نیشنل نیوٹریشنل 2018 کے مطابق پاکستان میں ہر چوتھا بچہ
آئرن کی کمی کا شکار ہے۔ چھ سے نو ماہ کے درمیان والے تقریباَ 7138 بچوں کو
تجزیہ میں شامل کیا گیا۔ آئی ڈی اے (Iron deficiency anemia) کا پھیلاؤ
33.2 فیصد تھا۔ پاکستان میں آئرن کی کمی بہت عام ہے جو کہ بیماری کی اہم
وجہ مانی جاتی ہے۔ آئرن کی کمی بچوں کے جسم میں موجود آنتوں میں آئرن کے
عدم توازن کا نتیجہ ہے جو بچوں کے بڑھنے کے ساتھ ہی ان کے کمزور مدافعتی
نظام کا باعث بنتی ہے۔ اگر اس پھیلاؤ کی شرح کم نہ ہوتی تو آج ہمارا ملک
کورونا وائرس سے CoVid-19 جیسے وبائی امراض کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوجاتا
کیونکہ ہمارا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا۔
یہ تعداد کافی تشویش ناک ہیں اور پاکستان کے مستقبل کے لئے خطرہ ہے۔
درحقیقت اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک بچے کا دماغ ابتدائی 2 سالوں میں 80 فیصد
تیار ہو جاتا ہے اور ہم ان کے مستقبل کو برباد یا غیر فعال نہیں کرسکتے
کیونکہ یہ بچے پاکستان کا مستقبل ہیں۔ لہٰذا اگر ہم اسے قومی مسئلہ سمجھیں
تو اپنے بچوں کے مستقبل کی حفاظت کرسکیں گے۔ پاکستان کے مشہور گلوکار اور
سماجی کارکن شہزاد رائے نے بھی اس حقیقت سے اتفاق کیا اور لوگوں سے گزارش
کی کہ وہ اس صورتحال کو معمولی نہ سمجھیں اور پوری طاقت کے ساتھ اس کا
مقابلہ کریں۔
عام طور پر جب ایسی علامات بچے میں ظاہر ہوتی ہیں تو اسے ڈانٹا جاتا ہے کہ
کلاس میں توجہ نہیں دیتا اور بالآخر پھر بچہ فیل ہو جاتا ہے۔ ممکن ہے کہ اس
میں آپ کے بچے کی غلطی نہ ہو کیونکہ اگر آپ کا بچہ ان 4 طریقوں میں سے کسی
ایک کے ساتھ برتاؤ کر رہا ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ IDA سے
دوچار ہے جس میں شامل توجہ کا فقدان، تھکاوٹ / تھکن ، بار بار بیمار اور دم
توڑ جانا۔ ایسی صورتحال میں آپ کا بچہ یا بچی ٹھیک طرح سے اپنی کیفیت ظاہر
نہیں کر پاتے کہ وہ کیسا محسوس کر رہے ہیں تو یہ سب سے پریشان کن بات ہے۔
بچوں میں خون کی کمی کی کے لئے مختلف عوامل درکار ہوتے ہیں جیسے اس کی روک
تھام کے لئے مناسب اقدامات کرنا وغیرہ۔ پاکستان میں غذائیت کی وجہ سے بچوں
میں خون کی کمی سب سے عام ہے۔ اس کی جڑیں 1977 ء میں اس وقت واپس آئیں جب
پاکستان میں مائیکرو نیوٹری ینٹ سروے کیا گیا تھا۔ تقریباً 38 فیصد آبادی
میں خون کی کمی کی نشاندہی کی گئی تھی۔ پاکستان میں 1988 میں کیے جانے والے
ایک سروے کے مطابق ، 7 سے 60 ماہ کی عمر کے 65 فیصد بچوں میں خون کی کمی
پائی گئی تھی۔
|