میں نے اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں میں دم توڑتے دیکھا، بیٹے کی قبر پر عہد لینے والا باپ جو آج پاکستان بھر کے بچوں کو بچانے کے لیے دن رات ایک کر رہا ہے

image
 
انسان کی زندگی کے اندر بہت سارے ایسے مواقع آتے ہیں جو کہ زندگی کو تبدیل کر دیتے ہیں کچھ لوگوں کی زندگی میں یہ تبدیلی مثبت ہوتی ہے اور اس تبدیلی سے وہ نہ صرف خود کو بدل ڈالتے ہیں بلکہ اس دنیا کے دکھی اور پریشان لوگوں کی تکلیفیں بانٹنے کا بیڑہ بھی اٹھا لیتے ہیں- ایسے ہی ایک انسان محمد اقبال صاحب بھی تھے جو کہ پاکستان اسٹیل مل کے ملازم تھے شادی کے کچھ عرصے بعد جب ان کے گھر پہلا بیٹا پیدا ہوا تو انہوں نے اس کا نام کاشف اقبال رکھا ۔
 
ہر باپ کی طرح ان کی خوشی بھی دیدنی تھی بیٹے کی پیدائش کے دو مہینوں کے بعد ہی وہ بیمار ہوا تو اس کو ڈاکٹرز نے خون کی کمی بتائی اور انہوں نے اس کو خون کی ایک بوتل چڑھا دی ۔ چند ماہ کے بعد جب دوبارہ کمزوری ہوئی تو انہوں نے تین بوتلیں مزید لگوا دیں جس سے کچھ ماہ پھر بہتر گزر گئے مگر جب ایک بار پھر ان کے بیٹے کے جسم سے خون غائب ہونے لگا تو انہوں نے ماہر ڈاکٹروں سے رجوع کیا- جنہوں نے ان کے بیٹے کے علاج سے قبل ان میاں بیوی کے خون کے ٹیسٹ کروانے کی درخواست کی اور ان رپورٹوں کو دیکھ کر ان پر یہ انکشاف ہوا کہ وہ اور ان کی بیوی جو ان کی کزن بھی تھیں دونوں ہی تھیلیسیمیا مائنر ہیں اور اس سبب ان کا پیدا ہونے والا بیٹا کاشف پیدائشی طور پر تھیلیسیمیا میجر یا خون کی ایسی مہلک بیماری میں مبتلا ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے-
 
محمد اقبال صاحب کا یہ کہنا تھا کہ یہ جاننے کے بعد انہوں نے ڈاکٹر کی بات پر یقین نہیں کیا اور اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لیے ہر طرح کے علاج کے لیے ہاتھ پیر مارنے شروع کر دیے- یونانی ، روحانی حکیمی غرض ہر دروازہ کھٹکھٹایا کیوں کہ ان کا یہ ماننا تھا کہ دنیا کی کوئی بھی بیماری علاج کے بغیر اللہ تعالیٰ نے نہیں بنائی-
 
image
 
ان کا یہ کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے بیٹے کی جان بچانے کے لیے ہر ماہ اس کو دس بوتلیں خون کی بھی چڑھاتے رہے تاکہ اس کی زندگی بچائی جا سکے ۔ آخر کار انہیں ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ دنیا کے دو ممالک اٹلی اور برطانیہ ہڈيوں کے گودے یا بون میرو کے ذریعے اس بیماری کا علاج کر رہے ہیں مگر وہ کافی مہنگا ہے-
 
جب انہوں نے اس حوالے سے ان ممالک سے رابطہ کیا تو انہیں یہ پتہ چلا کہ اٹلی میں اس بیماری کا علاج 70 لاکھ میں جب کہ برطانیہ میں 90 لاکھ میں اس بیماری کا علاج کیا جا رہا ہے یہ وہ زمانہ تھا جب ڈالر کی قیمت 26 روپے تھی-
 
محمد اقبال جو اسٹیل مل میں ایک معمولی ملازم تھے ان کے لیے اس بھاری رقم کو جمع کرنا ناممکنات میں سے تھا- مگر بیٹے کے علاج کے لیے انہوں نے ہر جگہ ہاتھ پھیلانے کا فیصلہ کیا سب سے پہلے ان کی مدد کو اسٹیل مل کے ملازم آئے جنہوں نے کاشف کے علاج کے لیے بڑھ چڑھ کر رقم جمع کی کاشف کی بیماری کے بارے میں جب مشہور کامیڈین معین اختر صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے محمد اقبال صاحب کے ساتھ مل کر ڈيڑھ سال تک شو کر کے کاشف کے علاج کے لیے رقم جمع کی اور کاشف اپنے والد کے ساتھ علاج کے لیے اٹلی روانہ ہو گیا-
 
image
 
محمد اقبال صاحب اس لمحے یہ محسوس کر رہے تھے کہ اب وہ کاشف کو بچانے میں کامیاب ہو جائيں گے اور کاشف کی تکلیفوں کا خاتمہ ہو جائے گا مگر اٹلی میں ڈاکٹروں نے کاشف کا معائنہ کرنے کے بعد اس کا بون میرو کرنے سے اس لیے انکار کر دیا کہ ہر ماہ اتنی بڑی مقدار میں خون چڑھانے کے سبب کاشف کے جسم میں آئرن کی شرح بہت بڑھ چکی ہے اور جب تک یہ شرح نارمل رینج میں نہیں آجاتی ہے تب تک کاشف کا علاج ممکن نہیں ہے اور اس شرح کو نارمل رینج میں لانے کے لیے کاشف کے پیٹ پر ہر روز پندرہ گھنٹوں تک ایک انجکشن لگایا جائے گا جو کہ کاشف کے جسم سے فاضل آئرن کو خارج کرے گا- مگر یہ ایک سست رفتار عمل تھا اور کاشف کے جسم میں موجود آئرن کو خارج کرنے کے لیے چار سے پانچ سال درکار تھے ۔ مگر ان چار سے پانچ سالوں کے دوران بھی کاشف کو مستقل خون کی ضرورت ہوتی جس کی وجہ سے اس کا آئرن کم ہونے کے بجائے بڑھتا جاتا -
 
محمد اقبال صاحب نے اٹلی کے ڈاکٹروں کی اس رائے کے بعد برطانیہ جانے کا فیصلہ کیا مگر برطانیہ کے ڈاکٹروں نے بھی یہی مشورہ دیا یہاں تک کہ مایوس ہو کر محمد اقبال صاحب کاشف کو لے کر بغیر علاج کروائے پاکستان واپس آگئے ۔ اب کاشف کا واحد علاج مہینے بھر میں دس بوتلیں خون کی لگنا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ آئرن کی مقدار کم کرنے کے لیے پیٹ پر انجکشن لگنا تھا مگر اس کے باوجود کاشف کے جسم میں آئرن کی مقدار بڑھتی جا رہی تھی یہاں تک کہ زیادہ آئرن کے سبب اس کی جلد سیاہی مائل اور اس کے بال سخت ہو گئے تھے-
 
سولہ سال کی عمر تک یہ تکلیف برداشت کرتے کرتے ایک دن کاشف کا دل آئرن کا اتنا بوجھ برداشت نہ کر سکا اور اس کا دل پھٹ گیا اس کے منہ اور ناک سے خون جاری ہو گیا اور اس کی تکلیف دہ زندگی کا خاتمہ ہو گیا-
 
image
 
بیٹے کو قبر میں دفن کرتے ہوئے تھکے ہارے محمد اقبال صاحب نے اپنی زندگی کا ایک بڑا فیصلہ کیا- انہوں نے سوچا کہ جس طرح ان کے بیٹے کاشف نے تکلیف دیکھی وہ کسی اور کے بچے کو اس تکلیف کا سامنا نہیں کرنے دیں گے انہوں نے کاشف اقبال تھیلیسیمیا سنٹر کی بنیاد رکھی-
 
اس سینٹر کی پاکستان بھر میں 16 سے زیادہ شاخیں کام کر رہی ہیں اس سینٹر میں سب سے زيادہ زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ والدین شادی سے قبل اپنے ٹیسٹ کروا لیں اگر دونوں تھیلیسیمیا مائنر ہوں تو آپس میں شادی نہ کریں- محمد اقبال کے مطابق اس وقت پاکستان میں ایک لاکھ سے زیادہ مریض تھیلیسیمیا کے ہیں جن میں سے زيادہ تر تعداد ان افراد کی ہے جو کہ آپس میں کزن میرج کرتے ہیں اور ان کے بچے اس موذی مرض میں مبتلا ہوتے ہیں- اس کے ساتھ ساتھ ان کے سینٹر میں تھیلیسیمیا کے مریضوں کو خون بھی فراہم کیا جاتا ہے جس کے بغیر ان بچوں کی زندگی شدید خطرے سے دوچار ہو جاتی ہے-
 
محمد اقبال صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا کے سبب خون کے عطیات میں شدید کمی دیکھنے میں آئی ہے جس کے سبب بچے خون نہ ملنے کے سبب موت کا شکار ہو رہے ہیں اس وجہ سے لوگ زيادہ سے زیادہ خون کے عطیات دیں تاکہ ان بچوں کو بچایا جا سکے-

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: