کورونا وائرس: سندھ میں پہلی ہلاکت، مزید نئے کیسز بھی سامنے آگئے

image


پاکستان میں جمعے کو کراچی میں کورونا کے ایک مریض کی ہلاکت کے بعد ملک میں اس وائرس سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد تین ہو گئی ہے جبکہ ملک میں اس وبا کے پھیلاؤ کے بعد جمعرات کو ایک دن میں سے سب سے زیادہ 154 نئے مریض سامنے آئے ہیں۔

جمعے کو ہلاک ہونے والے 77 سالہ مریض کا تعلق کراچی سے بتایا گیا ہے جبکہ اس سے قبل دو افراد خیبر پختونخوا میں ہلاک ہوئے تھے۔

دنیا کے 175 سے زیادہ ممالک کو متاثر کرنے والے اس وائرس سے پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں متاثر ہونے والے افراد تعداد اب 458 ہو گئی ہے جبکہ ملک میں اس کے مریض چار صحت یاب ہو چکے ہیں۔

پاکستان میں جن افراد میں اس کی تشخیص ہوئی ان میں سے نصف سے زیادہ ایران سے واپس آنے والے زائرین ہیں جنھیں اب ان کے صوبوں میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔

پاکستان میں کراچی وہ شہر ہے جہاں اس وائرس کا سب سے زیادہ مقامی سطح پر پھیلاؤ دیکھا گیا ہے اور وہاں 90 سے زیادہ ایسے افراد میں پایا گیا ہے جنھوں نے بیرونِ ملک کا سفر نہیں کیا تھا۔

وفاقی اور صوبائی اعداد و شمار کے مطابق اس وقت سندھ میں 245، بلوچستان میں 81، پنجاب میں 80، خیبر پختونخوا میں 23, گلگت بلتستان میں 21 اور اسلام آباد میں کورونا کے سات متاثرین موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی ایک مریض کی تصدیق کی گئی ہے۔

کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے ملک بھر میں تمام تعلیمی اداروں کو پہلے ہی پانچ اپریل تک بند کیا جا چکا ہے جبکہ ملک بھر میں یکم جون تک تمام امتحانات ملتوی کر دیے گئے ہیں۔

ملک کی سرحدیں بھی پندرہ روز تک مکمل بند اور بین الاقوامی پروازیں محدود کی جا چکی ہیں۔
 

image


سندھ میں پہلی ہلاکت، کراچی میں 93 مریضوں میں وائرس کی مقامی منتقلی
پاکستان میں صوبہ سندھ بدستور اس وائرس سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ہے جہاں جمعے کو اس کے پہلے مریض کی ہلاکت کی تصدیق بھی کر دی گئی ہے۔

سندھ کی وزیرِ صحت عذرا پیچوہو نے کراچی سے تعلق رکھنے والے 77 سالہ مریض کی کورونا سے ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ ان کے مطابق یہ شخص کینسر اور ذیابیطس کا بھی مریض تھا اور شہر کے ایک نجی ہسپتال میں داخل تھا۔

اس مریض کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہ مقامی منتقلی کا کیس تھا کیونکہ اس کے حالیہ بیرونِ ملک سفر کی کوئی معلومات موجود نہیں تھیں۔

اس سے قبل جمعرات کو صوبے میں مزید 37 افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی جس کے بعد صوبے میں ایسے افراد تعداد 245 ہو گئی ہے جن میں کووڈ-19 کی تصدیق کی جا چکی ہے اور ان میں سے تین صحت یاب بھی ہو چکے ہیں۔

سندھ کے محکمۂ صحت کی ترجمان کے مطابق جمعرات کو سامنے آنے والے تمام 37 مریضوں کا تعلق کراچی سے ہے جہاں اب کورونا کے متاثرین کی تعداد 93 تک پہنچ گئی ہے جبکہ ایک مریض کا تعلق حیدرآباد سے بھی ہے۔

سکھر بدستور صوبے میں سب سے متاثرہ علاقہ ہے جہاں اب تک 151 افراد میں اس وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔ یہ تمام سکھر کے قرنطینہ میں رکھے زائرین ہیں جو تفتان کے قرنطینہ میں 14 دن کا وقت گزارنے کے بعد سندھ لائے گئے تھے جہاں ان کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔

ترجمان کے مطابق اب تک سکھر میں جن 303 افراد کے ٹیسٹ کیے گئے ہیں جن میں سے 151 زائرین میں اب تک کورونا وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
 

image


نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق جمعرات سے حکومت سندھ کے 25 محکموں میں پندرہ روز کی بندش کے حکم پر بھی عملدرآمد جاری ہے۔

سندھ حکومت نے بدھ سے صوبے میں جزوی ’لاک ڈاؤن‘ کا اعلان کیا تھا جس کے تحت اور صوبے کے تمام شاپنگ مراکز اور ریستورانوں میں کھانا کھلانے کی سروس 15 دن کے لیے بند کر دی گئی ہے تاہم کریانہ سٹور کے علاوہ سبزی اور گوشت اور دیگر اشیائے ضرورت کی دکانیں کھلی رہیں گی۔

اس کے علاوہ صوبے میں اندرون ملک سے آنے والی بس سروس بھی معطل کردی گئی ہے۔

فیصلے کے مطابق صوبے کے عوامی پارک اور کراچی میں ساحلِ سمندر بھی بدھ سے بند ہے جبکہ تمام اقسام کی اجتماعات کے اجازت نامے بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔

سندھ میں کورونا سے بچاؤ کے اقدامات کے تحت صوبے کے تمام نجی اور سرکاری تعلیمی ادارے پہلے ہی 31 مئی تک بند کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبے بھر میں شادی ہال، سینما گھر، مزار اور درگاہیں تین ہفتوں کے لیے بند کر دیے گئے ہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ نے تین ارب رپے کا کورونا ریلیف فنڈ بھی قائم کیا ہے اور وزیر، مشیر قانون مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کابینہ کے تمام ارکان، پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ایک ماہ کی تنخواہ اس فنڈ میں جمع کرائیں گے۔
 

image


پنجاب میں کورونا کے مریضوں میں اضافہ، نقل و حرکت پر پابندیاں
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں بھی ایران سے آنے والے زائرین کے پہنچنے کے بعد کورونا کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔

حکام کے مطابق جمعرات کو مزید 47 افراد میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جس کے بعد متاثرین کی کل تعداد 80 ہو گئی ہے۔

پنجاب حکومت کی ترجمان اور رکنِ اسمبلی مسرت چیمہ نے جمعے کی صبح ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں بتایا کہ ان میں سے 55 افراد کا تعلق ڈیرہ غازی خان، 15 کا لاہور، چار کا گجرات، تین کا مظفر گڑھ، دو کا ملتان سے ہے جبکہ ایک مریض راولپنڈی میں سامنے آیا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت صوبے میں 110 افراد زیرِعلاج ہیں جن میں سے 80 مصدقہ مریض ہیں جبکہ 30 کے بارے میں شبہ ہے کہ ان میں کورونا وائرس ہو سکتا ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب تک صوبے میں 467 افراد کے ٹیسٹ کیے جا چکے ہیں جن میں سے 357 منفی رہے جبکہ 30 کے نتائج کا انتظار ہے۔

بدھ کو صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مصدقہ مریضوں میں سے 60 وہ زائرین ہیں جو تفتان کے قرنطینہ میں وقت گزارنے کے بعد پنجاب لائے گئے تھے۔

پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے بدھ کو بتایا تھا کہ حکام اب ڈیرہ غازی خان میں قرنطینہ میں رکھے گئے تمام زائرین کا ٹیسٹ کر رہے ہیں جبکہ وہاں تفتان سے آنے والے مزید 1276 زائرین کا بھی ٹیسٹ کیا جائے گا۔
 

image


پنجاب کی حکومت نے بھی وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب کے مطابق صوبے میں خریداری کے بڑے مراکز، ریستوران اور دکانیں رات 10 بجے بند کر دی جائیں گی جبکہ شہریوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لیے مرحلہ وار اقدامات کیے جائیں گے۔

حکومتِ پنجاب کے صوبے کے سب سے مقبول سیاحتی مقام مری کو بھی سیاحوں کے لیے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وہاں کے مقامی لوگوں کو بھی اپنی نقل و حرکت محدود کرنے کو کہا ہے

حکومت پنجاب کی ایپکس کمیٹے کے فیصلوں کے مطابق صرف ضروری سرکاری ملازمین کو دفتر آنے کی ہدایت کی گئی ہے جبکہ دیگر ملازمین سے گھروں میں رہنے کو کہا جائے گا۔دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے تمام ضروری حفاظتی انتظامات پر عملدرآمد کے پابند ہوں گے

خیال رہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت نے کورونا کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے صوبے بھر میں طبی ایمرجنسی نافذ کی ہوئی ہے۔

صوبائی وزیرِ صحت یاسمین راشد کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے اور درپیش صورتحال سے نمٹنے کے لیے تعلیمی ادارے بند کیے جا چکے ہیں جبکہ ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کی گئی ہے تاہم کاروباری سرگرمیاں محدود کرنے کے حوالے سے ابھی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

پنجاب کی صوبائی وزیر صحت کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت علما ومشائخ سے بھی رابطے میں ہے کہ مساجد میں بھی لوگوں کے اکٹھے ہونے کے حوالے سے فیصلہ کیا جا سکے۔
 

image


خیبر پختونخوا میں، چار نئے مریض اور دو ہلاکتیں
پشاور میں محکمۂ صحت کے حکام کے مطابق صوبے میں جمعرات کو مزید چار افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے جس کے بعد زیرِعلاج مریضوں کی تعداد 21 ہو گئی ہے جبکہ دو مریض وفات پا چکے ہیں۔

صوبائی محکمۂ صحت کے مطابق نئے مریضوں میں سے دو بیرونِ ملک سے واپس آئے ہیں جبکہ ایک مریض پہلے سے موجود ایک مریض کا رشتہ دار ہے تاہم چوتھا مریض نہ تو بیرونِ ملک سے آیا اور نہ ہی کسی ایسے فرد سے رابطے میں رہا جو اس مرض کا شکار ہو۔

نامہ نگار کے مطابق وزیرِ صحت کے مطابق اب صوبے میں جو مصدقہ مریض ہیں ان میں سے اکثریت کا تعلق زائرین کے اس گروپ سے ہے جو ایران سے واپس آیا ہے اور انھیں تفتان سے ڈیرہ اسماعیل خان لایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک مریض کا تعلق بونیر اور ایک کا مانسہرہ سے ہے اور مانسہرہ والے مریض بھی حال ہی میں برطانیہ سے پاکستان آئے تھے۔

جمعے کو بھی تفتان سے تقریباً 400 زائرین کا ڈیرہ اسماعیل خان پہنچا ہے۔ ان میں سے لگ بھگ 200 افراد کا تعلق گلگت بلتستان سے بتایا گیا ہے جبکہ باقی صوبے کے مختلف شہروں سے ہیں۔

قافلے میں شامل ایک شخص نے ٹیلیفون پر بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھیں گومل میڈیکل کالج میں رکھا گیا ہے ۔

یہ وہی قافلہ ہے جس کی ایک رکن کی دورانِ سفر ہلاکت کی تصدیق صوبائی وزیرِ صحت تیمور جھگڑا نے کی تھی۔ پاڑہ چنار سے تعلق رکھنے والی یہ بزرگ خاتون ذیابیطس کی مریضہ تھی تاہم یہ واضح نہیں کہ ان کا کورونا ٹیسٹ کیا گیا تھا یا نہیں۔

مقامی ذرائع نے بتایا ہے کہ گلگت بلتستان کے مسافروں کو جمعے کو ہی ان کے اپنے علاقوں کو روانہ کر دیا جائے گا جبکہ دیگر افراد کو درازندہ میں قرنطینہ میں رکھا جائے گا جہاں ان کے ٹیسٹ کیے جائیں گے۔
 

image


خیبر پختونخوا میں بھی حکومت نے کورونا سے بچاؤ کے لیے اہم اقدامات کا اعلان کیا ہے جس کے تحت بازار اب صبح دس بجے سے شام سات بجے تک ہی کھلیں گے تاہم کریانہ اور روزمرہ اشیائےضرورت کی دکانیں 24 گھنٹے کھلی رہ سکتی ہیں۔

حکومت نے 15 دن کے لیے صوبے میں خریداری کے بڑے مراکز اور حجام کی دکانیں بند کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ عوامی مقامات اور شادی ہالوں کے علاوہ گھروں میں بھی تقریبات کے انعقاد پر پابندی لگا دی گئی ہے اور سیاحتی مقامات کی جانب سفر بھی ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔

تمام ریستورانوں پر بھی پابندی لگائی گئی ہے کہ وہ اپنے احاطے میں کھانا نہیں کھلا سکتے تاہم ہوم ڈیلیوری کی سہولت فراہم کر سکتے ہیں۔

حکومت کا کہنا ہے کہ اب سرکاری اجلاس میں صرف پانچ افراد ہی شریک ہو سکتے ہیں اور اگر ضرورت ہوئی تو باقی افراد ویڈیو لنک کے ذریعے شامل ہوں گے

خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے خدشے کے پیشِ نظر پہلے ہی 15 روز کے لیے تعلیمی ادارے بند کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی اور عوامی اجتماعات پر پابندی لگانے،ہاسٹل بند کرنے اور جیلوں میں قیدیوں سے ملاقاتیں معطل کرنے کے فیصلے بھی کیے جا چکے ہیں۔
 


ادھر ضلع مردان میں انتظامیہ نے منگاہ کی یونین کونسل میں ایک مریض کی کورونا سے ہلاکت کے بعد علاقے کو حساس قرار دیتے ہوئے وہاں سے آمدورفت پر پابندی عائد کر دی ہے۔

منگاہ سے تعلق رکھنے والے 50 سالہ سعادت خان ان دو مریضوں میں سے ایک تھے جن کی ہلاکت کی تصدیق حکام نے بدھ کی شب کی۔ سعادت نو مارچ کو سعودی عرب سے واپس آئے تھے۔

50 ہزار آبادی والی اس یونین کونسل کے داخلی، خارجی راستوں پر سکیورٹی اہلکار تعینات کر دیے گئے ہیں۔ منگاہ کے رہائشیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں میں رہیں اور باہر نکلنے کی کوشش نہ کریں۔

نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ سعادت خان کی ہلاکت کے بعد اب علاقے کے تمام لوگوں کی سکریننگ کے انتظامات کیے جا رہے ہیں جس کے لیے طبی ٹیمیں بدھ کو علاقے میں جائیں گی۔

سعادت خان کے علاوہ ہلاک ہونے والے دوسرے مریض کی عمر 36 برس اور ان کا تعلق ہنگو سے بتایا گیا ہے۔ مذکورہ مریض کا علاج پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں جاری تھا اور وہیں انھوں نے دم توڑا۔

بلوچستان میں 58 نئے مریض، صوبے میں نقل و حمل پر پابندیاں
حکومتِ بلوچستان نے صوبے بھر میں تا حکمِ ثانی طبی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے صوبے میں جمعرات کو مزید 58 نئے مریضوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے جس کے بعد بلوچستان میں کورونا کے مصدقہ مریضوں کی تعداد بڑھ کر 81 ہو گئی ہے۔

صوبائی حکومت نے ان حالات میں مسافروں کی بین الصوبائی نقل و حمل پر فوری پابندی لگا دی ہے جبکہ دو دن بعد صوبے کے اندر بھی مسافر بسوں کے ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک سفر پر پابندی لگا دی جائے گی۔

ایک سرکاری اعلامیے کے مطابق چیف سیکریڑی بلوچستان کی زیر صدارت اجلاس میں باہر سے بسوں، کوچز اور منی بسوں کی آمد اور صوبے سے ان کی روانگی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ اجلاس میں کوئٹہ شہر میں بھی لوکل بسوں کوچز اور منی بسوں کو فوری طور پر بند کرنے کے احکامات دے دیے گئے ہیں۔

اس اجلاس میں صوبے کی بڑی مارکیٹیں، شاپنگ مالزاور ریستوران بھی بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت پہلے ہی حفاظتی اقدامات کے تحت تین ہفتے کے لیے صوبے بھر میں تمام مزار، درگاہیں، پارک، جمنازیم، کھیل کے میدان اور بچوں کے کھیل کھود کے مقامات بند کرنے کا حکم دے چکی ہے۔

چیف سیکرٹری کے مطابق یہ اقدامات لوگوں کی بہتری کے لیے اٹھائے گئے ہیں اور لوگوں کو قربانی دینی پڑے گی کیونکہ پورے شہر میں وائرس کے پھیلنے کا خطرہ ہے۔

نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں ایران سے نئے زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے تاہم وہاں کے قرنطینہ مرکز میں پہلے سے مقیم دوسرے صوبوں کے تمام زائرین کو روانہ کر دیا گیا ہے۔

تفتان میں انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ قرنطینہ میں پہلے سے مقیم 1500 سے زیادہ افراد کا آخری قافلہ بدھ کو روانہ کر دیا گیا جن کا تعلق پنجاب اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے تھا۔
 

image


ان کا کہنا تھا کہ ایران سے مزید زائرین کی آمد جاری ہے جن کا تعلق دوسرے صوبوں سے ہے اور ان کی تعداد رجسٹریشن کے بعد بتائی جا سکے گی۔

چیف سیکریٹری کے مطابق دوسرے صوبوں کے زائرین بسوں کے ذریعے ان کے متعلقہ صوبوں تک بھیجے جا رہے ہیں اور تفتان میں صرف بلوچستان کے زائرین ہی رکھے جائیں گے۔

صوبے کے ایران سے متصل سرحدی شہر تفتان میں قائم کیے گئے قرنطینہ میں سہولیات پر سوال اٹھائے جانے کے باوجود حکام نے افغانستان سے متصل بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں بھی کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر ایک ویسا ہی قرنطینہ مرکز قائم کیا ہے۔

خیمہ بستی کی شکل میں قائم یہ تیسرا بڑا صوبائی قرنطینہ مرکز ہے۔ اس سے قبل تفتان کے علاوہ اور کوئٹہ شہر کے قریب میاں غنڈی میں قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے تھے۔

بلوچستان میں پی ڈی ایم اے کے ترجمان فیصل نسیم پانیزئی کا کہنا ہے کہ چمن میں قائم کیے گئے قرنطینہ مرکز میں ایک ہزار افراد کی گنجائش ہے تاہم لوگوں کو الگ الگ خیموں میں رکھنے کے لیے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

انھوں نے تفتان یا میاں غنڈی میں لوگوں کو اکٹھا رکھنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’سب کے لیے الگ الگ انتظامات کیے جانے کے باوجود لوگ اکٹھے ہوتے تھے۔‘

تفتان کے قرنطینہ مرکز میں اب بھی دو ہزار سے زیادہ زائرین موجود ہیں جنھیں ان کے متعلقہ علاقوں میں بھیجنے کے انتظامات کیے جا رہے ہیں۔

امریکہ کا پاکستان کو '10 لاکھ ڈالر' کی امداد
امریکی وزارت خارجہ کے بیورو آف ساؤتھ اینڈ سینٹرل ایشیا نے ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ امریکہ نے کووڈ 19 سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو ابتدائی طور پر 10 لاکھ ڈالر کی امداد دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا تھا کہ یہ امداد وبا کی بہتر مانیٹرنگ اور اس حوالے سے ردِ عمل بہتر بنانے کے لیے دی گئی ہے۔

ٹویٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ دنیا کو صحت کے حوالے سے درپیش مسائل کا سامنا کرنے کے لیے امریکہ اور پاکستان کی طویل شراکت داری رہی ہے۔

'اس وقت سینٹر آف ڈیزیز کنٹرول کی وبائی بیماریوں کی لیب کے 100 سے زائد پاکستانی گریجویٹس گلگت بلتستان اور پنجاب میں کووڈ 19 کے کیسز پر تحقیق کر رہے ہیں۔'

آن لائن بینکنگ
پاکستان کے بینکوں نے بھی صارفین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ بینک کے دفاتر آنے سے گریز کریں، بلوں کی ادائیگی، رقومات کی منتقلی کے لیے آن لائن بیکنگ، موبائل بیکنگ یا پھر اے ٹی ایم یا ڈیبٹ کارڈ کا استعمال کریں۔

کمرشل بینکوں نے یہ ہدایت مرکزی بینک کے احکامات کی روشنی میں جاری کی ہے۔ سٹیٹ بینک نے انٹرنیٹ، موبائل بینکنگ سے رقومات کی منقلی اور ادائیگی پر عائد تمام چارجز ختم کر دیے تھے۔

سٹیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے بی بی سی کے ریاض سہیل کو بتایا کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ فنانشل سہولیات موجود ہیں اور لوگوں کی بینکوں میں آمد کو کم سے کم کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے کرنسی کے پھیلاؤ کو کم سے کم کیا جائے گا کیونکہ کرنسی نوٹ کے ذریعے بھی وائرس پھیلنے کے خدشات موجود ہوتے ہیں۔
 


Partner Content: BBC

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: