کورونا وائرس: کن لوگوں کے مرنے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں؟

image


حال ہی میں چین میں پھیلنے والے کورونا وائرس کے انفیکشن سے لڑنے والے ڈاکٹروں کی لڑائی ایسی ہے جیسے وہ کسی نامعلوم دشمن کے خلاف لڑ رہے ہوں۔

یہ آپ کے جسم پر کیسے حملہ آور ہوتا ہے؟ انفیکشن کے بعد انسانی جسم میں کس قسم کی علامات پیدا ہوتی ہیں؟

کن لوگوں کے لیے شدید بیمار ہونے یا مرنے کے خدشات زیادہ ہوتے ہیں؟ اور آپ اس کا علاج کس طرح کریں گے؟

چین کے شہر ووہان کے جنینٹان ہسپتال میں اس وبائی مرض کا علاج کرنے والی ڈاکٹروں کی ٹیم نے اب ان سوالات کے جوابات دینا شروع کردیئے ہیں۔

کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے پہلے 99 مریضوں کے علاج سے متعلق مفصل رپورٹ لانسیٹ میڈیکل جرنل میں شائع ہوئی ہے۔

پھیپھڑوں پر حملہ
ووہان کے جنینٹان ہسپتال میں جن 99 مریضوں کو لایا گیا تھا ان میں نمونیہ کی علامات تھیں۔

ان مریضوں کے پھیپھڑے میں تکلیف تھی اور پھیپھڑوں کے اس حصے میں جہاں سے آکسیجن کا گزر ہوتا ہے وہاں پانی بھرا ہوا تھا۔

دیگر علامات یہ تھیں:
82 افراد کو بخار تھا۔
81 کو کھانسی بھی تھی۔
31 افراد کو سانس لینے میں دشواری تھی۔
11 کو پٹھوں میں درد تھا۔
نو لوگوں کو شکوک و شبہات تھے۔
آٹھ افراد کو سر درد تھے۔
پانچ افراد کو گلے کی سوزش کا مسئلہ تھا۔
 

image


موت کے ابتدائی معاملات
کورونا وائرس سے متاثرہ جن دو افراد کی پہلے پہل موت ہوئی وہ بظاہر صحت مند نظر آ رہے تھے۔

تاہم انھیں طویل عرصے سے سگریٹ کی لت تھی اور ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ سے ان کے پھیپھڑے کمزور ہوگئے ہوں۔

ہسپتال لائے جانے والے 61 سالہ شخص میں شدید نمونیہ کی علامات واضح تھیں۔

انھیں سانس لینے میں شدید دشواری تھی۔ آپ اسے اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ اس شخص کا پھیپھڑا جسم کو زندہ رکھنے کے لیے درکار آکسیجن فراہم نہیں کر پا رہا تھا۔

وینٹیلیٹر پر رکھے جانے کے باوجود اس شخص کے پھیپھڑے ناکام ہوگئے اور اس کے دل نے کام کرنا بند کر دیا۔

دوسرے مریض کی عمر 69 سال تھی اور اسے بھی سانس لینے میں شدید تکلیف ہو رہی تھی۔ مصنوعی طور پر اسے آکسیجن فراہم کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہیں ملی۔

اس کی موت اس وقت واقع ہوئی جب نمونیہ سے ان کا بلڈ پریشر گر گیا۔
 

image


کم از کم دس افراد ہلاک ہوئے
25 جنوری تک 99 افراد میں سے 57 افراد ہسپتال میں تھے۔ 31 کو ہسپتال سے فارغ کردیا گیا تھا۔ 11 افراد کی موت ہو گئی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کورونا وائرس سے مرنے والوں کا فیصد 11 ہوا۔

اس کے باوجود اس بات کا امکان موجود ہے کہ ہسپتال میں داخل افراد اس جنگ میں موت سے ہار گئے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے کہ معمولی علامات میں مبتلا افراد اسپتال نہ پہنچ پائے ہوں۔

بازار کی چیز
ووہان کی ہوانان سی فوڈ مارکیٹ میں فروخت ہونے والے جانوروں کو کورونا وائرس کے انفیکشن کا سبب بتایا جا رہا ہے۔

ووہان کے جنینٹان ہسپتال لائے جانے والے 99 افراد میں سے 49 کا سمندری غذا کے بازار سے رابطہ تھا۔

ان میں سے 47 افراد یا تو ہوانان سمندری غذا مارکیٹ میں منیجر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے یا وہاں دکانیں چلارہے تھے۔ متاثرہ افراد میں صرف دو ہی ایسے تھے جو دراصل خریدار تھے۔
 

image


متاثرہ لوگوں میں ادھیڑ عمر کے زیادہ
99 مریضوں میں سے زیادہ تر ادھیڑ عمر کے تھے۔ ان میں 67 مرد تھے اور مریضوں کی اوسط عمر 56 سال تھی۔

تاہم تازہ ترین اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ کورونا وائرس میں مبتلا ہونے والوں میں صنف کے تعلق سے زیادہ فرق نہیں ہے۔

چین میں امراض پر قابو پانے اور روک تھام کے مرکز کا کہنا ہے کہ اوسطً چھ مردوں کے مقابلے میں پانچ خواتین میں انفیکشن کی تشخیص ہوئی ہے۔

اس فرق کی وضاحت کی جاسکتی ہے۔ یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ مرد کورونا انفیکشن کی وجہ سے شدید بیمار ہوسکتے ہیں اور انھیں ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔

معاشرتی اور ثقافتی وجوہات کی وجہ سے مردوں میں وائرس کی زد میں آنے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
 

image


جنینٹان ہسپتال کے ڈاکٹر لی جانگ کہتے ہیں: 'کورونا وائرس کے انفیکشن کا خطرہ خواتین میں کم ہے کیونکہ انھیں ایکس کروموزوم اور جنسی ہارمون کی وجہ سے زیادہ قوت مدافعت حاصل ہے۔'

وہ لوگ جو پہلے سے بیمار تھے
99 مریضوں میں سے زیادہ تر لوگوں کو پہلے سے ہی کوئی نہ کوئی بیماری تھی۔ اسی لیے ان میں کورونا سے متاثر ہونے کا ایک زیادہ خطرہ تھا۔

ڈاکٹر اسے کمزور قوت مدافعت کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔

40 مریضوں کو دل کی کمزوری یا خون کی شریانوں کی پریشانی تھی۔ انھیں دل کی بیماری تھی اور پہلے دل کا دورہ پڑ چـکا تھا۔ جبکہ 12 افراد ذیابیطس کے مرض میں مبتلا تھے۔


Partner Content: BBC

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

YOU MAY ALSO LIKE: