اسمِ اعظم

ملک یمن کے شہربخران کے قریب ایک گاﺅں میں ایک جادوگررہتا تھا جو لوگوں کو جادو سکھایا کرتا تھا۔ اس گاﺅں میں ایک بزرگ عالم آئے اور اس گاﺅں کے درمیان انھوں نے اپنا پڑاﺅ ڈالا۔ شہر کے لڑکے جو اس جادوگر سے جادو سیکھنے جایا کرتے تھے۔ ان میں ایک تاجر کا لڑکا عبد اللہ بھی تھا۔ عبداللہ جب جادوگر کے پاس جاتا تو راستے میں اس بزرگ عالم کا گھر پڑتا تھا جہاں وہ کبھی عبادت میں اور کبھی وعظ میں مشغول ہوتے ۔ عبداللہ کبھی کبھی وہاں کھڑا ہوجاتا اور ان بزرگ کے عبادت کے طریقے کو دیکھتا اور کبھی انکے وعظ کو سنتا ۔اکثر آتے جاتے وہ یہاں رک جاتا اور اس پر غور و خوض کرتا جس سے اس کے دل میں ان بزرگ کے مذہب کی سچائی جگہ کرتی جاتی ، پھر تو اس نے یہاں کا آنا جانا شروع کردیا ۔ کچھ دنوں بعد عبداللہ اس مذہب میں داخل ہوگیا اور اسلام قبول کرلیا۔ توحید کا پابند ہوگیا اور ایک اللہ کی عبادت کرنے لگا ۔

یہ بزرگ اسم اعظم بھی جانتے تھے عبداللہ نے ایک دن ان بزرگ سے اسم اعظم کے بارے میں پوچھا اور خواہش ظاہر کی کہ اسے اسم اعظم کے بارے میں کچھ بتائیںلیکن ان بزرگ نے کہا کہ ابھی تم میں اسے سیکھنے کی صلاحیت نہیں آئی ، تم ابھی کمزور دل والے ہو تم میں ابھی اسکی طاقت نہیں ہے۔عبداللہ کے باپ کو اس کے مسلمان ہوجانے کی بالکل خبر نہیں تھی۔ وہ یہی سمجھ رہاتھا کہ اس کا بیٹا جادو سیکھ رہا ہے اور وہیں آتا جاتا ہے۔ یونہی ایک زمانہ بیت گیا۔

عبداللہ نے جب سوچا کہ یہ بزرگ اسے اسم اعظم کے بارے میں کچھ نہیں بتاتے انھیں میری کمزوری کا خوف ہے تو اس نے ایک دن بہت سارے تیر لئے اور جتنے نام اللہ تعالیٰ کے یاد تھے ہر تیر پر ایک ایک نام لکھا ۔ پھر ایک جگہ آگ جلا کر ایک ایک کر کے تیروں کو اس آگ میں ڈالنا شروع کردیا ۔ جب وہ تیر آیا جس پر اسم اعظم لکھا تھا تو وہ آگ میں پڑتے ہی اچھل کر باہر آگیا اور اس پر آگ نے با لکل اثر نہیں کیا۔اس نے سمجھ لیا کہ یہی اسم اعظم ہے۔ یہ فوراََ ان بزرگ کے پاس آیا اور کہا کہ مجھے اسم اعظم کا پتہ چل گیا ہے۔ ان بزرگ نے پوچھا کہ بتاﺅ کیا ہے۔ تو اس نے سارا واقعہ بتایا ، بزرگ نے کہا کہ بھئی تم نے تو خوب معلوم کرلیا۔ واقعی یہی اسم اعظم ہے اور اسے سمجھانے لگے کہ بیٹا تم بہت ذہین اور عقلمند ہو لیکن اسے اپنے تک محدود رکھنا اور لوگوں پر ظاہر نہیں کرنا ورنہ بڑی سخت آزمائش میں پڑ جاﺅ گے۔

ایک دن عبداللہ نے ایک بیمار اور پریشان حال شخص کو دیکھا تو اس نے اس سے کہا کہ اگر تم مسلمان ہوجاﺅ اوردینِ اسلام قبول کرلو تو میں اپنے رب سے دُعا کروں گا ، وہ تمہاری پریشانی دور کردے گا ۔ اس شخص نے اس کی با ت کو مان لیا اور مسلمان ہوگیا تو عبداللہ نے اسم اعظم کے ساتھ اللہ سے دُعا کی اور اس شخص کی بیماری اور پریشانی دور ہوگئی۔اب تو عبداللہ کے پاس حاجت مندوں کا تانتا لگ گیا، عبداللہ ان سے کہتا کہ اگر تم اسلام قبول کرلو تو میں اپنے رب سے دعا کرتا ہوں وہ تمہیں شفا اور نجات دےدے گااور دکھ بلا کو ٹال دے گا۔جو اسلام قبول کرلیتا ، یہ اسم اعظم کے ساتھ دعا کرتا اوراللہ کے حکم سے اندھے اور ہر قسم کے بیمار اچھے ہونے لگے۔ اب تو بخرانیوں کے ٹھٹھ لگنے لگے، جماعت کی جماعت روزانہ مشرف با السلام ہونے لگی۔

بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کو جب اس بارے میں خبر ملی تو وہ بہت سارے تحائف لے کر عبداللہ کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ اگر تو میری بینائی صحیح کردے تو یہ سب تجھے دیدونگا ۔ عبداللہ نے اس وزیر سے کہا کہ شفا میرے ہاتھ میں نہیں، شفا دینے والا تو اللہ وحدہ لا شریک ہے، اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے تو میں اس سے دعا کروں ۔ وزیر نے اس کا اقرار کرلیاتو عبداللہ نے اس کے لئے دعا کی ، اللہ نے اس وزیر کو شفا دے دی اور اس کی بینائی لوٹ آئی۔ جب یہ وزیر بادشاہ کے دربار میں آیا اور اس طرح سے کام کرنے لگا جس طرح اندھا ہونے سے پہلے کام کرتا تھا ۔ بادشاہ اسے دیکھ کر بڑا حیران ہوا اور پوچھا کہ تجھے آنکھیں کس نے دیں؟ تو وزیر نے کہا کہ میرے رب نے، بادشاہ نے کہا کہ ہاں یعنی میں نے۔ وزیر نے کہا نہیں نہیں ،میرا اور تیرا رب اللہ ہے، بادشاہ نے کہا اچھا تو میرے سوا تیرا کوئی اور بھی رب ہے ، وزیر نے کہا ہاں میر ا اور تیرا رب اللہ عزوجل ہے۔ اب تو بادشاہ نے اسے مارنا اور پیٹنا شرو ع کردیا اور طرح طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں پہنچانے لگا اور پوچھنے لگا کہ تجھے یہ تعلیم کس نے دی ہے ؟ آخر اس نے اسے بتا دیا کہ میں نے اس لڑکے کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ہے۔

بادشاہ نے فوراََ اپنے سپاہیوں کے ذریعے عبداللہ کو بلوایا اور کہا تم توجادو میں بڑے کامل ہوگئے ہو کہ اندھوں کو آنکھیں اور بیماروں کو تندرست کرنے لگ گئے ۔ عبداللہ نے کہا کہ یہ با لکل غلط ہے نہ تو یہ جادو کسی کو شفا دے سکتا ہے اور نہ ہی میں کسی کو شفا دے سکتا ہوں ، شفا تو اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے ۔ بادشاہ نے کہا ہاں یعنی میرے ہاتھ میں ہے۔کیونکہ اللہ تو میں ہی ہوں، عبداللہ نے کہا ہرگز نہیں۔بادشاہ نے کہا کیا تو میرے علاوہ کسی اور کو رب مانتا ہے توعبداللہ کہنے لگا ہاں میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے ۔ یہ سن کر بادشاہ نے اسے بھی طرح طرح کی سزائیں دینا شروع کردیں۔ اور آخر کا ر اس نے ایک دن اس بزرگ عالم کا پتہ لگالیا اور اس کو دربار میں بلا کر کہا کہ تو اسلام کو چھوڑدے اور اس دین سے پلٹ جا۔ لیکن ان بزرگ نے بھی بادشاہ کی یہ بات نہیں مانی ،تو بادشاہ کے حکم پر ان بزرگ کو آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کرکے پھینک دیا۔پھرعبداللہ سے کہا کہ تو بھی اس دین سے پھر جا ، لیکن اس نے بھی اس سے انکار کردیا ۔ بادشاہ نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا کہ اس لڑکے کو پہاڑ پر لیجاﺅاور اس کی چوٹی پر پہنچ کر پھر اسے اس دین کے چھوڑنے کو کہو، اگر مان لے تو اچھا ورنہ اسے پہاڑ سے نیچے پھینک دینا۔چنا نچہ سپاہی اسے پہاڑ پر لے گئے، جب اسے وہاں سے دھکا ،دینا چاہا تو عبداللہ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ، خدایا تو جس طرح چاہے میری مدد فرما اور مجھے ان سے نجات دے ۔ اس دُعا کے ساتھ ہی پہاڑ ہلا اور تمام سپاہی پہاڑ سے لڑھک کرنیچے گرے اور ہلاک ہوگئے اور یہ لڑکا بچ گیا۔

عبداللہ پہاڑنیچے سے اترا اور پھر اس ظالم بادشاہ کے پاس آگیا۔ بادشاہ نے اسے دیکھ کر کہا یہ کیا ہوا۔ میرے سپاہی کہاں گئے تو اس نے کہا کہ مجھے میرے اللہ نے ان سے بچا لیا۔ بادشاہ نے کچھ اور سپاہی بلائے اور ان سے کہا کہ اسے کشتی میں بٹھا کر لے جاﺅ اور سمندر کے بیچ میں جاکر اسے ڈبوکر چلے آﺅ۔ سپاہی اسے لیکر چلے اور بیچ سمندر میں پہنچ کر جب اسے پھینکنا چاہا تو عبداللہ نے پھر اللہ تعالیٰ سے وہی دعا کی کہ بار الٰہی تو جس طرح چاہے مجھے ان ظالموں سے بچا۔ اچانک سمندر سے ایک بڑی لہر اٹھی اور سارے کے سارے سپاہی سمندر میں ڈوب گئے، صرف عبداللہ باقی رہ گیا۔یہ پھر بادشاہ کے پاس آیا اور کہا میرے رب نے مجھے ان سے بھی بچا لیا۔

غرض بادشاہ نے عبداللہ کو ہلاک کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ایک دن عبداللہ نے بادشاہ سے کہا تو جتنی بھی چاہے تدبیریں کر ڈال لیکن مجھے ہلاک کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا۔ ہاں اگر تو اس دین کو مان لے جسے میں مانتا ہوں اور ایک خدا کی عبادت کرنے لگے ، اگر تو یہ کرلے گا تو پھر تو مجھے قتل کرسکتا ہے۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا ۔ اس نے عبداللہ کا بتایا ہو ا کلمہ پڑھا اور مسلمان ہوکر ، جو لکڑی اس کے ہاتھ میں تھی اس سے عبداللہ کو مار ا ، جس سے معمولی سی خراش آئی اور اسی سے وہ شہید ہوگئے۔ ان کے ساتھ ہی بادشاہ بھی مرگیا۔ اس واقعہ نے لوگوں کے دلوں پر یہ بات ثابت کردی کہ ان کا دین سچا ہے ۔ چنانچہ نجران کے تمام لوگ مسلمان ہوگئے۔

سیرةابن اسحاق میں ہے کہ ایک بخرانی نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بخران کی ایک بنجر غیر آباد زمین اپنے کسی کام کے لئے کھودی تو دیکھا کہ حضرت عبداللہ بن تامر رحمة اللہ کا جسم اس میں ہے۔ آپ بیٹھے ہوئے ہیں ، سر پر جس جگہ چوٹ آئی تھی وہاں ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ اگر ہاتھ ہٹاتے ہیں تو خون بہنے لگتا ہے ، پھر ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں تو ہاتھ اپنی جگہ چلا جاتا ہے اور خون تھم جاتا ہے۔ ہاتھ کی انگلی میں انگوٹھی ہے جس پر ربی اللہ لکھا ہوا ہے۔ یعنی میرا رب۔ چنانچہ اس واقع کی اطلاع قصر خلافت میں دی گئی، یہاں سے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان گیا کہ اسے یونہی رہنے دو اور اوپر سے مٹی وغیرہ جو ہٹائی ہے ۔ وہ ڈال کر ، جس طرح تھا اسی طرح بے نشان کردو۔ چنانچہ یہی کیا گیا۔

(مزید تفصیل کے لئے تفسیر ابنِ کثیرکی جلد چہارم صفحات710-706ملاحظہ فرمائیں)
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 304335 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.