بیس، تیس اور چالیس سالہ خواتین میں حمل کے امکانات اور ان کے اثرات ماہرین کی تحقیقات کی روشنی میں جانیں

image
 
شادی کے بعد ہر عورت کا خواب ہوتا ہے کہ اس کی گود میں بھی ایک خوبصورت پھول کھلے اور اس کی خواہش کرنا ہر عورت کی فطرت کا حصہ ہوتا ہے- ماضی میں ہمارے ملک میں لڑکیوں کی شادی کی اوسط عمر بیس سے پچیس سال کے درمیان تھی- مگر اب مختلف وجوہات کی بنا پر اس اوسط عمر میں اضافہ ہو چکا ہے اور یہ پچیس سے تیس سال تک جا پہنچی ہے- اسی وجہ سے ماضی میں جب کہ زیادہ تر عورتیں بیس سے پچیس سال کی عمر کے دوران ماں بن جاتی تھیں تو یہ عمر اب پچیس سے تیس سال تک جا پہنچی ہے- ماہرین کے نزدیک ماں بننے کے لیے ایک عورت کی عمر بہت اہم کردار ادا کرتی ہے اور اس کا ماں اور بچے دونوں کی صحت پر بہت اہم اثرات مرتب ہوتے ہیں- ماہرین کی تحقیقات کی روشنی میں ان عوامل پر آج ہم روشنی ڈالیں گے-
 
1: بیس سال کی عمر میں حمل
حمل کے لیے یہ ایک آئيڈیل وقت ہوتا ہے اس عمر میں عورت کے حمل کے ٹہرنے کے امکانات سب سے زیادہ ہوتے ہیں کیوں کہ اس عمر میں خواتین کی اووری میں بننے والے انڈوں کی تعداد اور کوالٹی سب سے بہترین ہوتی ہے-
 
حمل کے ٹہر جانے کے بعد کے وقت کے لیے بھی ایسی خواتین کا جسم تمام تر تبدیلیوں کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے اور اس کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے- جس کے سبب زچہ اور بچہ دونوں ہی پیچیدگیوں سے محفوظ رہتے ہیں اور ماں کے رحم میں بچے کو نمو پانے کے لیے ایک آئیڈیل ماحول میسر ہوتا ہے۔ اور کم عمری کے سبب بیس سالہ خاتون حمل کو بہت سنجیدگی سے نہیں لیتی ہے اور اس کے سبب کسی قسم کے ذہنی اور نفسیاتی دباؤ کا شکار نہیں ہوتی ہے-
 
image
 
اس کے ساتھ ساتھ چونکہ اس عمر میں عورت کم عمر ہوتی ہے تو اس کا خیال رکھنے کے لیے اس کی ماں اور ساس دونوں موجود ہوتی ہیں- جن کی ہدایات اس کے حمل کی مدت کو پیچیدگیوں سے بچا سکتی ہیں اس کے بعد چونکہ بیس سال کی عمر میں عورت کا انرجی لیول اچھا ہوتا ہے- اس لیے اس کے اندر نارمل ڈلیوری کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں جس وجہ سے وہ جلد نارمل زندگی میں شامل ہو سکتی ہے-
 
2: تیس سال کی عمر میں
تیس سالہ خاتون ایک میچور عورت ہوتی ہیں وہ ذہنی طور پر خاندان کی اہمیت اور اس کی ذمہ داریوں کے لیے تیار ہو چکی ہوتی ہے- وہ اگر کیرئير لیڈی ہوں تو گھر ، باہر اور بچے کی ذمہ داری کو پوری طرح ادا کرنے کے مطلب اور اس کے سبب آنے والے دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے نفسیاتی طور پر تیار ہوتی ہیں-
 
مگر ایسی خواتین کے حمل ٹہرنے کے امکانات میں عمر کے سبب پچاس فی صد تک کمی واقع ہو چکی ہوتی ہے- ان کے اووری میں موجود انڈوں کی تعداد کم ہو چکی ہوتی ہے اور بچے کچھے انڈوں کی بھی بارآوری کی طاقت میں کمی واقع ہو چکی ہوتی ہے- اس لیے ان میں حمل ٹہرنے کے امکانات میں کمی واقع ہو جاتی ہے-
 
اس کے ساتھ ساتھ ایسی خواتین میں حمل کے دوران ذيابطیس اور ہائی بلڈ پریشر میں مبتلا ہونے کے خطرات بھی زیادہ ہوتے ہیں جس کے باعث زچہ اور بچہ دونوں کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہو سکتی ہیں- اور میٹا بولزم کے سست ہو جانے کے سبب ایسی خواتین دوران حمل موٹاپے کا بھی شکار ہو سکتی ہیں ایسی خواتین کے بچوں کے اندر ڈاون سینڈروم کے امکانات بھی بیس سالہ خواتین کے مقابلے میں پچاس فی صد زیادہ ہوتے ہیں جس کے سبب بچہ پیدائشی طور پر ایب نارمیلیٹی کا شکار ہو سکتا ہے- مگر ایسا تیس سو ماؤں میں سے کسی ایک کے ساتھ ہوتا ہے-
 
تیس سالہ خواتین کی ہڈیاں چونکہ مضبوط ہو چکی ہوتی ہیں اس وجہ سے نارمل ڈلیوری کے امکانات میں بھی کمی واقع ہو جاتی ہے اور زیادہ تر خواتین کے اندر ڈلیوری سی سیکشن کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے-
 
image
 
3: چالیس سال کی عمر میں حمل
یہ عمر حمل ٹہرنے سے لے کر ڈلیوری تک کے عمل کے لیے مشکل ترین دور ہوتا ہے- اس میں حمل ٹہرنا اووری کے اندر کمزور انڈوں کی موجودگی کے سبب بہت دشوار ہوتا ہے اور اگر حمل ٹہر بھی جائے تو انڈوں کی کوالٹی کے سبب ضائع ہوجانے کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے- اس کے ساتھ اس حمل میں بچے کے ایب نارمل ہونے کے امکانات بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں- یہ وہ وقت ہوتا ہے جب ایک عورت کے جسم میں اور اس کے ہارمون میں اندرونی طور پر تبدیلیاں واقع ہو رہی ہوتی ہیں اور اس کے اندر مینو پاز یا ماہواری کے رکنے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہوتا ہے- ایسے وقت میں عورت کا جسم حمل کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتا اس وجہ سے زچہ اور بچہ دونوں کے لیے پیچیدگیوں کے امکانات میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے-
 
ایسی خواتین کو حمل کے ہر ہر پل میں ڈاکٹر کے مشورے اور اس کی نگرانی کی ضرورت ہوتی ہےاور عمر کے اس دور میں ایک عورت کے لیے حمل سے لے کر ڈلیوری تک کا مرحلہ اپنے اور اپنے بچے کی جان کو محفوظ رکھنے کے لیے ایک کل وقتی ذمہ داری ہوتی ہے- ذرا سی بے احتیاطی یا لا پرواہی سنگین مسائل میں گرفتار کرنے کا باعث بن سکتی ہے اور ماں اور بچے دونوں کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے- ڈاکٹر ایسی خواتین کی نارمل ڈلیوری کا رسک لینے سے اجتناب برتتے ہیں اور سی سیکشن کے ڈریعے ڈلیوری کو محفوظ ترین آپشن قرار دیتے ہیں-

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: