میرا چاند

1928 میں موجودہ بھارت کے ضلع ہوشیارپور گاؤں پنام میں راجپوت گھرانے میں حاجی شہباز خاں صاحب کے گھر ایک اللہ کی نعمت بیٹے کی صورت میں نازل ہوئی,
حاجی صاحب نے اس بچے کا نام محمد زکریا رکھا,

وقت گزرتا گیا, والدین کی نگرانی میں بچے کی تربیت ہوتی رہی, آخر کار وہ وقت آیا کہ غلامی کے ماحول سے آزادی کی آزاد فضاؤں میں ہجرت کا اعلان ہوگیا,

حاجی شہباز صاحب کا راجپوت گھرانہ 1947 میں ہوشیارپور سے ہجرت کر کے پاک سر زمین تب کا لائل پور اور موجودہ فیصل آباد کے گاؤں رتن میں رہائش پزیر ہوا, لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا,

میں تیرے نام سے کرتا ھوں ابتدا مولا
میرے الفاظ کو بخش دے حیات مولا

تاریخ اسلامیہ گواہ ہے کہ اعلان نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد اسلام کی تعلیمات کے لیے قائم کیے گئے پہلے مدرسے سے آج تک قائم کیے گئے تمام مدراس کی تعلیم ؤ تربیت معاشرے کے روشن مستقبل کی ضامن ہے ,
کیونکہ مدارسِ دینیہ اسلام کے قلعہ ہیں ہر دور میں معاشرے کی اصلاح و بہبود کے لیے ان کی نمایاں حیثیت رہی ہے یقینا ان مدارس کی بدولت ہی اسلامی اقدار تہذیب و ثقافت کے خدوخال نمایاں نظر آرہے ہیں۔
مدارس اسلامیہ سے فراغت پانے والے علماء کرام، عوام الناس کی رشد و ہدایت کے لیے لیل و نہار مصروف کار ہیں اس کرہ ارض پر کئی ممتاز جامعات موجود ہیں .
اس لیے حاجی شہباز خاں صاحب نے اپنے لخت جگر محمد زکریا کو 1948 میں اسلام کی ابدی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دارالعلوم دیوبند بھارت روانہ کر دیا,

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
محمد زکریا کی وہاں ابدی ؤ لازمی تعلیم ؤ تربیت جاری تھی کہ 1952 میں محمد زکریا کا شمار حضرت مدنی کے خصوصی شاگردوں میں ہونے لگا, میں سمجھتا ہوں یہ ہے وہ پل جب محمد زکریا کو مولانا محمد زکریا قاسمی کے نام سے منسوب کر دیا گیا کیونکہ جس شاگرد کو حضرت مدنی کی خدمت, کا موقع ملا ہو وہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ معاشرے کا درد ؤ غم نہ رکھتا ہو.
1957 میں حضرت مدنی کی وفات کے بعد حضرت مولانا محمد زکریا قاسمی صاحب کچھ عرصہ وہاں گزارنے کے دوبارہ واپس اپنے دیس پاکستان کے شہر, روشنی کے شہر کراچی آگے.
میرے وطن عزیز کی سرزمین ہر لحاظ سے زرخیز ہے ,
چاہے وہ سیاسی میدان ہو، یا تعلیمی ،کھیل کا میدان ہو یا سائنسی، ادب کا میدان ہو یا غیر نصابی ۔
وطن عزیز میں بے شمار فلاحی و ادبی تنظیمیں،فورم کام کر رہے ہیں۔ اور ہر فورم اپنے وسائل کے مطابق اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
ایسا ہی ایک کردار حضرت مولانا محمد زکریا قاسمی صاحب کا تھا, کراچی میں مدرسہ مظہرالعلوم مارکیٹ کراچی پڑھانے اور خیرنی مسجد میں امامت ؤ خطابت کا فرض نبھایا, حالات بدلتے گۓ, دیوبند کے طالب علم کی زندگی کا سفر چلتا رہا, سفر زندگی میں ایک اور ایسا ستارہ ملا کہ جس سے منزل آسان ہو گئ, دارالعلوم کراچی میں حضرت مولانا مفتی شفیع صاحب کی رفاقت حاصل ہوئی, حضرت مولانا احتشام الحق کی ساتھ ملا, صبح سے شام اور شام سے رات تعلیمی ؤ تدریسی سلسلہ چلتا رہا,

کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے

حافظ, قاری, عالم، مبلغ ؤ داعی، صحافی، قائد، کئی عالمی لغات پر عبور سمیت عربی اردو, فارسی میں مکمل روانی سے تکلم کرنے کا فن، پرکشش شخصیت، نڈر اور بے باک تجزیہ نگار، ہر سطح پر اسلام اور علماء حق کے ترجمان علماء دیوبند کے روحانی وارث، عرب وعجم سے محبوب رویہ ، ختم نبوت وحرمین شریفین کا ہرصف اول محافظ مجاہد ، جلال وجمال کا پیکر، مختلف لوکل فلاحی اداروں اور تنظیموں کے سربراہ, نیز ہر وقت اور مشکل میں دینی مدارس اور علماء کے ساتھ ہمدردی رکھنے والے نابغہ روز گار, قوم وملت کا قیمتی سرمایہ، اسلام پاکستان اور علماء دیوبند کا افتخار اور علماء اسلام کا سرخیل تھے.
اب اس ستارے کو ضرورت محسوس ہوئی کہ دین اسلام کی تعلیم کو عام کرنے کے لیے اپنی زندگی کے تجربے کو نئی نسل تک پہنچایا جاۓ.
لہذا
1967 میں گلبرگ کراچی میں جامعہ اسلامیہ انوارالعلوم کی بنیاد رکھی جو اللہ کے فضل ؤ کرم سے آج تک انکے لخت جگر حضرت مولانا اسد زکریا قاسمی صاحب کی راہنمانی میں دین اسلام کی شمع روشن کر رہا ہے,
1967 کے حضرت مولانا محمد زکریا قاسمی صاحب کا سیاسی, فلاحی, تدریسی تو چل ہی رہا تھا لیکن حالات ؤ واقعات کے پیش نظر حضرت کو سر زمین پاکستان پر ایک اور روشن کردار, عالم دین حضرت مفتی محمود صاحب کی رفاقت میں سیاسی سفر کا آغاز کرنا پڑا جو کہ اہل کراچی اور دین اسلام کی سربلندی کے وقت کی اہم ضرورت تھی,
لہذا 1971 تک جمیت علماۓ اسلام کراچی کے امیر کی حیثیت سے کام کرتے رہے,
پوری دنیا ایک اسٹیج کی مانند ہے, لیکن دنیا کی اسٹیج پر ہر کردار اپنے فن سے دنیا کی کایا پلٹنے سے قاصر ہے ،
اسلامی سوچ ہی بندے کو قدرتی سوچ اور افکار دیتی ہے۔ دنیا کی کایا پلٹنے میں اسلامی سوچ کا کردار بڑا اہم رہا ہے ۔ ہر بندے میں کوئی نہ کوئی صلاحیت قدرت نے ودیعت کر رکھی ہوتی ہے۔جب ہم ان صلاحیتوں کو پروان نہیں چڑھنے دیتے،تو انسان کے اندر موجود صلاحیتوں کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
فرض کریں ایک بچہ جس میں لکھنے کی صلاحیت موجود ہے، اس میں پریکٹیکل کرنے کی صلاحیت موجود ہے ، ہم اس بچے کو لکھنے نہیں دیتے،پریکٹیکل کرنے نہیں دیتے، تو ایک قائد کی موت ہوجاتی ہے۔
ایک انجینئر کی موت ہو جاتی ہے۔
اللہ نے قلم کی اہمیت کو پہلی وحی میں ذکر کرکے واضح کیا۔ اور اس قلم کی قسم کھائی ہے ,
علم ہی بدولت قلم کار پیدا ہوتے ہیں، جو قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔اور یہ قلمکار قوموں کی تاریخ میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ قلم ہی کے ذریعے خواب غفلت میں ڈوبی ہوئی قوموں کو جگایا گیا۔
اسی قلم کے ذریعہ شاعروں کی شاعری کو دوام بخشا گیا۔ قلم کی نوک تلوار سے بھی زیادہ تیز ہوتی ہے۔ ادیبوں،شاعروں نے قلم ہی کے بل بوتے پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔
آج اگر تاریخ میں کوئی فلسفی سیاستدان قلمکار زندہ ہے،تو یہ قلم ہی کی بدولت ہے لیکن قلم محتاج ہے علم ہے اور علم کی عطا اللہ کریم کے پاس ہے. جس میرے اللہ نے انسان کو علم عطا کیا ہے اگر میرا خالق اس بندے کے علم کو قبولیت عطا فرماتا ہے حق کی آواز بلند کرنے والا زکریا قاسمی بنتا ہے,

پہلی ملاقات میں ہوئی محبت جو ان سے
بس لوگوں سے سنا! ہم عمر بسر کرتے ہیں

اسی لیے 1977 کے الیکشن میں پاکستان قومی اتحاد کے ٹکٹ پر NA11 کراچی اسکے وقت کے وزیراعظم بھٹو صاحب کے قریبی ساتھی عبدالحفیظ پیرزادہ کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوۓ .
لیکن حالات کی ستم اندھیری کہ الیکشن دھاندلی کی نظر ہو گیا, صوبائی الیکشن کا بائیکاٹ اور نظام مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم تحریک کا آغاز ہو گیا,
تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کراچی کی قیادت کی اور آپکو کرادر مجاہد تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے نام سے جانا جانے لگا,
کراچی بنس روڑ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ تحریک نظام مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے ڈٹ جانے والے حضرت محمد زکریا قاسمی صاحب اس تاریخی واقعہ میں بھی پیش پیش تھے کہ جب وقت کے فرعون کراچی بنس روڑ پر تین لائن لگا کر اسلام کے بیٹوں کو آزامانہ چاہتے تھے,
دین محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم دیکھنا چاہتے تھے, لیکن نظام مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے اپنی جانوں کی بازی لگانے والے, وقت کے فرعون کی جانب سے لگائی جانے والی تین لائن کراس کرنے والوں میں حضرت محمد زکریا قاسمی پیش پیش تھے, گرفتاری ہوئی اور تقریباً 7 ماہ سنڑل جیل کراچی میں گزارے.
دوران اسیری حضرت مولانا محمد زکریا قاسمی صاحب کی ملاقات ,حضرت مولانا شاہ احمد نورانی صاحب, حضرت مولانا سید منور حسن صاحب, ڈاکٹر مبین اختر صاحب, خواجہ شرف السلام صاحب, حضرت مولانا مفتی محمود صاحب سے ہوئی,
زندہ دل, بہادر اس قدر کہ جنرل ضیاءالحق کے دور مارشل لا میں بھی اپنی سیاسی, سماجی ؤ فلاحی , دینی و تدریسی سرگرمیاں جاری رکھی,

محرومیوں کے دور میں کن حسرتوں کے ساتھ
ہم پتھروں کے دل میں خدا ڈھونڈتے رہے

غیر جماعتی الیکشن میں نارتھ کراچی سے صوبائی اسمبلی سندھ کے رکن منتخب ہوۓ.
1985 تا 1988سندھ اسمبلی بطور پارلیمانی سیکڑی ,اینٹی کرپشن کمیٹی کراچی کے چیرمین بھی تھے,

میسر کر دے جو صدیوں کی قربتیں ۔۔
سنگ تیرے وہ اک لمحہ جینا چاہوں ۔۔

زندگی بھی اللہ کا انعام اور موت بھی اللہ کا تحفہ ہے, جن کے لیے اس دنیا وجود سجایا گیا تھا اگر انکو زندگی کا ایک خاص وقت گزارنے کے بعد موت کا ذائقہ چکنا پڑا تھا تو میرے حضرت مولانا محمد زکریا قاسمی صاحب اپنی زندگی سرور کائنات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے دین کی سربلندی میں گزارتے ہوۓ اس فانی دنیا سے ابدی زندگی کی طرف روانہ ہوئے. جی 1988 میں مختصراً علالت کے اپنے خالق ؤ مالک کے پاس چلے گۓ.
اللہ کریم انکو جنت میں جگہ عطا فرماۓ.
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 459538 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More