حمل کے ضائع ہونے کی کچھ ایسی وجوہات جن کے بارے میں ہر عورت کو لازمی معلوم ہونا چاہیے

image
 
ماہرین کی ایک تحقیق کے مطابق دس سے پندرہ فی صد تک حمل ضائع ہو جاتے ہیں جو کہ ایک خطرناک شرح ہے ان میں سے زیادہ تر شروع کے 20 ہفتوں میں ہی ضائع ہو جاتے ہیں جو کہ حمل کا ابتدائی وقت کہلاتا ہے- بدقسمتی سے زیادہ تر افراد اس بارے میں بات کرنے سے اجتناب برتتے ہیں اور اس کو اللہ کی مرضی کہہ کر خاموشی اختیار کر لیتے ہیں مگر اس حوالے سے اس کے اسباب جاننا بہت ضروری ہے تاکہ ان وجوہات کا سدباب کر کے اس سے بچا جا سکے-
 
حمل کے ضائع ہونے کی اہم وجوہات
 
1: بچے دانی کی خرابی
بعض خواتین کی بچے دانی میں اس طرح کی خرابی ہوتی ہے جس سے بچے دانی کی ساخت درست نہیں ہوتی یا اس کے اندر کچھ ایسے ٹشو ہوتے ہیں جو کہ اضافی ہوتے ہیں اور وہ بچے دانی کے اندر بچے کو نشو نما نہیں پانے دیتے ہیں- جس کے سبب بچے کی نمو کا عمل متاثر ہوتا ہے اور حمل ضائع ہو جاتا ہے-
 
علاج :
ماضی میں یہ بیماری لاعلاج تھی اور جن خواتین میں یہ نقص ہوتا تھا ان کے گھر ساری عمر اولاد نہیں ہوتی تھی مگر اب سائنس نے اس حوالے سے کافی ترقی کر لی ہے اور بچے دانی کی ساخت اور اس کے اندر ہونے والی خرابی کو درست کیا جا سکتا ہے-
 
image
 
2: کروموسوم کی خرابی
بعض اوقات حمل کے ٹہرنے کے بعد بچے کے کروموسوم بننے کے عمل میں قدرتی طور پر خرابی واقع ہو جاتی ہے جس کے سبب بچے کے ایب نارمل ہونے کے امکانات ہوتے ہیں اور اس کے ڈاون سینڈروم وغیرہ میں مبتلا ہونے کے خدشات ہوتے ہیں- اس صورت میں انسانی جسم کے اندر ایک قدرتی چیکنگ کے نظام کے باعث حمل خود بخود ضائع ہو جاتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اس کو ہم ایسے بھی کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ہی جسم کو اس حوالے سے آگاہی ہوتی ہے کہ بچہ ایب نارمل ہو سکتا ہے تو اس صورت میں جسم اس بچے کو پروان چڑھانے کے بجائے اس حمل کو ضائع کر دیتا ہے-
 
علاج :
اس مرض کی بنیادی وجہ عام طور پر کزن میرج ہوتی ہے یا پھر اگر ماں باپ کے کروموسوم ایک دوسرے کے ساتھ میچ نہ کریں تو یہ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں- اس صورت میں کسی بھی جینیٹکس کے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کرنا بہتر ہوتا ہے جو کہ کروموسوم کی رپورٹ کو دیکھتے ہوئے اس حوالے سے ادویات دیں گے اور آئندہ کے حمل ضائع ہونے کے خطرے سے بچا سکیں گے-
 
3: پی سی او
خواتین کے اندر مادہ خلیات پیدا کرنے کا عضو اووری ہوتا ہے مگر اس اووری کے اندر کچھ ایسے خلیات بننا شروع ہو جاتے ہیں جس سے ایک سسٹ بن جاتی ہے- اس سسٹ کے بننے کی وجہ سے اووری کے اندر سے ایسے ہارمون کا اخراج شروع ہو جاتا ہے جو کہ مردانہ خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں ان کا نام ٹیسٹیروجن ہے ان کے افراز کے سبب بچے دانی میں موجود حمل قدرتی طور پر ضائع ہو جاتا ہے-
 
image
 
علاج :
اس بیماری کے علاج کے لیے گائنی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے جو سسٹ کی حالت کے مطابق علاج تجویز کریں گی بعض اوقات صرف ادویات کے استعمال سے اس بیماری کا علاج ہو سکتا ہے- مگر بعض اوقات اس کے لیے ڈاکٹر آپریشن بھی تجویز کرتے ہیں-
 
4: بیکٹیریل انفیکشن
ویسے تو انسان کے جسم میں ہر جگہ بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں مگر ان کا ایک خاص شرح میں رہنا صحت مندی کی علامت ہے- اس شرح سے زيادہ اگر ان کی تعداد ہو تو وہ جسم کے کسی نہ کسی حصے میں انفیکشن کا باعث بن جاتے ہیں خاص طور پر خواتین میں پیشاب کی نالی کا انفیکشن حمل کے ضائع ہونے کا سبب بن سکتا ہے-
 
علاج :
یہ ایک قابل علاج مرض ہے اور اس کے علاج کے لیۓ ڈاکٹر اینٹی بائوٹک کے استعمال کو تجویز کرتے ہیں اور ان کے استعمال سے بیکٹیریا سے ہونے والے انفیکشن کا خاتمہ ہوتا ہے اور حمل کے ضائع ہونے کا خطرہ بھی کم ہو جاتا ہے-
 
image
 
5: طرز زںدگی
حمل کے ضائع ہونے کا ایک سبب غیر صحت مند طرز زندگی بھی ہو سکتا ہے اس میں کیفین والے مشروبات کا استعمال یا پھر ایسے ماحول میں زیادہ وقت گزارنا جہاں کی فصا آلودہ ہو یا پھر ذہنی و جسمانی دباؤ سب ایسے عوامل ہیں جن کے سبب حمل ضائع ہو سکتا ہے-
 
علاج :
اس حوالے سے حمل سے قبل کسی بھی عورت کو ان تمام عوامل کے بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرنی چاہیۓ جو اس کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اور اس کے علاوہ ان تمام عادات کو اختیار کرنے میں احتیاط کرنی چاہیے جو کہ حمل کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں-

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: