بدعت ائمہ اور محدثین کے نزدیک آخری حصہ

(44) محمد بن علوی المالکی المکی رحمۃ اللہ علیہ (1425ھ) :-

بعض لوگ بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کرنے پر تنقید کرتے ہیں اور اس کے قائلین پر بہت شدت سے رد کرتے ہیں بلکہ بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جو ان پر فسق اور گمراہی کے فتوے لگاتے ہیں اور یہ رد اس لئے کرتے ہیں کہ اس تقسیم سے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صریح قول اور واضح ارشاد وَکُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ کی مخالفت ہوتی ہے جبکہ یہ قول صراحۃ ہر بدعت کو شامل ہے اور اس کی گمراہی پر بھی صریح ہے۔ اسی وجہ سے تم ان کو یہ کہتا دیکھو گے کیا صاحبِ شریعت صاحب رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان کے بعد ہر بدعت گمراہی ہے کسی مجتہد یا فقیہ یا جو بھی اس کا رتبہ ہو یہ کہنا صحیح ہوسکتا ہے کہ نہیں نہیں ہر بدعت گمراہی نہیں بلکہ بعض بدعتیں گمراہی ہیں؟ بعض اچھی اور بعض بری ہیں۔

اور اس طرح کے اعتراضات کی وجہ سے بہت سے لوگ دھوکہ میں آجاتے ہیں اور وہ بھی ان معترضین کے ساتھ چیخ اٹھتے ہیں اور منکرین کے ساتھ وہ بھی انکار کر بیٹھتے ہیں چنانچہ ان لوگوں کی جماعت بڑھتی جاتی ہے جنہوں نے نہ مقاصدِ شرعیہ کو سمجھا اور نہ دین اسلام کی روح کو چکھا۔

پھر چند روز ہی گزرتے ہیں کہ یہی معترضین ایسی مشکل میں پڑجاتے ہیں جس سے بچنے کی راہ نکالنا ان کے لئے دشوار ہوتا ہے اور ان کی روز مرہ کی معیشت اس کی واضح دلیل ہے۔ لازماً وہ ایسے حیلہ کی پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ جس کے بغیر ان کے لئے کھانا پینا اور رہنا سہنا بلکہ لباس پہننا اور سانس لینا تک مشکل ہوجائے اور جس حیلہ کے بغیر نہ تو وہ ذاتی اور خانگی معاملات طے کرسکتے ہیں۔ اور نہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں سے کوئی معاملہ کرسکتے ہیں۔ اور وہ حیلہ یہ ہے کہ وہ واضح لفظوں میں کہہ اٹھتے ہیں کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں، بدعتِ دینیہ اور بدعتِ دنیویہ.

ہائے اﷲ ان کھلاڑیوں نے کیسے اپنے نفس کے لئے یہ تقسیم گھڑلی یا کم از کم یہ نام کس طرح گھڑ لیا۔ اور اگرتسلیم بھی کرلیا جائے کہ یہ چیزیں عہدِ رسالت میں موجود تھیں تو یہ بدعت کی تقسیم دینیہ اور دنیویہ کی توعہدرسالت میں ہرگز موجود نہ تھی، تو پھر یہ تقسیم کہاں سے آگئی؟ اور یہ نو ایجاد بدعتی نام کہاں سے آگیا؟

لہٰذا جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ بدعت کو حسنہ اور سیئہ کی طرف منقسم کرنا شارع کی طرف سے نہیں ہے اس لئے غلط ہے تو ہم ان کو جواب میں کہتے ہیں کہ بالکل اسی طرح بدعت کو ناپسندیدہ بدعت دینیہ اور پسندیدہ بدعتِ دنیویہ کی طرف منقسم کرنا بھی اختراع اور بدعت ہے۔ اس لئے کہ شارع علیہ السلام تو علی الاطلاق فرماتے ہیں کہ وَکُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ اور یہ کہتے ہیں کہ نہیں نہیں، ہر بدعت مطلقاً گمراہی نہیں بلکہ بدعت کی دو قسمیں ہیں بدعتِ دینیہ اور وہ گمراہی ہے اور بدعتِ دنیویہ جس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔

اس لئے ضروری ہے کہ ہم ایک اہم مسئلہ کی وضاحت کردیں جس کی روشنی میں بہت سے اشکالات حل ہوجائیں گے اور بہت سے شبہات دور ہوجائیں گے۔ انشاء اﷲ تعالیٰ.

وہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کُلُّ بِدْعَۃ ضَلاَلَۃ کے قول کے متکلم شارع حکیم ہیں۔ ان کا فرمان شرعی فرمان ہے اس لئے نہایت ضروری ہے کہ ان کے فرمان کو انہی کے لائے ہوئے شرعی میزان میں پرکھا جائے۔ اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ بدعت اصلاً ہر نو پیداوار اور نو ایجاد چیز کو کہا جاتا ہے تو تمہارے ذہن میں یہ بات بھی رہنی چاہیے کہ زیادتی اور نئی ایجاد وہ ممنوع ہے جو زیادتی دین میں کی جائے اور دینی چیز قرار دینے کے لئے ہو اور شریعت میں شرعی رنگ دینے کے لئے کی جائے۔ تاکہ وہ زیادتی قابل اتباع شرعی چیز بن کر صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوجائے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس سے ہمارے آقا اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے قول کے ذریعہ ڈرایا ہے کہ :

من احدث في امرنا هذا ماليس منه فهورد

جو ہمارے اس دین میں ایسی بات ایجاد کرے جو درحقیقت دین سے نہ ہو وہ مردود ہے۔

اس لئے اس موضوع میں حدِ فاصل آپ کا یہ قول ’’فی امرنا ھذا‘‘ ہے اور اسی لئے ہمارے نزدیک بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کی طرف کرنا صرف اور صرف لغوی اعتبار سے ہے (اور بدعتِ لغوی کا مفہوم نوپیداور نوایجاد ہے) بلاشبہ ہم بدعت کے شرعی مفہوم کے اعتبار سے معترضین کے ساتھ متفق ہیں کہ وہ بدعت گمراہی اور فتنہ ہے، جو مذموم، مردود اور انتہائی ناپسندیدہ ہے اور اگر معترضین اس حقیقت کو سمجھ لیتے تو ان پر خود روشن ہوجاتا کہ ہمارا آپس میں تقریباً اتفاق ہی ہے اور جھگڑنے والی کوئی بات نہیں۔

اور میرے ذہن میں ایک اور بات بھی ہے جس سے دونوں قسم کی فکریں ایک معلوم ہوتی ہیں۔ وہ یہ ہے کہ جو لوگ بدعت کی تقسیم کے منکر ہیں وہ صرف بدعتِ شرعیہ کی تقسیم کا انکار کرتے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے خود ہی بدعت کو دینیہ اور دنیویہ کی طرف منقسم کردیا ہے اور اس پر اعتبار کرنا ان کی ضرورت ہے۔

اور جو لوگ بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کی طرف کرتے ہیں وہ بدعت لغویہ کے اعتبار کرتے ہیں کیونکہ ان کا یہ بھی تو کہنا ہے کہ دین اور شریعت میں زیادتی کرنا گمراہی اور گناہِ کبیرہ ہے۔ اور یہ بات ان کے نزدیک بلاشبہ ثابت ہے اس لئے یہ ایک صوری اختلاف ہے (حقیقۃ نہیں)۔

اگرچہ میرے خیال میں ہمارے بھائی بدعت کی تقسیم حسنہ اور سیئہ کرنے کے منکر ہیں اور بدعت کو دینیہ اور دنیویہ پر تقسیم کرتے ہیں ان کی بات زیادہ باریک بینی اور احتیاط پر مبنی نہیں، کیونکہ جب انہوں نے بدعتِ دینیہ کو گمراہی کہا (اور یہ بات حق بھی ہے) اور بدعتِ دنیویہ پر یہ حکم لگایا کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں تو ان کی یہ بات کوئی اچھی نہیں کیونکہ اس طرح تو انہوں نے ہربدعت دنیویہ کو مباح کہہ دیا جب کہ اس میں بہت عظیم خطرہ ہے اور اس سے تو بڑا فتنہ اور مصیبت واقع ہوسکتی ہے جس کی بناء پر بہت ضروری ہوا کہ اس قضیہ کے ساتھ یہ تفصیل بھی وہ بیان کریں کہ ’’بدعتِ دنیویہ میں بھی بعض امور خیر ہیں اور بعض امور شر ہیں۔ کوئی اندھا اور جاہل ہوگا جو ان امور شر کا نظارہ نہ کرتا ہو اس لئے اس تفصیل کا بیان بہت ضروری ہوا۔

اور جو لوگ بدعت کو حسنہ اور سیئہ پر منقسم کرتے ہیں اور یہ بات متحقق ہے کہ ان کی مراد اس سے بدعتِ لغویہ ہے جیسا کہ پہلے (کلام) گزر چکا ہے (اور اس تقسیم کے منکرین اسی کو بدعتِ دنیویہ سے تعبیر کرتے ہیں) ان لوگوں نے اس مفہوم کو بہت مختصراً اور دقیق انداز میں بیان کیا ہے اور ان کا یہ قول انتہائی باریک بینی اور احتیاط پر مبنی ہے۔ اور یہ قول ہر نو ایجاد چیز کو شرعی احکام اور دینی قواعد کا پابند کر رہا ہے اور تمام مسلمین پر یہ لازم کر رہا ہے کہ ان کے سامنے جب بھی کوئی بدعت آئے اور کسی بھی نو ایجاد چیز سے ان کو واسطہ پڑے عموماً دنیاوی امور میں اور خصوصاً شرعی امور میں تو وہ اس میں شرعی حکم معلوم کریں اور یہ مفہوم جب ہی ہو گا کہ بدعت کو ائمہ اصول کے قول کے مطابق عمدہ اور معتبر طور پر تقسیم کیا جائے۔
Mohammad Adeel
About the Author: Mohammad Adeel Read More Articles by Mohammad Adeel: 97 Articles with 93539 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.