ماہرارضیات محمد حسین چغتائی

آپ16نومبر 1935ء کو لاہور میں پیداہوئے ‘ چغتائی آرٹ کے بانی عبدالرحمن چغتائی اورغازی علم دین شہید آپ کے قریبی عزیزوں میں شامل تھے۔اس کے باوجود کہ آپ کے والد فرینچر سازی کاکام کرتے تھے انہوں نے اپنے اس بیٹے کوحصول تعلیم کے لیے ہی مخصوص کیے رکھا ۔1950ء میں ایف سی کالج سے جیالوجی ( علم ارضیات ) میں ماسٹرڈگری حاصل کرنے کے بعد آپ نے پہلی ملازمت 1959ء میں تربیلا ڈیم میں شروع کی ۔آپ کی فنی مہارت کو دیکھتے ہوئے 1967ء میں ویانا یونیورسٹی بھجوادیاگیا جہاں سے آپ نے NATMمیں مہارت حاصل کی ۔یہ سرنگ سازی کو مضبوط کرنے کاایک منفرد طریقہ ہے ‘ وطن واپسی پر آپ نے تربیلا میں دو بڑی سرنگیں اس طریقہ کار کے تحت بنائیں۔بعدازاں آپ کی خدمات فوج کے سپردکردی گئیں جہاں لواری ٹنل جیسا دشوار کام آپ کے سپرد ہوا۔جیسے ہی یہ کام مکمل ہوا تو آپ ایٹمی توانائی کمیشن سے وابستہ کردیئے گئے، جو ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول کے لیے کام کررہا تھا ۔1977ء کے اوائل میں ایٹمی توانائی کمیشن کے تین سائنس دان بلوچستان کے کچھ علاقوں کی ریکی کے لیے خفیہ طور پر کوئٹہ پہنچے۔ان میں ڈاکٹر اشفاق احمد خاں ‘ ڈاکٹر احسن مبارک اور محمد حسین چغتائی شامل تھے۔اسی وقت چاغی کے پہاڑ ایٹمی دھماکوں کے لیے منتخب کرلیے گئے ۔سائٹ پر رہنے کے لیے خیمے لگانے کی بجائے بلوچی گاؤں طرز پر مٹی اور پتھر سے جھگیاں بنائی گئیں ۔یہاں موجود تمام افراد بلوچیوں کی طرح شلوار قمیض پہنتے اور سر پر پگڑی کی طرح کپڑا رکھتے تھے ۔یہاں ایک مزار حضرت ملک سرند ا ؒ کے نام سے منسوب تھا جہاں سانپوں کی بہتات تھی ۔اس علاقے میں سانپ اس قدر زیادہ تھے کہ کبھی سانپ بستر پر گر جاتے تو کبھی جوتوں میں گھسے نظر آتے ‘غسل خانے میں نہانے جاتے تو یہاں بھی سانپ ہی استقبال کرتے۔لیکن یہ بھی ایک معجزہ ہے کہ کسی ایک سانپ نے بھی ایٹمی سرنگیں کھودنے والے افراد کو نہیں ڈسا۔کہاجاتا ہے کہ یہ سانپ ملک سرنداؒ کے معتقد ہیں۔مقامی لوگوں کے بقول اگر ان سانپوں کو مارا نہ جائے تو وہ کسی کو نہیں ڈستے۔ ابتدائی ایٹمی دھاکوں کے لیے ضلی چاغی میں واقع پتھریلے پہاڑوں کے سلسلے راسکوہ پر محمد حسین چغتائی کی قیادت میں ماہرین کی ایک ٹیم نے کام شروع کیا۔ جس پہاڑ کو ہمیشہ کے لیے تاریخ میں زندہ رہنا تھا اس کا نام "کمباران"ہے جبکہ 30مئی 1998ء کو بقیہ ایٹمی دھماکوں کے لیے خاران کے صحرا میں سڑک سے 60کلومیٹر دور واقع صحرا میں تیار کی جانے والی ایٹمی سرنگ میں کیے گئے۔یہاں پینے والا پانی بھی دستیاب نہیں تھا جو 80کلومیٹر دور سے منگوایا جاتا۔ ایٹمی دھماکوں کے لیے دوسری سائٹ کاانتخاب محمد حسین چغتائی نے کیا جو چاغی سے 210کلومیٹر دور ایک صحرا میں تھی۔ سڑک سے اس مقام کا فاصلہ 60کلومیٹر دور تھا جہاں ریت ہی ریت دکھائی تھی اگر کوئی گاڑی ریت میں پھنس جاتی تو اسے نکالنے کے لیے گھنٹوں لگتے ۔ریت کاطوفان آتا تو سب کچھ اڑکر لے جاتا۔کھانے پینے کی ہر چیز میں ریت بھر جاتی۔سخت گرمی کے موسم میں جبکہ درجہ حرارت 59ڈگری ہوتا توکام کرنا انتہائی مشکل ہوتا۔لیکن اس تپتے ہوئے صحرا میں محمد حسین چغتائی سمیت تمام ورکروں نے اپنا عیش وآارام چھوڑ کر وطن عزیز پاکستان کی بقا اور سلامتی کے لیے بدترین حالات میں کئی سال وہاں قیام کیا ۔جہاں پینے کا پانی بھی گاڑی پر 60کلومیٹر دور سے لایا جاتا۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ پانی لانے والا ٹینکر ریت میں پھنس جاتا تو دو تین دن تک پانی کے بغیر ہی گزارا کرنا پڑتا۔لیکن وطن عزیز کی خاطرمحمد حسین چغتائی سمیت تمام ورکروں نے اف تک نہ کی۔ریت کی چمک اور ریت کے ذرات آنکھوں میں مسلسل پڑنے سے محمد حسین چغتائی کی آنکھیں خراب ہوگئیں ڈاکٹر وں کے مطابق خشک ہونے کے ساتھ ساتھ ریت کی وجہ سے ان کی آنکھوں میں خراشیں پیدا ہوچکی تھیں جس کی وجہ سے ہر وقت جلن اور بینائی بھی کم ہوتی چلی گئی ۔یہاں پانچ سال سرنگوں کی کھدائی اور تیاری میں صرف ہوگئے جب سرنگ مکمل ہوگئی تواس کے دھانے کو ڈھانپ دیا گیا۔ ان سرنگوں کو self sealing کی طرز پر تعمیر کیا گیا تھا جب دھماکہ ہو تو ایٹمی دباؤ باہر آنے کا امکان نہ رہے ۔چاغی میں بنائی جانے والی سرنگ کی لمبائی 3335فٹ (ایک کلومیٹر) اور چوڑائی 8-9فٹ تھی ۔سرنگ اور کنوئیں کی تیاری کے ساتھ ساتھ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کی جانب سے محکمہ موسمیات طرز کے اسٹیشن قائم کیے تاکہ علاقے کی آب وہوا اور موسم میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کی مسلسل رپورٹ رکھی جاسکے۔۔محمد حسین چغتائی کے مطابق دو درجن کولڈٹیسٹ سائٹس ‘ 46چھوٹی سرنگیں اور 35زیر زمین رہائشی کمرے اپنی نگرانی میں تعمیرکروائے ۔1996ء میں اس اندیشے کے پیش نظر کہ بھارت پوکھران میں ایٹمی دھماکے کی تیاری کررہا ہے چاغی میں تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے تھے جب بھارت نے 11اور 13مئی 1998ء کو پوکھران میں ایٹمی دھماکے کیے توپاکستان کے ایٹمی سائنس دانوں کی ٹیم ڈاکٹر ثمرمبارک مندکی سربراہی میں چاغی پہنچی اور 28مئی 1998ء کی سہ پہر یکے بعد دیگرے پانچ ایٹمی دھماکے کرکے نہ صرف بھارت کا منہ توڑ جواب دے دیا بلکہ امریکہ سمیت دیگر عالمی طاقتوں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا ۔ ان کامیابیوں کا سہرا ڈاکٹر عبدالقدیر خان ‘ ڈاکٹر ثمرمبارک مند سمیت دیگر ایٹمی سائنس دانوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے صف اول کے ماہر ارضیات محمد حسین چغتائی کے سر بندھتا ہے ۔ میں سمجھتا ہوں ایک ماہر ارضیات کی اہمیت ایٹمی دھماکوں میں ایسے ہی ہے جیسے انسانی جسم میں دماغ کی ۔وہ پہلے سرنگ کی فزیبلٹی بناتا ہے ‘ ضروریات کاتعین کرکے پھر دوران تعمیر تمام مراحل کی نگرانی کاذمہ دار بھی ہوتا ہے ۔بیشک ہم خود کو ایک ایٹمی طاقت کہتے ہوئے سر فخر سے بلند تو کرلیتے ہیں لیکن اپنے ہیروز کی خدمات کا قومی سطح پراعتراف کرنے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں کرتے ۔ماہر ارضیات محمد حسین چغتائی 12نومبر 2019ء کو چپ چاپ دنیا سے رخصت ہوگئے ۔نہ کسی سول سوسائٹی نے ان کے گھر کے سامنے پھول رکھنے کی ضرورت محسو س کی اورنہ ہی حکمرانوں میں سے کسی نے ان کی خدمات کا اعتراف کرنا ضروری سمجھا۔اﷲ پاکستانی کے اس خاموش ہیرو کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 670960 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.