پاکستان میں کرونا وائرس سے بچاؤ اور علاج کے لیے کیا حفاظتی اقدامات کیے جا رہے ہیں؟

image


پاکستانی حکام کی جانب سے چین سے شروع ہو کر 38 ممالک تک پھیلنے والے کورونا وائرس کووِڈ-19 کے دو مریضوں کی موجودگی کی تصدیق کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ سوال پوچھا جانے لگا ہے کہ پاکستان اس وائرس سے نمٹنے اور عوام کو تحفظ دینے کے لیے کتنا تیار ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بدھ کی شب پاکستان کے شہر کراچی اور اسلام آباد میں دو مریضوں میں کورنا وائرس کی تشخیص کی تصدیق کی تھی اور یہ بھی بتایا تھا کہ مزید 13 افراد ایسے ہیں جن میں وائرس کی موجودگی کا شبہ ہے اور ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

ظفر مرزا کے مطابق پاکستان میں یہ وائرس ایران سے آیا ہے جو چین سے باہر ایشیا میں اس وائرس کا سب سے بڑا مرکز بن چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دونوں متاثرین گذشتہ ایک ماہ کے دوران ایران سے واپس آئے تھے۔

ایران میں وائرس کے مریضوں کی موجودگی کا اعلان چند دن قبل ہی ہوا ہے جس کے بعد پاکستان نے ایران سے ملحقہ سرحد بند کر دی ہے جبکہ وہاں سے آنے والے افراد کو سرحد پر ہی قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔

پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان کی حکومت ایران میں کرونا وائرس پھیلنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس سوال پر کہ کیا چین سے پاکستانی طلبا کو واپس نہ لانے کی پالیسی ایران سے بھی زائرین اور طلبا پر لاگو ہوگی، ترجمان دفتر خارجہ نے بی بی سی کی نمائندہ فرحت جاوید کو بتایا کہ اس پر بات کرنا ابھی قبل از وقت ہے۔

'ہم ایران کی حکومت سے مکمل رابطے میں ہیں اور سرحدی علاقوں میں سکریننگ مزید سخت کر دی گئی ہے'۔
 

image


انھوں نے کہا کہ اس معاملے پر بلوچستان اور دارالحکومت میں اعلی سطح پر منصوبہ بندی کی جارہی ہے اور 'چین اور ایران میں موجود پاکستانی شہریوں کے حق میں مفید ترین فیصلہ کیا جائے گا'۔

انھوں نے بتایا کہ سفارتخانے میں ہیلپ لائنز قائم کر دی گئی ہیں اور قونصل خانے اس حوالے سے پاکستانی برادری کو ضروری معلومات اور تجاویز فراہم کر رہے ہیں۔

بدھ کی شب بلوچستان کی حکومت نے صوبے بھر میں تعلیمی ادارے 15 مارچ تک کے لیے بند کر دیے ہیں جبکہ سندھ میں بھی سکول اور دیگر تعلیمی ادارے اختتامِ ہفتہ تک بند رہیں گے۔

حکومت سندھ نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران سے آنے والی پروازوں کو معطل کیا جائے۔

ایران سے پروازیں معطل کرنے کا مطالبہ
کراچی سے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں بدھ کی شب جس پہلے مریض کی تصدیق ہوئی وہ 22 سالہ نوجوان اپنے دوستوں اور دیگر 28 افراد کے ساتھ زیارات کے لیے ایران گیا تھا۔

محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق یہ نوجوان قم میں قیام کے بعد 19 جنوری کو تہران سے کراچی روانہ ہوا تھا اور 24 فروری تک مریض میں وائرس کی علامات نہیں تھیں۔ 25 فروری کو اسے نجی ہسپتال میں داخل کیا گیا جہاں 26 فروری کو وائرس کی تصدیق ہوئی۔
 


سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ متاثرہ مریض کے ساتھ اس کے اہلخانہ کو بھی قرنطینہ میں رکھا گیا ہے اور اس کے باوجود کہ ان افراد میں وائرس سے متاثر ہونے کی علامات نہیں ہیں انھیں پھر بھی 15 روز نگہداشت میں رکھا جائے گا۔

مراد علی شاہ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ نوجوان کے ساتھ سفر کرنے والے 28 افراد کی بھی شناخت کر لی گئی ہے جبکہ یکم فروری سے اب تک ایران جانے والے 1500 زائرین کا پتا لگایا گیا ہے، ان کے شناختی کارڈ اور موبائل فون نمبرز حاصل کیے گئے ہیں اور ان کی یونین کونسل کی سطح پر نگرانی کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان لوگوں سے درخواست کی جائے گی کہ وہ آئندہ 15 دن تک اپنے گھروں تک محدود رہیں۔ اگر ان میں کھانسی، بخار یا اس قسم کی علامات ہیں تو حکام سے فوری رابطہ کریں جہاں محکمہ صحت کی مخصوص ٹیمیں ان کا معائنہ کریں گی اور کچھ شبہ ہوتا ہے تو انھیں ہسپتال منتقل کردیا جائے گا۔‘

وزیراعلیٰ کے مطابق اس نگرانی میں ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی مدد لی جائے گی۔

سندھ میں تعلیمی ادارے بند کرنے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ایران سے آنے والے 1500 افراد لوگوں اور بچوں سے بھی رابطے میں رہے ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ کسی سکول بھی گئے ہوں، اسی وجہ سے سکول بند کیے گئے ہیں۔
 

image


سندھ کے وزیر اعلیٰ نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایران سے آنے والی پروازوں کو معطل کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے اس سلسلے میں وزیر خارجہ، وزیر داخلہ اور صحت کے وفاقی معاون سے رابطے کی کوشش کی تھی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

ان کے مطابق ’ایئرپورٹس پر سکریننگ کی صورتحال کچھ بہتر نہیں ہے اور اجلاس میں بعض ماہرین نے ذاتی تجربے کی بنیاد پر اس کی نشاندہی کی۔‘

سید مراد علی شاہ نے بتایا کہ کراچی میں کورونا کے مشتبہ مریضوں کے لیے ایک ہسپتال وقف کیا جارہا ہے جس میں تمام مطلوبہ سہولیات فراہم کی جائیں گی اور اس کے لیے وینٹی لیٹرز کی خریداری ہو رہی ہے۔

وزیراعلیٰ کے مطابق انھوں نے ’ماسک اور ادویات کے مصنوعی بحران کا بھی نوٹس لیا ہے اور حکومت ان کی فراہمی یقینی بنائے گی جبکہ عوامی اجتماعات والے مقامات پر سینیٹائزر نصب کیے جائیں گے۔‘

ایران سے ملحقہ سرحد بند
کوئٹہ میں بی بی سی کے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق بلوچستان کے علاقہ تفتان سے ملحقہ ایرانی بارڈر جمعرات کو پانچویں روز بھی بند رہا، ضلعی انتظامیہ کے مطابق چاغی ضلعے میں تین قرنطینہ سینٹر بنائے گئے ہیں، اسسٹنٹ کمشنر نجیب قمبرانی کا دعویٰ ہے کہ ان میں ڈھائی ہزار تک لوگوں کو رکھا جاسکتا ہے۔ صحت کے مقامی عملے کی مدد کے لیے اسلام آباد سے 9 ڈاکٹر طلب کیے گئے ہیں۔ ایران سے آنے والے 250 زائرین تاحال پاکستان ہاؤس میں موجود ہیں جس کو قرنطینہ سینٹر قرار دیا گیا ہے۔

وزیر اعلیٰ جام کمال کا کہنا ہے کہ ایرانی سرحد بند کرنے کی مخالفت کی گئی تھی کہ اس سے تجارت میں فرق آئے گا لیکن وفاقی حکومت نے فیصلہ لیا، کیونکہ ان کی رائے تھی کہ ’مشتبہ مریضوں کی اطلاعات قم سے آرہی تھیں وہاں ہمارے زائرین بہت جاتے ہیں ہم نے کہا کہ جب یہ واپس آئیں گے تو یہ پاکستان میں پھیل جائیں گے اس لیے بارڈر بند کیا جائے‘۔

محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں کورونا وائرس کی مجموعی طور پر مانیٹرنگ اور اس کی روک تھام کے لیے 14 رکنی ٹیکنیکل کمیٹی بنائی گئی ہے۔ تاہم ان علاقوں کی جانب خصوصی توجہ مرکوز کی گئی ہے جہاں چینی باشندے موجود ہیں۔
 


ان میں گوادرکے علاوہ ضلع چاغی میں سیندک اور کراچی سے متصل بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کا علاقہ دودڑھ شامل ہیں۔ صوبائی حکام کے مطابق صوبے بھر میں جاری مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی تعداد تقریباً 459 ہے۔

تاہم گوادر سے تعلق رکھنے والے رکن بلوچستان اسمبلی حمل کلمتی نے ان انتظامات پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ بلوچستان اسمبلی کے رواں اجلاس میں ان کا کہنا تھا کہ گوادر میں سرحدی علاقوں سے اب بھی لوگوں کی آمدورفت کسی مناسب نگرانی کے بغیر جاری ہے۔ انہوں نے گوادر شہر میں چینی شہریوں کی گھومنے پھرنے کو محدود کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

سرحدی علاقوں میں کورونا وائرس کی روک تھام کے علاوہ حکومت بلوچستان نے ایران سے متصل سرحدی علاقوں میں دیگر علاقوں سے 60 سے زیادہ ڈاکٹروں کی ڈیوٹیاں لگائی ہیں۔

سرحدی علاقوں کے علاوہ کوئٹہ میں سول ہسپتال کے علاوہ بھی فاطمہ جناح چیسٹ اینڈ جنرل ہسپتال میں آئسولیشن مراکز قائم کیے ہیں گئے۔

افغانستان میں کورونا وائرس کے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد افغانستان سے متصل سرحدی علاقوں میں آمدورفت کے پوائنٹس پر افغانستان سے آنے والے افراد کی سکریننگ کی جارہی ہے۔
 

image


خیبرپختون خوا کے ہسپتالوں میں تیاری
پشاور ایئرپورٹ پر تربیت یافتہ عملہ تعینات ہے اور انھیں تھرمل گن اور تھرمل سکینر فراہم کر دیے گئے ہیں، خیبر پختونخوا محکمہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر طاہر ندیم کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ پشاور ایئرپورٹ پر ایک علیحدہ آئسولیشن روم بھی قائم کیا گیا ہے جبکہ مریضوں کو ہسپتال منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس بھی فراہم کی گئی ہے۔

پشاور ائیرپورٹ پر تعینات عملے کی انچارج ڈاکٹر کشمالہ اورکزئی نے بتایا کہ اس وقت بیرون ملک سے آنے والے تمام مسافروں کی سکیننگ کی جا رہی ہے۔ ابتدائی طور پر مسافروں کا تھرمل گن سے بخار کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان میں زکام، کھانسی، نزلہ اور سانس کی تکلیف کا معائنہ کیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ مسافروں کے سفر کا ریکارڈ بھی ان کے پاسپورٹ سے چیک کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں مسافر نے کہاں کہاں سفر کیا ہے۔

پشاور میں اگرچہ تمام ہسپتالوں کو الرٹ کیا گیا ہے لیکن ڈاکٹر طاہر ندیم کے مطابق پشاور ایئرپورٹ کے قریب فوجی فاؤنڈیشن ہسپتال کے ساتھ رابطہ کیا گیا ہے اور ابتدائی طور پر اس ہسپتال میں آئسولیشن وارڈ قائم کر دیا گیا ہے۔

پولیس سروسز ہسپتال پشاور، ایوب میڈیکل کمپلیکس ایبٹ آباد اور سول ہسپتال بٹگرام میں بھی الرٹ جاری کیا گیا ہے جہاں تمام حفاظتی اقدامات کیے گئے ہیں۔ ان ہسپتالوں میں آئسولیشن وارڈ کے علاوہ دیگر سامان بھی فراہم کر دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ برف باری کی وجہ سے خنجراب پاس اس موسم میں بند کر دیا جاتا ہے۔ واضح رہے پاکستان اور چین کے درمیان یہ پہلے سے طے معاہدے کے مطابق ہر سال خنجراب پاس یکم دسمبر سے یکم اپریل تک بند رہتا ہے۔ حکام کے مطابق چین نے سوست بارڈر بھی بند کر دیا ہے جس کے بعد اس راستے سے آمدورفت کا سلسلہ معطل ہے۔

نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق ہزارہ ڈویژن اور اس کے ملحقہ علاقوں میں مختلف منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندوں کی سکیننگ کی گئی ہے اور ان میں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جس نے 8 دسمبر 2019 کے بعد چین کا سفر کیا ہو۔

پاک افغان سرحد گزشتہ چند ماہ سے 24 گھنٹے کھلی رہتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق یہاں سے روزانہ تقریباً 13000 افراد اور ایک ہزار مال بردار ٹرک گزرتے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر ندیم کے مطابق طورخم بارڈر پر تھرمل سکینر اور تھرمل گنز فراہم کر دی گئی ہیں اور عملہ بھی تعینات ہے لیکن 24 گھنٹے سروس کے لیے یہاں عملے میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
 

image


پنجاب کی صورتحال
پنجاب میں کورونا وائرس کی صورتحال اور اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی سربراہی میں جمعرات کو اجلاس ہوا جس میں صورتحال کا صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کابینہ کی کمیٹی کے قیام کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی میں تمام سٹیک ہولڈرز شامل ہوں گے اور یہ روزانہ اجلاس کر کے صورتحال کا جائزہ لے گی اور اقدامات تجویز کرے گی۔

حکام کے مطابق اس وقت پنجاب میں پی کے ایل آئی میں 75بستروں پر مشتمل آئسولیشن وارڈ قائم کر دیا گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ لاہور کے میو ہسپتال میں بھی 35بستروں پر مشتمل آئسولیشن یونٹ بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سروسز ہسپتال میں بھی آئسولیشن وارڈ قائم ہے جبکہ وزیراعلیٰ نے جنوبی و شمالی پنجاب میں بھی ایسے وارڈز کے قیام کا حکم دیا ہے۔

اجلاس میں عثمان بزدار کا کہنا تھا کہ پنجاب میں کورونا وائرس کی تشخیص کے لیے سہولت موجود ہے جبکہ ایئرپورٹس پر مسافروں کی سکریننگ کے لیے محکمہ صحت کا اضافہ عملہ تعینات کیا گیا ہے۔

پنجاب کی حکومت نے اس وائرس کے حوالے سے احتیاطی تدابیر اور بچاؤ کے لیے آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔

حکام کے مطابق پنجاب میں محکمہ صحت، شوکت خانم کینسر ہسپتال اور چغتائی لیبز کے پاس کورونا وائرس کی تشخیصی کٹس موجود ہیں۔

میڈیا سے گزارشات
پاکستان میں میڈیا کے ریگیولیٹری ادارے پیمرا نے نشریاتی اداروں کو ہدایت کی ہے کہ ’پازیٹو کیس کی خبر اس وقت تک نہیں چلائی جائے جب تک وفاقی محکمہ صحت اس کی تصدیق نہ کر دے۔

اس ایڈوائزری میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر چلنے والی غیر مصدقہ اطلاعات کو نشر نہ کیا جائے۔


Partner Content: BBC

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: