ذہنی امراض کا عالمی دن۔۔ ذہنی امراض کے شکار فنکار لوگوں کو ڈپریشن سے نکلنے کے گُر بتاتے ہوئے!

image
 
آج 10 اکتوبر کو دنیا بھر میں ذہنی امراض کا عالمی دن منایا جا رہا ہے ۔ 4 اکتوبر کو جنیوا میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ہر 4میں سے ایک فرد ذہنی مسائل کا شکار ہے ۔ 450 ملین افراد اس وقت دنیا بھر میں ذہنی امراض میں مبتلا ہیں جن کی تعداد وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی ہے ۔ ڈپریشن یا اس جیسے مسائل کے شکار افراد کو اگر دیکھا جائے تو وہ دیکھنے میں اپنی زندگی سے بہت مطمئن لگتے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ جیسے وہ اپنی زندگی بھرپور انداز میں جی رہے ہوں ۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ ان کی زندگیوں کو دیکھ کر رشک کرتے ہیں ۔ کئی فنکار کا بھی ایسے لوگوں میں شمار ہوتا ہے ، جو دیکھنے میں خوش باش دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ حقیقت میں ذہنی الجھنوں اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں ،جن کے بارے میں ان کے مداح دیکھ نہیں پاتے ۔ ایسے فنکار جو ذہنی امراض کا شکار رہے، آئیے ان کے بارے میں جانئے اور ان سے ذہنی امراض سے چھٹکارہ پانے کے گُر سیکھئے۔
 
مومنہ مستحسن:
کوک اسٹوڈیو میں راحت فتح علی خان کے ساتھ گانا گاکر شہرت کی بلندیوں پر پہنچنے والی مومنہ مستحسن نے ایک مرتبہ انسٹاگرام پر اپنی ذہنی صحت اور ڈیپریشن کے حوالے سے بات کی ۔ انہوں نے اس حوالے سے تین ویڈیوز بنائیں ، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ ایک وقت تھا کہ وہ جب شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئی تھیں ، ان کی ہمت جواب دے گئی تھی ، وہ روتی رہتی تھیں، حتیٰ کہ وہ خود کو آئینے میں دیکھنے سے بھی کتراتی تھیں ، اسی ڈپریشن کی وجہ سے ان کا وزن بڑھ گیا تھا، ایسے وقت میں آپ لوگوں سے ہنس کر مل رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت آپ اندر سے پوری طرح سے ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔مومنہ کا کہنا ہے کہ ڈپریشن کو فسانہ نہیں یہ ایک حقیقت ہے ۔ تاہم اس سے لڑنے کیلئے انسان کو ہمت اور طاقت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مومنہ کا ماننا ہے کہ انسان کو زندگی ایک مرتبہ ملتی ہے، اس زندگی کو ہمت کے ساتھ جینا چاہئے اور مشکلات کا شکار ہوکر ڈپریشن میں نہیں جانا چاہئے بلکہ اپنی زندگی کو خود ہی بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
image
 
نعمان جاوید:
گلوکار نعمان جاوید اس وقت تو شاید کم ہی دکھائی دیتے ہیں ، ایک وقت ایسا آیا تھا کہ جب ان کے حوالے سے ایک خبر سامنے آئی تھی کہ وہ کسی کار ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہیں ۔ تاہم انہوں نے بعد میں اپنے ایک انٹرویو میں بتایاتھا کہ وہ شدید ڈپریشن کا شکار تھے اور انہوں نے 50 نیند کی گولیاں کھا لی تھیں، جس پر انہیں اسپتال لے جایا گیا تھا۔ وہ بچ گئے تھے، ان کا کہناتھا کہ وہ اب بھی خود کو مکمل ٹھیک محسوس نہیں کرتے ، تاہم انہوں نے مثبت انداز میں زندگی کی طرف واپس آنے اور مستقبل کو بہتر انداز میں گزارنے کا عندیہ دیا تھا اور لوگوں سے کہا تھا کہ وہ ایسی حرکت نہ کریں بلکہ اپنی زندگی سے پیار کریں ، انہوں نے بھی اپنی زندگی سے یہی سبق سیکھا ہے ۔
image
 
جگن کاظم:
ایک انٹرویو میں اداکارہ و میزبان جگن کاظم نے کہا تھا کہ شوبز سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو ہفتے میں ایک دن ماہر امراض (سائیکاٹرسٹ) کے پاس ضرور جانا چاہئے ۔ انہوں نے اس موقع پر بتایا کہ وہ دو سال تک ایک ذہنی مرض شیزوفرنیا اور ڈپریشن کی وجہ سے تھراپی کیلئے جاتی رہی ہیں ۔ انہوں نے خود سائیکولوجی کو بطور مضمون بھی پڑھ رکھا ہے ، ان کا ماننا ہے کہ انڈسٹری سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے اندر موجود باتوں اور ذہنی پریشانی سے نجات کیلئے ماہر نفسیات کے پاس ضرور جانا چاہئے ۔ ذہنی دباؤکے ساتھ نہ جئیں بلکہ علاج کرواکر مثبت انداز میں زندگی جئیں ۔
image
 
دپیکا پڈوکون:
انڈین اداکارہ دپیکا پڈوکون بھی اپنی زندگی میں شدید ذہنی دباؤ اور ڈپریشن سے گزر چکی ہیں ۔ انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں اس حوالے سے کھل کر پر بات کی تھی کہ کس طرح وہ زندگی میں لوگوں کو خوش باش دکھائی دیتی تھیں لیکن وہ اندر سے مکمل طور ٹوٹ چکی تھیں ۔ وہ کلینیکل ڈپریشن کا شکار رہیں ، انہیں پہلا ڈپریشن اٹیک 20 سال جبکہ دوسرا اٹیک 26 سال کی عمر میں ہوا ۔ جب وہ ماہر نفسیات کے پاس گئیں توا نہیں اس بات کاپتا چلا ۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے دوستوں اور گھروالوں نے اس مشکل وقت میں میرا بھرپور ساتھ دیا ۔ مجھے وہ کئی گھنٹوں تک سونے دیتے تھے ، میں روتی رہتی تھی اور نا ہی کسی سے بات کرنا چاہتی تھی ، ادویات، ماہر نفسیات اور دوست احباب کے تعاون سے وہ ڈپریشن سے نکلنے میں کامیاب ہوگئیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی ڈپریشن کا شکار ہے تو اس میں کوئی شرمندگی کی بات نہیں ۔ اگر آپ کسی ذہنی مرض کاشکار ہیں تو اسے قبول کریں، اس سے بھاگیں مت ، کیونکہ کوئی ناکوئی زندگی میں اس فیز سے ضرور گزرتا ہے ۔ اسلئے بُرے دن کے بعد اچھا دن آتاہے، اس کیلئے بس تیاری کریں ۔
image
 
کرن جوہر:
بولی وڈ کے کامیاب تین فلم ساز کرن جوہر بھی نفسیاتی امراض کا شکار رہ چکے ہیں ۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھے ، ان کی بے چینی بڑھ چکی تھی وہ سمجھے کہ انہیں ہارٹ اٹیک ہوگیا ہے ، جب وہ ڈاکٹر کے پاس گئے تو انہیں پتا چلا کہ انہیں ”ہارٹ اٹیک“ نہیں بلکہ ”انزائٹی اٹیک“ ہوا ہے ، اس وقت انہیں کسی بھی بات ہر خوشی محسوس نہیں ہوتی تھی ، ہر چیز سے دل اچاٹ ہوگیا تھا ۔ ان کے والد کی موت اور پھر 44 سال کے ہوجانے کے بعد بھی لائف پارٹنر نہ ملنے کی ٹینشن نے شاید انہیں ذہنی مرض میں مبتلا کردیا تھا ۔ اس کے بعد انہوں نے ماہر نفسیات سے کچھ عرصے تک علاج کروایا اور اپنے ڈپریشن والے اس فیز سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔ ان کا کہنا ہے کہ زندگی میں کچھ مشکلات کے بعد انسان خود کو بے بس اور لاچار محسوس کرتا ہے لیکن اسے اسے لاچاری گھبرانا نہیں بلکہ اس پر قابو پاکر خود کو سنبھالنا چاہئے ۔ زندگی میں عروج وزوال کا ساتھ رہتا ہے، جب زوال آئے تو بجائے اس کی وجہ سے ذہنی مرض میں مبتلا ہونے کے، اس سے نکلنے کی کوشش جاری رکھیں ۔
image
 
الیانا ڈی کروز:
انڈین ایکٹریس الیانا ڈی کروز بھی ڈپیریشن کا شکار رہ چکی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ زندگی میں انہوں نے جو کچھ چاہا حاصل کیا ، تاہم اس کے باوجود بھی وہ ایک طویل عرصے تک ذہنی تناؤ اور امراض کا شکار رہی ہیں ۔ زندگی میں سب کچھ موجود ہونا اس بات کی ضمانت ہرگز نہیں ہے کہ آپ پھر ڈپریشن کا شکار نہیں ہوسکتے ۔ وہ Body dysmorphic disorder کا شکار تھیں ، یہ ایک ایسی ذہنی کیفیت ہوتی ہے جس میں انسان کو اپنے اندر ظاہری طور پر کوئی کمی یا خامی دکھائی دینے لگتی ہے ۔ ایسی خامی جو کسی اور کو شاید دکھائی بھی نہ دے لیکن انسان خود ہی اس خامی کے سوچ کر پریشان اور شرمندہ ہوتا رہے اور اس کی وجہ سے محافل میں جانا بھی ترک کردے ، وہ ایک طویل عرصے تک اس ذہنی بیماری کا شکار رہی ہیں ۔ اگر کوئی اور بھی اس انداز سے سوچتا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اس ذہنی کیفیت کو خود پر حاوی نہ ہونے دے اور اس کا علاج بروقت کرواکر اس ذہنی مرض سے چھٹکارا پانے کی کوشش کرے ۔
image

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: