آنکھ پھڑک رہی ہے، کچھ غلط ہونے والا کیا؟ آنکھ کیوں پھڑکتی ہے، اصل وجوہات جانیں

image
 
جب بھی بائیں آنکھ پھڑکتی ہے تو لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ آنکھ پھڑکنے کے بعد خود پریشان بھی ہوتے ہیں جب تک کہ آنکھ پھڑکنا بند نہ ہوجائے۔ ویسے اکثر لوگ اس وجہ سے بھی آنکھ پھڑکنے کے بعد پریشان ہوتے ہیں، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ لوگ ان کی آنکھ کو پھڑکتا ہوا دیکھ رہے ہیں ، اس لئے وہ شرمندہ سے ہوتے ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ لوگ انہیں ہی دیکھ رہے ہیں۔ ویسے تو آنکھ پھڑکنے سے کوئی خاص نقصان تو نہیں ہوتا البتہ لوگ اس بارے میں ضرور جاننا چاہیں گے کہ آخر ان کی آنکھ پھڑتی کیوں ہے، ہماری ویب کے قارئین کو ہم اس مضمون میں بتا رہے ہیں کہ آخر آنکھ کیوں اچانک پھڑکنے لگتی ہے۔آئیے اس کی وجوہات جانئے۔
 
آنکھ پھڑکنا بیماری ہے ؟
پہلے تو یہ جان لیں کہ اگر آنکھ کا صرف اوپروالا پپوٹا Eye Lid پھڑک رہا ہے تو اس کنڈیشن کو myokymia کہا جاتا ہے ۔ یہ ایک عام مسئلہ ہے، جس میں اچانک کسی بھی انسان کے آنکھ کا پپوٹا پھڑکنے لگ جاتا ہے اور پھر رُک بھی جاتا ہے۔ اس کنڈیشن میں ایک وقت میں ایک ہی آنکھ کا پپوٹا پھڑکتا ہے ۔ ویسے تو کچھ دیر، گھنٹوں یا ایک دن میں آنکھ پھڑکنا بند ہو جاتی ہے۔
 
تاہم اگر مستقل آنکھ پھڑکنے لگ جائے تو پھر اس کنڈیشن یا بیماری کو blepharospasm کہا جاتا ہے، اس میں آنکھ کے پپوٹے تیزی سے بند ہونے لگتے ہیں ۔ یہ اتنی عام کنڈیشن نہیں ہے، بہت کم لوگ اس بیماری یا مسئلے میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے انسان کی زندگی کے روزمرہ کام متاثر ہونے لگتے ہیں۔
 
ڈاکٹر کے پاس کب جائیں؟
 اگر آنکھیں اتنی تیزی سے پھڑکنے لگیں کہ آنکھیں مستقل طور پر بند ہوجائیں ، آنکھ کے ساتھ ساتھ چہرے کے مسلز بھی پھڑکنا شروع ہوجائیں ۔ آنکھ پھڑکنے کے عمل جو ایک ہفتے سے زیادہ ہوجائے تو پھر ڈاکٹر کو ضرور دکھائیں ۔
 
image
 
آنکھ پھڑکنے کی وجوہات:
آنکھ پھڑکنے کی وجوہات مندرجہ ذیل ہیں۔
 
اسکرین ٹائم کی زیادتی:
آج کل کے ڈیجیٹل دور میں لوگوں کے پاس اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ پی سی موجود ہیں ۔ اسکرین ٹائم زیادہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں کے خلیات پر دباؤ ہونے لگتا ہے ۔ پھر ایسا وقت آتا ہے کہ انسان کی آنکھ پھڑکنا شروع ہو جاتی ہے۔ اس کنڈیشن سے بچنے کیلئے 20 منٹ تک لیپ ٹاپ یا موبائل استعمال کرنے کے بعد 20 فٹ دور کسی چیز کو 20 سیکنڈز کیلئے دیکھیں ۔ اس طرح کی ورزش سے بھی آنکھوں میں دباؤ محسوس نہیں ہوگا اور آنکھ نہیں پھڑکے گی ۔
 
نیند کی کمی:
اگر آپ اپنی آنکھوں کو آرام نہیں دیتے تو پھر آپ کی آنکھ پھڑک سکتی ہے ۔ نیند کی کمی بھی آنکھ پھڑکنے کی ایک بڑی وجہ ہے ۔ جب بھی آپ کو نیند کی کمی ہوجائے ، راتوں کو نیند نہ آئے اور مستقل جاگتے رہنے کی وجہ سے بھی آنکھوں کے خلیات دباؤ کا شکار ہوجاتے ہیں اور پھر آنکھ پھڑکنے لگتی ہے ۔ جب آپ نیند پورے کریں گے تو یہ مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔
 
 ذہنی دباؤ:
اسٹریس ، ذہنی دباؤ اور ٹینشن کی وجہ سے انسان کی آنکھوں کو آرام نہیں ملتا ۔ اسٹریس کو بھی آنکھ پھڑکنے کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے ۔ اگر آپ مستقل ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں، تو پھر ہوسکتا ہے کہ یہی اسٹریس آپ کی آنکھ پھڑکنے کی اصل وجہ ہو ۔ اس لئے کوشش کریں کہ ذہن کو سکون دیں، ذہنی دباؤ سے دور رہیں تاکہ آنکھ پھڑکنے کی کنڈیشن کا شکار نہ ہوسکیں ۔
 
image
 
متوازن غذا کا استعمال نہ کرنا:
اگر آپ متوازن غذا کا استعمال نہیں کرتے ، تب بھی آپ کو آنکھ پھڑکنے کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وٹامنز کی کمی انسان کے نروس سسٹم کو متاثر کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے بھی مسلز متاثر ہوتے ہیں اور پھر آنکھ پھڑکنے لگتی ہے۔ لہذا اپنی خوراک کو بہتر بناکر اس مسئلے سے نمٹا جاسکتا ہے۔
 
کیفین والی اشیا کا استعمال:
کیفین والی اشیا کا زیادہ استعمال کرنے والے لوگ بھی آنکھ پھڑکنے کے مسئلے کا شکارہو جاتے ہیں۔ لہٰذا کوشش کریں کہ کافی، چائے، قہوے اور کیفین والی ڈرنکس کا زیادہ استعمال نہ کریں ۔
 
الرجی:
مختلف چیزوں کی وجہ سے الرجی ہو جاتی ہے ، آنکھوں سے پانی آنے لگتا ہے اور آنکھ پھڑکنے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ آنکھ کے اوپرکوئی چیز لگ جائے، تب بھی آنکھوں میں درد یا اس کے پھڑکنے کا مسئلہ درپیش ہو سکتا ہے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: