’پولیو کے قطرے پینے سے میرے نواسے کے پیٹ میں درد ہوگیا
جس کے بعد وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہا۔ میں جاننا چاہتی تھی کہ آخر اس
پولیو کے قطروں میں ایسا کیا ملاتے ہیں جس کی وجہ سے میرا نواسہ مارا گیا۔
پھر مجھے انٹرنیٹ پر ایک ویڈیو ملی جس میں تفصیلاً بتایا گیا تھا کہ اس میں
زہر ہوتا ہے۔‘
|
|
یہ قصہ مجھے پشاور کے علاقے نوتھیا قدیم کی رہائشی زر گل نے سنایا جب میں
ان کے گھر یہ جاننے پہنچی کہ آخر وہ اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے کیوں نہیں
پلانا چاہتیں۔
زرگل کا شمار نوتھیا اور پشاور کے ان افراد میں ہوتا ہے جو پولیو مہم کے
سخت خلاف ہیں۔
زرگل کے بارے میں تو سوچا جا سکتا ہے کہ وہ شاید ناخواندہ ہونے کے باعث
انٹرنیٹ پر موجود پروپیگینڈا کا شکار ہوئی ہیں لیکن پولیو ٹیم کے ہمراہ جب
اس علاقے کے کئی اور گھروں کا دورہ کیا تو معلوم ہوا کہ پولیو کے قطروں کے
خلاف نوتھیا کے کئی رہائشیوں کی رائے بالکل انھی جیسی ہے۔
زرگل کے گھر سے دس قدم کے فاصلے پر جب پشاور ہائیکورٹ کے وکیل عابد قریشی
کے گھر کے سامنے پہنچے تو وہ اس وقت ایک پولیو ٹیم کو اپنے بیٹے کو پولیو
کے قطرے پلانے سے انکار کا سبب بتا رہے تھے۔
|
|
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ وہ کئی سالوں سے اپنے گھر میں
موجود بچوں کو پولیو کے قطرے دے رہے تھے، جو ان کے گھر کی دیوار پر لگے چاک
کے نشانوں سے واضح بھی تھا، لیکن اس سال وہ وجہ جاننا چاہتے ہیں۔
’میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک میں پولیو مہم پر اتنا زور کیوں دیا
جا رہا ہے؟‘ اور یہ کہہ کر وہ ساتھ کھڑے پولیو ورکر سے بحث میں الجھ گئے۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں اپنے بچے کو پولیو کے قطرے نہیں دینا
چاہتے، تو انھوں نے کہا کہ ’ہمیں کیا پتا کہ پولیو کے قطرے میں کون کون سی
چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ لیکن ایسا سننے اور دیکھنے میں آیا ہے کہ، یہ چیز
اکثر بچوں کی نشوونما کو متاثر کرتی ہے۔
’ان کو وقت سے پہلے جوان کردیتی ہے یا کچھ بچوں کو جسمانی طور پر کمزور کر
دیتی ہے۔ تو اس طرح کی ویڈیوز ہم نے دیکھی ہیں۔ تو کون چاہے گا اس کی اولاد
اس طرح ہوجائے؟‘
|
|
خیبر پختونخواہ کے 58000 بچے کہاں ہیں؟
رواں سال پاکستان میں اب تک پولیو کے چار مریضوں کی تشخیص ہوئی ہے جبکہ
2018 میں پاکستان کے مختلف علاقوں سے 12 کیس سامنے آئے تھے۔
حال ہی میں پشاور کے 51 اضلاع میں جاری مہم کے دوران حکومتی ارکان کے ذریعے
یہ پتا چلا کہ صرف پشاور میں 12 ہزار بچے جبکہ خیبر پختونخوا میں مجموعی
طور پر 58 ہزار بچے پولیو کے قطرے پینےسے محروم رہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے یونین کونسل کے رکن، کلیم اللہ نے بتایا کہ ’اس
کی ایک بڑی وجہ نیٹ پر پولیو مہم کے خلاف موجود افواہیں ہیں۔ جس کے نتیجے
میں زیادہ تر بچے پولیو مہم کے دوران ’دستیاب نہیں‘ کی فہرست میں شامل ہیں۔‘
|
|
انھوں نے کہا کہ ’جب پولیو اہلکار گھروں میں جاتے ہیں تو والدین اپنے بچوں
کو ظاہر نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ نانی یا کسی اور رشتہ دارکے گھر گئے ہیں۔‘
کلیم اللہ نے کہا کہ اس کا حل یوں نکالا گیا ہے کہ اب بس اڈوں پر ہر آنے
جانے والی بسوں میں موجود بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کا نظام شروع کیا جا
رہا ہے اور ’ساتھ ہی جن علاقوں میں یہ بچے جاتے ہیں ہم وہاں پر موجود اپنی
ٹیموں کو خبر دے دیتے ہیں تاکہ وہ وہاں ان کو پولیو کے قطرے پلا دیں۔‘
لیکن اگر ڈپٹی کمشنر پشاور عمران احمد شیخ کی طرف سے پولیو مہم پر کام کرنے
والے اداروں کو لکھے گئے خطوط کو دیکھا جائے، تو صاف تاثر ملتا ہے کہ وہ
مقامی اور بین الاقوامی اداروں کو پولیو مہم کو مزید مؤثر بنانے کا پابند
کرنا چاہتے ہیں۔
ڈپٹی کمشنر پشاور عمران احمد نے صرف دو ماہ میں پولیو منتظمین کو 11 خط
لکھے جن میں پولیو مہم کو مزید مؤثر بنانے کے ساتھ ساتھ انھوں نے پشاور کے
ان بچوں کا بھی ذکر کیا جو مہم کے دوران دستیاب نہیں ہیں۔
|
|
لیکن بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے ان خطوط پر بات کرنے سے انکار
کردیا۔ انھوں نے کہا کہ ’اس وقت ہمارا سب سے بڑا مسئلہ پولیو مہم کے مِسنگ
بچوں کا ہے۔‘
’پشاور میں 12000 بچوں کے دستیاب نہیں ہونے کی بڑی وجہ پولیو مہم کے بارے
میں خیالات اور پشاور سے لوگوں کا آنا جانا ہے۔ ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ
بچوں کو بروقت پولیو کے قطرے پلانے کے نظام کو مزید بہتر کریں۔‘
حکومتی ذرائع کے مطابق، ملک بھر میں پولیو مہم پر ہونے والا 90 فیصد خرچہ
پاکستان خود برداشت کرتا ہے۔ جبکہ انسانی اور تکنیکی وسائل کے لیے بین
الاقوامی اداروں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسیف سے مدد لی جاتی ہے۔
حکومتی ذرائع کے مطابق، پشاور، بنّوں اور کوہاٹ میں نئے پولیو وائرس کی
تشخیص اور پولیو مہم کی نگرانی میں کمی کے باعث، اگر مقامی اور بین
الاقوامی محکموں کو پولیو مانیٹرنگ نظام بہتر کرنے کا پابند نہ کیا گیا تو
ٹیکس دہندگان کے اربوں روپے ضائع ہونے کا خطرہ ہے۔
|