ایک تھا فلائیٹ لیفٹیننٹ ناچی کیتا

 مئی 1999 کو بٹالک کی چوٹیوں پر گھمسان کا رن تھا. وہ سوشل میڈیا کا دور نہیں تھا اور نہ ہی اس وقت شور و غوغا کرنے والے ٹی وی اینکر تھے، جنگ میدانوں سے پہاڑوں اور آسمانوں تک پھیل چکی تھی. ایک طرف ہندوستان کی فوج تھی اور دوسری طرف پاکستان کی اور اس جنگ کی وجہ وہی ستر سالہ پرانا مسئلہ کشمیر تھا جسے میں دنیا کی خوبصورت ترین جیل کہتا ہوں .

کشمیر پر ہر دور میں بیرونی در انداز فوج کشی کرتے رہے. تاریخ کا سفر جستجو کا سفر ہوتا ہے مگر اس میں ایک بھیانک خواب کا تجربہ بھی کرنا پڑتا ہے. کشمیر کے سبزہ زاروں، بہتے چشموں اور فلک بوس پہاڑوں کی خوبصورتی کے پیچھے ایک ظلم اور جبر کا خوف ناک پس منظر بھی ہے، اس میں ایک ایسا آسیب بھی بستا ہے جو لاکھوں جانیں لے کر بھی غائب نہیں ہوا. کہاں سے شروع کیا جائے؟ افغانوں سے، سکھوں سے، ڈوگروں سے یا ابھی کے حکمرانوں سے؟

پچھلے کچھ ہفتوں سے یہی آسیب جو لاکھوں کشمیریوں کا قاتل ہے ایک بار پھر چاہتا ہے کہ اسے جنت کے مظلوموں کے لہو کی بلی چڑھائی جائے اور وہ اپنے انداز میں کبھی بارود کی صورت آسمانوں سے برستا ہے اور کبھی گولی کی صورت زمین پر نہتے لوگوں کو نشانہ بناتا ہے. اس آسیب کا کوئی مذہب نہیں ہے یہ صرف خوف کے نوالے کھاتا ہے اور لہو سے پیاس بھجاتا ہے. اس آسیب کی شکل بھی بھیانک ہے، کہیں یہ کیمرے کے سامنے بیٹھا چلا رہا ہوتا ہے اور کہیں یہ عوامی جلسوں میں عوام کو اکسا رہا ہوتا ہے.
27 مئی 1999 کو میں گورنمنٹ کالج میرپور میں بی اے کا طلب علم تھا اور کارگل کی جنگ زوروں پر تھی. اس جنگ نیبٹالک، سیاری، دراس، مشکوہ، بلتستان کے مختلف علاقوں اور کارگل سے لیکر میرے گھر تک کے افراد کو اپنی لپیٹ میں لے لیا. اس جنگ نے میرے گھر میں بہت سے لوگوں کی زندگیاں بدل دیں. میرا گھر بلتستان یا کارگل میں نہیں ہے مگر بلتستان اور کارگل میرے گھر کا حصہ ہیں.

اس جنگ میں دونوں جانب کی افواج لڑیں، بہت سے بہادر بیٹے اپنے گرم لہو کے صدقے دیتے رہے اور جب جنگ تھمی تو پتہ چلا کہ دونوں جانب ایک بڑے پیمانے پر نقصان ہوا. بہت سے گھروں کے چراغ بجھ گئے، بہت سے بیٹے جو گھروں سے دفاع وطن کے لیے گئے کبھی لوٹے نہیں اور جو لوٹے وہ اپنے ساتھ اس جنگ میں نہ دکھنے والے زخم لائے. جنگیں اسی آسیب کا پسندیدہ مشغلہ ہیں جو آج پھر سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک اور جنگ کروانا چاہتا ہے.

مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر جنگ ہوتی ہے تو افواج پاکستان کبھی ' رولز آف انگیجمنٹ ' سے باہر نہیں جائے گی مگر دوسری طرف کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا کیونکہ وہ آسیب آج پورے بھارتی میڈیا اور بھارتی حکومت کے ذہنوں کو مفلوج کر چکا ہے جو جنگ چاہتا ہے. کچھ روز قبل اس کی ایک جھلک دنیا نے دیکھی جب بھارتی ہوائی جہاز پاکستان میں داخل ہوئے، حزیمت کا شکار ہوئے اور واپس لوٹ گئے مگر ہماری جانب سے آسیب زدہ سوچوں نے جنگ کا مطالبہ کیا، کچھ نے کہا کہ یہ غیرت کا مسئلہ ہے، اینٹ کا جواب پتھر سے دو، دوسری جانب ڈھول باجے بجائے گئے اور فتح کا جشن منایا گیا،مگر پاکستان کے پالیسی سازوں نے حکمت اور دانشمندی سے کام لیا اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ پاکستان کے ہوا بازوں نے سارا کھیل بدل دیا اور آسمان سے بارود برسانے والا مہمان خود پاکستان کی قید میں آ گیا. ونگ کمانڈر ابھے نندن کو میرے گاؤں سے کچھ میل کے فاصلے پر ایک وادی میں عوام نے دبوچ لیا، لوگ اسے مارنا چاہتے تھے کیونکہ پچھلے کچھ ماہ سے لائین آف کنٹرول پر جس انداز سے بھارتی فوج جنگی جنون کا مظاہرہ کر رہی تھی اس کا انہیں غصہ تھا اور آج ونگ کمانڈر ابھے نندن بھی کہیں اپنے جنگی آسیب کو کچھ معصوم لوگوں کی بلی چڑھانے آیا تھا. مگر پھر پاک فوج یہاں آئی انہوں نے اسے نہ صرف عزت سے گرفتار کیا بلکہ اس کی جان بچائی، مگر یہ پہلی بار نہیں. میں نے اپنی بات کا آغاز 27 مئی 1999 سے اس لیے کیا تھا کیونکہ اس جنگ میں بھی ایک مہمان لوہا برساتے برساتے لوہے کے ساتھ پاکستان کا مہمان بنا تھا اور اس کا نام گروپ کیپٹن کمبم پتی ناچی کیتا تھا تب ناچی کیتا فلائیٹ لیفٹیننٹ تھا.

آج جو گلے پھاڑ پھاڑ کر جنگ کو دعوت دے رہے ہیں وہ اس دہشت گرد سے زیادہ خطرناک لوگ ہیں جو تسکین کے لیے قتل کرتا ہے ۔آج دوپہر جب پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ونگ کمانڈر ابھے نندن کو واپس بھجوانے کا اعلان کیا تو ایک دم پاکستان میں ایک واویلا مچ گیا اب چونکہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور اب ہر شخص اپنی ذات میں ایک انجمن ہے اور اس انجمن میں کہیں نہ کہیں کوئی چھوٹا سا تجزیہ نگار بیٹھا ہے اور سب کوشش کرتے ہیں کہ ان کا تجزیہ نگار جو بولے اسے سنا بھی جائے مگر بکواس سننے کی بھی ایک حد ہوتی ہے.

میں اپنی باتوں میں مذہبی حوالے دیکر کوئی مفکر نہیں بننا چاہتا مگر جب میں نے یہ تبصرے پڑھے تو فورا مجھے فلائیٹ لیفٹیننٹ ناچی کیتا یاد آیا، آئی یس پی آر میں صحافیوں کو دی جانے والی بریفنگ یاد آئی اور میں نے پرانے ڈبے کھولے ان میں سے کچھ تصویریں ڈھونڈھ نکالیں جو فلائیٹ لیفٹیننٹ ناچی کیتا کی پہلی قید میں آنے کے بعد آفیشل فوٹو شوٹ تھی، اس کے جہاز کے ملبے کی تصاویر اور اس کی پریشانی اور حیرت میں ڈوبی آنکھوں کی تصاویر. اس وقت میاں نواز شریف پاکستان کے وزیر ا عظم تھے اور جو آج ہوا وہی تب ہوا، کچھ روز فلائیٹ لیفٹیننٹ ناچی کیتا کو مہمان رکھا گیا اور پھر اسے بھی واپس کرنا پڑا. تنقید کرنے والے تب بھی شائد تنقید کر رہے ہونگے مگر مجھے یاد نہیں اگر کسی نے میاں نواز شریف کو بزدل اور ڈرپوک کہا ہو.

ہندوستان میں میڈیا اور عوام کو جس نفرت کی پہلی خوراک اس کی حکومت نے دے کر جنم دیا ہے اس کی نسبت پاکستان کی عوام، میڈیا کی ایک بڑی تعداد، کچھ کو چھوڑ کر سب کو بہت تحمل کا مظاہرہ کیا. آج پاکستان کا پائلٹ واپس کرنے کا فیصلہ تنقید کے بجائے تائید چاہتا ہے کیونکہ حتمی طور پر پاکستان کو اس پائلٹ کو واپس تو کرنا ہی ہے مگر اس کی واپسی انڈیا کے لیے اس ھزیمت و شکست سے بڑا تمانچہ ہے جو جنگ ہارنے کے بعد کوئی ملک اٹھاتا ہے. ابھی جذبات گرم رکھنے والے بہت شور کر رہے ہیں اور میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ اسے حکومت کی ناکامی کہتے ہیں مگر کیا انہیں پتہ ہے کہ ایک فلائیٹ لیفٹیننٹ ناچی کیتا بھی تھا جو واپس بھجوایا گیا تھا کیا اس کے جانے سے ہم کمزور ہو گئے؟ نہیں، فوج ہوشیار اور دید بان چوکس ہیں اور دشمن کے لیے یہ پیغام دے کر اس پائیلٹ کو واپس بھجوا رہے ہیں کہ آپ کی تشریف آوری کا شکریہ آپ کو چائے پلانی تھی جس کی آپ نے مزے سے چسکیاں لی ہیں اگر پھر آنا ہوا تو ہم آپ کی خدمت ایسے ہی زمین پر گرا کر کریں گے اور ہم جھوٹ نہیں بولیں گے کہ ہم نے درختوں پر سرجیکل اسٹرائیک کی ہے کیونکہ
ہمیں پسند نہیں جنگ میں بھی مکاری
جسے نشانے پہ رکھیں بتا کے رکھتے ہیں

Anwaar Raja
About the Author: Anwaar Raja Read More Articles by Anwaar Raja: 71 Articles with 69717 views Anwaar Ayub Raja is a professional Broadcaster, voice over artist and linguist for Urdu and Mirpuri languages. Soon after graduating from University o.. View More