کرونا وائرس اور دیگر خطرناک بیماریوں میں مبتلا افراد کو روزہ رکھنے سے قبل کیا کام لازمی کر لینا چاہیے؟

image


رمضان کے مہینے میں تمام مسلمان مذہبی جوش و خروش سے روزے رکھتے ہیں اور ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس مہینے وہ روزہ رکھ کر اس ماہ مبارک کی فیوض و برکات سمیٹ سکے- مگر جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے اور اس میں کہیں پر بھی زور یا زبر دستی نہیں ہے اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ اگر کوئی بیمار ہو تو وہ روزہ نہ رکھے بلکہ بعد کے دنوں میں صحت یاب ہونے کے بعد روزں کی گنتی پوری کر لے اور اگر اس کو شفا یابی کی امید نہیں ہے تو وہ اس صورت میں اس روزے کا فدیہ بھی ادا کر سکتا ہے- آج ہم آپ کو کچھ ایسے امراض کے بارے میں بتائيں گے جن کے حامل افراد کو لازمی طور پر روزہ رکھنے سے قبل اپنے معالج سے مشورہ کر لینا چاہيے تاکہ اس مرض کے ساتھ روزہ رکھنا کہیں اس کو پریشانی میں مبتلا نہ کر دے-

1: ذیابطیس کے مریض
دنیا بھر میں تقریبا تین سو ملین افراد ذیابطیس کے موذی مرض میں مبتلا ہیں اور ان میں بڑی تعداد میں مسلمان ایسے ہیں جو کہ اس مرض کے باوجود روزہ رکھتے ہیں- اس مرض میں روزے کی حالت میں دو قسم کے خطرات مریض کو ہو سکتے ہیں پہلی صورت میں تو شوگر کا لیول روزے کے باعث بہت زیادہ گر سکتا ہے اور ہلاکت کا باعث ہو سکتا ہے- اور دوسری صورت میں شوگر کا لیول اتنا زیادہ ہو سکتا ہے کہ شوگر خون میں زہر پھیلانے کا باعث بن سکتی ہے اور ہلاکت کا سبب ہو سکتی ہے اس وجہ سے معالج اس بات کا بہتر طور پر فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ذیابطیس کے مریض کو روزہ رکھنا چاہیے یا نہیں ۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ اگر شوگر کا لیول 60 تک ہو تو اس صورت میں بھی روزہ توڑ دینا چاہیے اس کے ساتھ ساتھ اگر شوگر کا لیول 250 سے زیادہ ہو تو اس صورت میں بھی روزہ توڑ دینا چاہیے-

image


2: امراض قلب کے مریض
عام طور پر ڈاکٹرز کا یہ ماننا ہے کہ امراض قلب کے مریضوں کو روزہ رکھنے کی صورت میں فائدہ ہوتا ہے اور وہ ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق روزہ بھی رکھ سکتے ہیں کیوں کہ روزے کی صورت میں جسم کے اندر ایسے مادے پیدا ہوتے ہیں جو کہ نہ صرف خون میں کولیسٹرول کی شرح میں کمی کرنے کا باعث بنتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہائی بلڈ پریشر کو بھی کنٹرول کرنے کا باعث ہوتے ہیں- مگر عام طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ دل کے مریضوں کی طبیعت رمضان میں زيادہ خراب ہوتی ہے تو اس کا سبب درحقیقت ان کی اپنی بے احتیاطی ہوتی ہے جو کہ وہ سحر و افطار کے موقعوں پر کرتے ہیں کیوں کہ بہت زیادہ چکنی اشیا کے استعمال کے سبب ان کی طبیعت خراب ہو سکتی ہے اس وجہ سے امراض قلب کے مریضوں کو اس ڈائٹ پلان پر سختی سے عمل کرنا چاہيے جو کہ ان کے ڈاکٹروں کی جانب سے دیا جائے-

image


3: کرونا وائرس سے متاثر مریض
حالیہ دنوں میں کرونا وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہےاور ںئی بیماری ہونے کے سبب لوگ اس کے بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے ہیں- اس وجہ سے ان کے اندر یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ کیا کرونا وائرس کے متاثرین روزہ رکھ سکتے ہیں یا نہیں- اس حوالے سے علما کی یہ متفق رائے ہے کہ اگر کسی مریض میں کرونا وائرس موجود ہے مگر اس بیماری کی علامات ظاہر نہیں ہوئی ہیں تو وہ قرنطینہ میں رہتے ہوئے روزہ رکھ سکتا ہے اور اگر وہ کرونا کے ساتھ ساتھ دیگر امراض میں بھی مبتلا ہے تو اسے اس حوالے سے اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے- تاہم اگر اس میں کرونا کی علامات خطرناک درجے پر ہوں تو اس صورت میں وہ روزہ چھوڑ بھی سکتا ہے-

image


4: گردے کے امراض میں مبتلا مریض
لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ گردے کی بیماری میں پانی کا پینا بہت ضروری ہوتا ہے- اس وجہ سے رمضان کے مہینے میں پانی کی کمی کے خدشے کے سبب مریض کو روزے نہیں رکھنے چاہیے ہیں لیکن یہ ایک سراسر غلط تاثر ہے کیوں کہ ماہرین کا یہ ماننا ہے کہ عام طور پر ڈیڑھ سے دو لیٹر پانی ہر انسان کو درکار ہوتا ہے- مگر رمضان میں لوگوں کے پانی کے استعمال کی مقدار تین سے چار لیٹر تک جا پہنچتی ہے اس وجہ سے اگر آپ گردوں کے کسی مرض میں مبتلا ہیں تو اس کی نوعیت کے اعتبار سے ڈاکٹر کے مشورے کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے روزے رکھ سکتے ہیں- اگر کوئی مریض ڈائی لیسس کروا رہا ہو تو اس کو تو ویسے بھی پانی کا استعمال منع ہوتا ہے اس لیے وہ روزہ رکھ سکتا ہے مگر ان تمام افراد کو روزہ رکھنے قبل اپنے ڈآکٹر سے مشورہ لازمی کروا لینا چاہیے اور اگر اس کے مرض کے بڑھنے کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ رکھنے میں احتیاط کریں-

image


5: حاملہ خواتین
حاملہ خواتین کے روزے رکھنے کے حوالے سے فیصلہ ان کی حمل کی مدت اور ان کی صحت پر منحصر ہے اگر روزے کے نتیجے میں ماں اور بچے کی صحت کو کسی بھی قسم کا خطرہ لاحق ہو تو اس صورت میں حاملہ خواتین کو روزہ چھوڑ دینا چاہیے مگر حاملہ عورت کے روزے کا فدیہ نہیں ہوتا ہے اس کو حمل کی مدت کے اختتام پر روزوں کی گنتی پوری کرنی چاہیے-

image

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: