سعودی حکام کے طرف سے چھے سال پرانے ورک پرمٹ تجدید نہ کرنے کی تجویز

سعودی عرب میں 30 مئی کی صبح سے ایک اہم خبر گردش میں ہے کہ سعودی حکام کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ جو افراد 6 سال سے سعودی عرب میں مقیم ہیں، حکومت ان کے ورک پرمٹ یا اقامے اگلے سال سے تجدید نہیں کرے گی۔ جس کے بعد ظاہر ہے 6 سال سے مقیم افراد کا سعودی عرب میں رہنا ممکن نہیں‌ ہوگا۔ یہ خبر کافی تہلکہ انگیز تھی اور اس دن صبح اخبارات میں شائع ہونے کے بعد تمام مقیم غیر ملکیوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ سعودی عرب میں مستقل طور پر مقیم افراد جو کہ اپنے خاندانوں سمیت یہاں مقیم ہیں وہ الگ پریشان ہو گئے اور جو لوگ اکیلے یہاں رہتے ہیں اور اپنے ملک میں موجود اپنے خاندانوں‌ کا خرچ چلاتے ہیں ‌وہ اپنی جگہ پریشان۔ دوسری طرف مختلف پاکستانی چینلز نے بھی بنا تحقیق یہ خبر پاکستان میں پھیلا دی ہے۔ میرے لیے بھی یہ خبر ، عجیب اور افسوس ناک تھی۔ بعدازاں میں نے عرب نیوز کی ویب سائٹ کھول کر خبر کو تفصیل سے دیکھا تو مجھے بات کی جس طرح سمجھ آئی وہ میں ‌بیان کرتا ہوں۔

عرب نیوز کے مطابق سعودی وزیر محنت عدل فقیہ نے بتایا ہے کہ سعودی عرب میں 6 سال سے زائد عرصہ تک کام کرنے والے غیر ملکیوں کے ورک ویزوں میں توسیع نہیں کی جائے گی۔یہ فیصلہ اس لئے کیا گیا تاکہ سعودی شہریوں کو زیادہ سے زیادہ ملازمتوں کے مواقع فراہم کئے جا سکیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت سعودی عرب میں بے روزگاری کی شرح کافی بڑھ چکی ہے اور عرب ممالک میں جاری احتجاج کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ تاہم یہ فقط ایک تجویز ہے اور ابھی تک اسے حکومتی سطح پر قانون کی شکل نہیں دی گئی۔ یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ یہ قانون کب تک لاگو ہو گا۔ مزید برآں یہ قانون صرف پیلی کیٹیگری کی کمپنیوں کے لیے ہے۔ جو کمپنی پیلی کیٹگری میں‌آئے گی اس کے ملازمین کے ورک پرمٹ کی تجدید نہیں کی جائے گی۔

سعودی عرب میں موجود کمپنیوں‌ میں ہر کمپنی کے اندر کتنے سعودی ملازمین ہیں، اس تناسب سے ہر کمپنی کو ایک رنگ دیا گیا ہے۔ جیسے سرخ، پیلی اور سبز کیٹیگری۔ تمام کمپنیاں پیلی کیٹیگری میں‌ نہیں آتی۔ اور مستقبل میں شاید اس طرح کی بھی کوئی گنجائش ہو گی کہ ایک کمپنی زیادہ سعودی ملازمین رکھ کر اپنی کیٹیگری کو بہتر بنا سکتی ہے۔ ایک مصری باشندہ جو سعودی عرب میں‌قیام پذیر ہے کے مطابق ، تیس فیصد سعودی ملازمین رکھنے والی کمپنیاں حکومت کی منظور شدہ شرائط پوری کرتی ہیں۔ لہذا جن کمپنیوں میں 30 % سے زیادہ سعودی باشندے کام کر رہے ہیں وہ سبز کیٹگری میں‌آئیں گی اور ان کے ملازمین پر کوئی ایکشن نہیں‌لیا جائے گا۔ تاہم اگر کوئی کمپنی حکومت کی منظور کردہ شرح سے کم سعودی باشندے ملازم رکھتی ہے تو وہ سرخ یا پیلی کیٹگری میں آتی ہے اور انہیں کمپنیوں کے 6 سال سے زیادہ پرانے ملازمین کے ورک پرمٹ کی تجدید حکومت کی طرف سے بند ہو جائے گی۔ علاوہ ازیں گھریلو ملازمین کے ورک پرمٹ پر بھی کوئی ایکشن نہیں ‌لیا جائے گا۔ ویسے اس طرح کے قوانین کافی عرصے سے موجود ہیں، مگر کمپنیاں چونکہ ان پر عمل نہیں کر رہیں۔ اس لیے انہیں مزید سخت کیا جا رہے ہے۔

سعودی عرب کی معاشیات بڑے تناسب میں پٹرولیم، حج اور عمرہ اور غیر ملکی باشندوں‌کے قیام کی وجہ سے نمو پا رہی ہے۔ غیر ملکی باشندے نہ صرف یہاں تعمیری پراجیکٹس میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں‌بلکہ موبائل فون، اشیائے خردونوش، علاج معالجہ اور گھروں کے کرایوں کی مد میں‌بڑی رقوم بھی یہاں‌خرچ کر رہے ہیں، یوں‌ان کی وجہ سے سعودی عرب کی معیشت تیز رفتاری سے ترقی کر رہی ہے اور سعودی باشندے بھی خوشحال ہیں۔ تاہم اگر سعودی حکومت سختی کر کے غیر ملکی باشندوں کو یہاں سے نکالتی ہے تو نہ صرف ان افراد کے ساتھ زیادتی ہو گی بلکہ سعودی عرب کی معیشت کے لیے بھی اس کے اثرات منفی ہوں گی۔

میری طرف سے یہ مضمون ان افراد کے لیے ہے جو سعودی عرب میں مقیم ہیں اور اپنے مستقبل کے بارے میں‌خوف کا شکار ہو چکے ہیں۔ایسے تمام افراد کو چاہیے کہ وہ فکر مند نہ ہوں اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھیں ۔ انشاء اللہ جلد ہی صورت حال بہتر ہو جائے گی۔ مزید اپ ڈیٹس کے لیے میرا بلاگ ملاحظہ کیجیے۔

https://yasirimran.wordpress.com
Yasir Imran
About the Author: Yasir Imran Read More Articles by Yasir Imran: 9 Articles with 12409 views I am a Pakistani living in Saudi Arabia... View More