاد،طباعت واشاعت ،خدمت خلق وغیرہ یہ سب کام دین کی تبلیغ واشاعت کا وسیلہ ہیں،اگر اور تفصیل میں جائیں تو دینی جلسوں،کانفرنسوں،اور ورک شاپ کا انعقاد،دینی تعلیم کی خاطر اداروں کا قیام، عوامی سطح پر دعوتی اور اصلاحی تنظیموں اور انجمنوں کی تشکیل وغیرہ-یہی وجہ ہے کہ ’’دینی کام‘‘کو کسی محدود خانے میں نہیں رکھا جاسکتا-

جماعت صحابہ (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)کے احوال وآثار کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس جماعت کے ہر فرد نے اپنے اپنے ذوق اور رجحان کے پیش نظر دین کی تبلیغ واشاعت کے لیے الگ الگ قسم کے میدان کا انتخاب کیا،بعض حضرات نے قرآن کریم کی تفسیر سے متعلق احادیث کی روایات پر زیادہ توجہ دی یہ لوگ مفسرین کہلائے،بعض حضرات نے عمومی طور پر احادیث کے حفظ وروایت کا اہتمام کیایہ محدثین کے لقب سے جانے جاتے ہیں،بعض حضرات نے قرآن وحدیث سے مسائل شریعت کے استخراج واستنباط کو زیادہ اہمیت دی جو فقہا کہلائے،کچھ مجاہد تھے،کچھ مبلغ تھے،کچھ نے اسلامی مملکت کے انتظام وانصرام کی کمان سنبھالی اور اسی راستے سے اسلام اورمسلمانوں کی عظیم الشان خدمات انجام دیں ،چونکہ ان تمام میدانوں میں دینی خدمات کے لیے مخلص اور باصلاحیت افرادکی ضرورت تھی لہٰذا ان حضرات نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق اپنے لیے کسی ایک یا چند میدانوں کا انتخاب کر لیا،اور ہرصحابی کا کام ’’دینی کام ‘‘ہی کہلایا،ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی صحابی نے صرف اس کام کو’’ دینی کام‘‘ سمجھا ہو جو وہ خود انجام دے رہے ہیں اور باقی صحابہ کے کاموںکو وہ ’’دینی کام ‘‘نہ سمجھتے ہوں-

اس تمہید کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ آج معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے،آج جو آدمی جس میدان میں دینی خدمات انجام دے رہا ہے اس کی نظر میں دین کے لیے کرنے کا صرف وہی ایک کام ہے ،اگر کوئی کسی اور ذریعہ سے دینی خدمات انجام دے رہا ہے تو پہلا شخص اس کے کام کو ’’دینی کام‘‘ماننے کو تیار نہیں ہے ،یا کم از کم یہ کہ اس کے کام کی اہمیت تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہے ،پہلے شخص کا اصرار ہے کہ جس کام کو میں دینی کام سمجھ کر انجام دے رہا ہوں اب دینی خدمات سے وابستہ تمام افراد وہی کام کریں اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے بلکہ کسی اور ذریعے سے دینی خدمات انجام دے رہے ہیں تو وہ نہ صرف یہ کہ اپنا وقت ضائع کر رہے ہیںبلکہ اس کی نظر میں وہ دین کے مخلص بھی نہیں ہیں اور اپنی دینی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر رہے ہیں،یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ مجھے ذاتی طور پر اس قسم کے حالات کا تجربہ ہے،اور ایسی محدود فکر رکھنے والوں سے براہ راست میرا خود سابقہ پڑچکا ہے-

ابھی دو تین سال پہلے ہماری ایک معروف دعوتی اور اصلاحی تنظیم کے دو تین پر جوش نوجوان میرے پاس آئے اور ایک طویل تمہیدکے بعد فرمایا کہ اللہ نے آپ کو علمی صلاحیت اور وسائل ہر چیز سے نوازا ہے لہٰذا آپ فلاں تنظیم کے طرز پر ایک دعوتی اور اصلاحی جماعت تشکیل دیں تاکہ آپ اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوسکیں،یا پھر ہماری تنظیم کے ساتھ مخلصانہ تعاون پیش کرتے ہوئے اپنی صلاحیتوں اوروسائل کو دین کی خدمت کے لیے وقف کردیں‘‘-اس ناصحانہ اور بزرگانہ گفتگو کو میں نے پورے تحمل سے سنا اور ان کو جواب دیا کہ’’ میں اپنے ناقص علم اور محدود وسائل کے ذریعہ دین کی جو بھی تھوڑی بہت خدمت کر سکتا ہوں اس میں اللہ کے فضل سے کوتاہی نہیں کرتا‘‘،میں نے اپنی دینی مصروفیات کا ایک مختصرسا خاکہ پیش کرنے کے بعد کہا کہ’’ رہی یہ بات کہ میں بھی آپ کی تنظیم میں شامل ہوجاؤں تو پھر جوکام میں کر رہا ہوں وہ کون کرے گا؟اور پھر یہ کہ آپ کے ساتھ تو پہلے ہی سے بعض اہل علم اور مخلص حضرات کام کر ہی رہے ہیں پھر میرے اس جماعت میں شامل ہونے کی کیا ضرورت ہے ‘‘ لیکن ان کے چہروں سے اندازہ ہوا کہ وہ میرے جواب سے مطمئن نہیں ہوئے،غالباً ان کی نظر میں میرا یہ جواب اپنی دینی ذمہ داریوںسے پہلو تہی اور اپنی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کا ایک بہانہ تھا،ان نوجوانوں کے دینی خلوص اور جذبۂ خدمت پر کسی قسم کا شبہ کیے بغیرمیں عرض کروں کہ ان کے مطمئن نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ ان کی نظر میں دینی کام صرف یہ ہے کہ صبح فجر میں گھر گھر جاکر لوگوں کو نماز کے لیے بے دار کرنا،مساجد میں ہفتہ وار وعظ اور اصلاحی خطبات کا اہتمام کرنا،لوگوں کو سنتوں پر عمل کرنے پر آمادہ کرنا وغیرہ-اب اگر کوئی یہ کام نہیں کر رہا ہے تو وہ ان کی نظر میں اپنی دینی ذمہ داریوں سے غافل ہے-ابھی کچھ ماہ پہلے ایک دار العلوم میں جا نے کا اتفاق ہوا وہاں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی جو درس نظامی کے ایک منجھے ہوئے مدرس ہیں،انہوں نے میری مصروفیات کے بارے میں سوال کیاتو میں نے چند جملوں میں اپنی قلمی مصروفیات کے بارے میں ان کو بتایا،میرا جواب سن کر ان کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی مسکراہٹ مچل گئی،میں فوراً ان کی اس ’’حقارت آمیز‘‘مسکراہٹ کا سبب جان گیا اور میں نے پہلو بدلے بغیر ان کو بتایا کہ میںمدرسہ قادریہ بدایوں میں باقاعدہ تدریسی خدمات انجام دیتا ہوں ،انہوں نے پوچھا کیا پڑھاتے ہیں؟میں نے کہا کہ ترمذی شریف،شرح عقائد،ہدایہ،شرح نخبۃ الفکر ،اور عربی ادب وانشا وغیرہ،یہ سن کر انہوں نے فرمایا کہ ’’ہاں یہ ہے بنیادی کام ورنہ اگر صرف ماہناموں میں مضمون ہی لکھتے رہے تو آپ کی سب صلاحیتیں ضائع ہوجائیں گی‘‘،میں نے ان کے اس تبصرہ پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں سمجھا-آج سے دو سال پہلے تک بعض احباب کو مجھ سے یہ شکایت تھی کہ میں اپنے اکابر کی کتابوں کوترجمہ ، تخریج اور جدید ترتیب کے ساتھ منظر عام پر لانے کی طرف توجہ کیوں نہیں کرتا ان کا مطالبہ تھا کہ میں سارے کام چھوڑ کر پہلی فرصت میں یہ کام کروں،مگر جب پچھلے دو سال کے عرصے میں مَیں نے بزرگوں کی تقریباً ۲۵ کتابیں جدید معیار کے مطابق شائع کردیں تو اب ایک صاحب کو یہ شکوہ ہے کہ مَیںاپنا وقت اور صلاحیتیں ان کتابوں کی جدید کاری میں صرف کرنے کی بجائے جدید موضوعات پر خودکچھ کیوں نہیں لکھتا اس سلسلہ میں موصوف نے مجھے ’’جدید موضوعات‘‘کی ایک طویل فہرست زبانی سنا دی،میرے بعض ازہری پاکستانی دوست مجھ سے اس بات پرشاکی ہیں کہ میں نے ازہر سے فارغ ہونے کے بعد اردو میں کیوں لکھنا شروع کردیا ان کی نظر میں’’دینی خدمت‘‘کا حق اس وقت ادا ہوتاجب میں عربی میں لکھتا اور اس کی اشاعت عالم عرب سے کرواتا،پچھلے سال بعض حالات سے بد دل ہوکر میںنے اردو میں نہ لکھنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور پوری سنجیدگی سے عربی میں مقالات لکھنا شروع کردیے تھے، جب لگاتارچار پانچ ماہ تک جام نور میں میرا کوئی مضمون شائع نہیں ہوااور احباب کو اس کی وجہ معلوم ہوئی تو ہماری جماعت کے ایک بہت بڑے قابل احترام مفتی صاحب نے میرے اس فیصلے پر سخت ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ عربی میں لکھنے والے بہت پڑے ہوئے ہیں،اردو والے اس بات کے زیادہ حقدارہیں کہ آپ کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں- ایک صاحب مجھے اس بات کا قائل کرنے پر مُصر ہوگئے کہ میں بھی جامعۃ البرکات علی گڑھ کی طرز کا کوئی ادارہ بدایوں میں قائم کروں اور دوسری طرف بعض قدامت پسند حضرات جامعہ البرکات کو ’’دینی کام ‘‘تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں-میرے ایک مفتی دوست گزشتہ تین سال سے مجھ پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ میںفقہی موضوعات کی طرف توجہ کروں اورفقہی سیمناروں میں شرکت کروں،یا کم از کم مدرسہ قادریہ کے دارالافتا سے میں خود فتویٰ دوں، آپ کو شاید حیرت ہو کہ ایک ’’پڑھے لکھے مولانا‘‘نے مجھے یہ مشورہ دے ڈالاکہ میں اپنے والد محترم سے بعض اعمال ووظائف کی اجازت لے لوں اور بعض تعویذوں کی زکاۃ نکال کر ان کا عامل بن جائوں اور اس ذریعے سے خلق خدا کی خدمت کروں- ایک آزاد خیال مولانا جواپنے گمان میں ’’عصری لب ولہجے میں اسلام کی جدید تفہیم ‘‘کا بیڑا اٹھائے ہوئے ہیں ان کو امام غزالی سے لے کر آج تک تمام علما سے یہ شکایت ہے کہ ان لوگوں نے غیر مسلموں کے درمیان دعوت وتبلیغ کے لیے کچھ نہیں کیا حالانکہ سب سے بڑا اور اہم’’ دینی کام‘‘یہی تھا-

ان تمام مثالوں میں بنیادی نکتہ یہی ہے کہ آدمی خود جو کام کر رہا ہے اسی کو وہ صحیح معنی میں ’’کام‘‘سمجھتا ہے ،باقی لوگوں کے کام کو وہ یا تو دینی کام ہی نہیں سمجھتایا پھر اس کام کی اہمیت وضرورت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے -اس فکر ی جمودسے باہر آنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)کے اسوے کو پیش نظر رکھیں،جس کا ایک مختصر سا خاکہ میں نے مضمون کے شروع میں پیش کیا تھا-مجھے یہ بات تسلیم ہے کہ بعض حضرات کبھی کسی غیر اہم کام میں اپنی قیمتی صلاحیتیں صرف کردیتے ہیں،جب کہ ان سے اس سے زیادہ اہم کام کی توقع کی جاسکتی ہے ،یہ بھی درست ہے کہ بعض لوگ صلاحیت اور وسائل کے باوجوداپنی ذمہ داریوں سے غفلت برتتے ہیں،اور یہ بھی درست ہے کہ بعض افراد ،ان کی صلاحیتیں،ان کے وسائل،اوران کے ارد گر کے حالات کے پیش نظر بعض کاموں کو زیادہ اہم،اہم،کم اہم اور غیر اہم قرار دیا جاسکتا ہے لیکن بیک جنبش قلم کسی کے کام کو ’’دینی کام ‘‘کے زمرے سے خارج کر دینا کوئی انصاف کی بات نہیں ہے ،حالانکہ ہم آئے دن اس قسم کی ’’ناانصافیوں‘‘کے مرتکب ہوتے ہیں-ہمارے اندر کشادہ قلبی ہونی چاہیے،حالات کا گہرائی سے جائزہ لینے کا شعور ہونا چاہیے،دینی کام کرنے والوں کے د رمیان اتحاد عمل نہیں بلکہ اشتراک عمل کی بنیادوں پر ہم آہنگی ہونا چاہیے،تمام افراد اگر ایک ہی کام کے پیچھے پڑ جائیں اور باقی سارے کاموں کو غیر ضروری اور غیر اہم سمجھ کر چھوڑ دیا جائے تو پورا نظام درہم برہم ہوجائے گا،ترجیحی بنیادوں پر کام کی اہمیت کا تعین کیا جائے ،جس کام کی جہاں اور جس قدر ضرورت ہواس کے مطابق اقدام کرنا چاہیے اسی میں ہماری فلاح اور کامیابی کا راز پوشیدہ ہے - (جام نور جولائی ۲۰۰۹ء)
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 410824 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.