کسی بھی شادی شدہ جوڑے کے لیے یہ خوشخبری بہت اہم ہوتی ہے کہ ان کے خاندان
میں اضافہ ہونے جا رہا ہے یہ خبر ان کے درمیان محبت کو بڑھانے کا مؤجب بھی
بن سکتی ہے- اس کے ساتھ ساتھ ایک ماں جب اپنی کوکھ میں ایک نئی روح کی آمد
کی خبر پاتی ہے تو اس کے اثرات اس کے جسمانی کے ساتھ ساتھ ذہنی نشونما پر
بھی پڑتے ہیں اور وہ اپنے اندر بہت مثبت تبدیلیاں محسوس کرتی ہے- مگر
بدقسمتی سے اگر کسی سبب یہ حمل ساقط ہو جائے تو ہمارے معاشرے میں اس کا
سارا ملبہ ماں پر ڈال دیا جاتا ہے اور اس کو کمزور، ناکارہ اور نہ جانے کیا
کیا قرار دیا جاتا ہے۔ اسقاط حمل کے حوالے سے اپنے رویے کو مثبت کرنے کے
لیے یہ ہم سب کی اولین ذمہ داری ہے کہ ہم اس حوالے سے حقائق سے روشناس ہوں
تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ اس عمل میں ماں کی ذمہ داری کس حد تک ہو سکتی
ہے-
اسقاط حمل سے کیا مراد ہے
اسقاط حمل سے مراد وہ صورتحال ہے جس میں حمل کے ابتدائی دور میں ہی غیر
متوقع طور پر حمل ختم ہو جائے- یہ عمل کئی پیچیدگیوں کے سبب ہو سکتا ہے اس
وجہ سے ماہرین صحت حمل کی مدت کو تین ادوار میں تقسیم کرتے ہیں پہلا دور
حمل ٹہرنے سے لے کر اگلے تین ماہ تک ہوتا ہے- دوسرا دور چوتھے مہینے سے لے
کر چھٹے مہینے تک ہوتا ہے اور تیسرا دور یعنی آخری دور چھٹے مہینے سے زچگی
کے مرحلے تک ہوتا ہے-
پہلے مرحلے میں اسقاط حمل کی وجوہات
پہلے مرحلے میں جب کہ ماں کی کوکھ میں پلنے والا بچہ بہت مختصر ہوتا ہے عام
طور پر اس وقت اسقاط کی شرح بہت زیادہ ہوتی ہے اور پاکستان کا شمار ایسے
ممالک میں ہے جب کہ اس دور میں اسقاط کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہے- لیکن
یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ اس وقت میں اسقاط کا سبب ماں کسی بھی صورت میں
نہیں ہوتی ہے- ابتدائی دور میں ہونے والا اسقاط حمل جسم کے آٹو میٹک سسٹم
کے تحت ہوتا ہے اگر جین میں کسی بھی قسم کی خرابی ہو یا کروموسوم کے ملنے
کے سبب کسی بھی قسم کی ایب نارمیلیٹی کے خدشات ہوں تو اس صورت میں ماں کے
رحم میں یہ بچہ نمو پانے کے بجائے خود بخود ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور
اس سبب یہ حمل ضائع ہو جاتا ہے-
|